کچھ اور طرح کا کالم – حسن نثار
یہ کائنات نہیں سلسلہ ہائے کائنات اتنا طویل، گھمبیر، پیچیدہ، پُراسرار، حیرت انگیز اور ناقابلِ فہم و یقین ہے کہ انسانی عقل اس کے سامنے مکمل طور پر عاجز ہے۔ یہ کھیل یوں بھی شہہ دماغوں کا کام ہے اس لئے اس کا تو ذکر ہی کیا۔
عام آدمی تو عام ترین موضوعات پر زندگی بھر اندھیرے، لاعلمی، بےخبری بلکہ بےوقوفی اور احمقانہ قسم کے مفروضوں اور MYTHSکا شکار رہتا ہے اور آخری وقت تک یہ نہیں جان پاتا کہ وہ زندگی بھر کبھی اندھیرے، کبھی دھند میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہا ہے۔
ڈاکٹر N.C. ASTHANAاور ڈاکٹر ANJALIنے ایسی MYTHS 150اور MISCONCEPTIONSکی سائنسی انداز میں دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں جو اکثر لوگوں کو زندگی بھر گھیرے رکھتی ہیں۔
کمال یہ کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی بتانے سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ شاید نسلوں پر محیط یہ MYTHSان کے ڈی این اے کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں مثلاً خواتین کی اکثریت جسم پر اگنے والے بالوں سے پریشان ہوتی ہے اور بال ختم کرنے والی مصنوعات کے اشتہارات نے اس خیال کو جنم اور تقویت دے رکھی ہے کہ شیونگ صرف مردوں کے لئے ہے اور اگر خواتین بالوں سے نجات کے لئے شیو کریں گی تو ان کے بال بہت زیادہ اور گھنے ہو جائیں گے جو کہ سراسر بےبنیاد اور غیرسائنسی بات ہے۔
اس مفروضہ کو کمپنیوں نے عام اور مشہور کیا ہے کیونکہ شیو کرنا ایک بہت ہی سستا متبادل ہے اور اگر خواتین نے شیو کرنا شروع کر دیا تو ان کمپنیوں کی مہنگی مصنوعات کون خریدے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ جسم پر بالوں کی تعداد ہارمونز کے توازن پر منحصر ہے۔
ایک دس سالہ لڑکے کی داڑھی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے جسم میں مردانہ ہارمونز کی مطلوبہ مقدار موجود نہیں ہوتی جس سے داڑھی اگ سکے اور اس کی داڑھی شیو کرنے سے نہیں آ سکتی۔
چینی جاپانی نسل کے مردوں کے چہروں پر بال بہت ہی کم ہوتے ہیں تو کیا وہ دن میں تین بار شیو کرنے سے بھی زیادہ بال اگا سکتے ہیں؟ ویسے بھی شیونگ ایک مصنوعی غیرفطری کام ہے جس سے بالوں کو زیادہ یا گھنا نہیں کیا جا سکتا۔
عورتوں کے لئے شیونگ میں صرف ایک خرابی ہے کہ لاپرواہی برتنے سے زخم ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے گرم موم سے کی جانے والی ویکسنگ نہایت تکلیف دہ اور ٹھنڈی موم سے کی جانے والی ویکسنگ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔
بال صاف کرنے والی کریمیں حساس جلد کو کئی طرح متاثر کر سکتی ہیں، خاص طور پر جسم کے اُن حصوں کو جہاں جلد زیادہ نازک ہوتی ہے۔ اس کے برعکس شیو کرنے میں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
اب چلتے ہیں خشکی سکری کی طرف جو بلاشبہ ایک ’’عالمی مسئلہ‘‘ ہے۔ کوئی بھی فیشن میگزین اٹھا کر دیکھ لیں اکثر سوالات کا تعلق اسی موضوع سے ہوگا۔ دوسری طرف جسے دیکھو خشکی سے نجات کے لئے کوئی نہ کوئی ٹوٹکہ اٹھائے پھرتا ہے مثلاً لیموں پانی، چقندر، سانپ لوکی، تین دن تک کھلی ہوا میں پڑا ہوا دہی اور میتھی کا تیل وغیرہ جبکہ سائنسی حقیقت یہ کہ ان میں سے کوئی بھی موثر نہیں۔
لوگوں کی بھاری اکثریت خشکی پیدا کرنے والے عوامل سے ہی واقف نہیں لہٰذا کوئی بھی نسخہ، ٹوٹکہ، دوائی ہر قسم کی خشکی کے خاتمہ کے لئے موثر نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کی بیشمار وجوہات ہوتی ہیں اور کوئی حربہ ان تمام اسباب کا سدباب نہیں ہو سکتا۔ اس نامراد خشکی کی سب سے بڑی وجہ فنگس ہوتی ہے اور یہ فنگس صرف اینٹی فنگل دوا سیٹو کینا زول سے ہی ٹھیک ہو سکتی ہے، کچھ لوگوں میں غدودوں کی وجہ سے خشکی ہوتی ہے۔
روزانہ مخصوص شمپو سے فائدہ ہو سکتا ہے اور اس کے برعکس شمپو کی کثرت سے خشکی میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ شمپوز سلفر سے تیار کئے جاتے ہیں جو خشکی کے ذروں کو کمزور کر کے خشکی کے خلاف مدد کرتے ہیں۔
کچھ لوگوں میں روغنی جلد کی وجہ سے بھی خشکی جنم لیتی ہے جو زنک یا سیلسینم والے شمپو سے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ یہ بھی دھیان میں رہے کہ ہیئر جیلز اور سپرے وغیرہ کے استعمال سے الرجی بھی ہو سکتی ہے سو آپ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی گھریلو ٹوٹکہ خشکی کو ختم کرنے میں مدد نہیں دے سکتا۔
برصغیر پاک و ہند کا ایک مسئلہ یہ کہ کردار اور کرتوت چاہے کالے ہی رہیں، رنگ ضرور گورا ہونا چاہئے اس لئے ان معاشروں میں رنگ گورا کرنے والی کریموں کا سیلاب جاری رہتا ہے جبکہ سائنسی تحقیق اسے سو فیصد بکواس قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کرتی ہے کیونکہ جلد کا رنگ میلانین کی مقدار پر منحصر ہے۔ یہ خالصتاً ایک اندرونی عمل ہے۔ کسی بھی قسم کا بیرونی استعمال جلد کی اس بنیادی رنگت کو نہیں بدل سکتا جو آپ کو وراثت میں ملی ہو۔
باقی رہ گیا شوق تو ظاہر ہے شوق کا کوئی مول نہیں۔
قارئین! کالم جیسا بھی ہو، اس بات کی داد ضرور دیں کہ سیاست کی نجاست سے پاک ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Kuch aur Tarah ka Column By Hassan Nisar