کتا فلاسفی- جاوید چوہدری
کتا سڑک کے عین درمیان کھڑا ہو گیا‘ دائیں جانب بھی گاڑی تھی اور بائیں طرف بھی‘ ہمارے پیچھے بھی گاڑی تھی‘ ڈرائیور بے بس ہو گیا‘ وہ بریک لگاتا تو پچھلی گاڑی ہماری گاڑی سے ٹکرا جاتی اور وہ اگر دائیں یا بائیں ہو کر کتے کو بچانے کی کوشش کرتا تو گاڑی ساتھ والی گاڑی سے ٹکرا جاتی چنانچہ اس کے پاس کتے کو کچلنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘ میں نے آنکھیں بند کر لیں‘ہم یا کتا اب یہ فیصلہ ہونا تھا۔
میں خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے لگا‘ چند سیکنڈ میں ٹھک کی آواز آئی‘ فضا میں کتے کی چیخ گونجی اور ہم آگے نکل آئے‘ میں نے آنکھیں کھول کر ڈرائیور سے پوچھا ’’کتے کا کیا بنا‘‘ وہ شرما کر بولا ’’سر ہم جب اس کے قریب پہنچے تو وہ ہم سے بچنے کے لیے سیدھا دوڑ پڑا اور ساتھ والی گاڑی سے ٹکرا گیا‘ وہ مر گیا اور گاڑی کا بمپر ٹوٹ گیا‘‘ میں نے لمبا سانس لیا اور دوبارہ آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔
یہ ان نوے فیصد کتوں میں سے ایک تھا جو سڑک پر آتے ہیں اور کسی نہ کسی گاڑی سے ٹکرا کر زندگی کی حدود پار کر جاتے ہیں‘ کتے جنیٹکلی سڑک پر پہنچ کر کنفیوژ ہو جاتے ہیں‘ یہ فیصلہ نہیں کر پاتے میں دائیں نکلوں‘ بائیںنکلوں‘ آگے کی طرف دوڑ پڑوں یا پھر واپس لوٹ جاؤں‘ یہ کنفیوژن ان کی موت کا باعث بن جاتی ہے چنانچہ یہ کسی نہ کسی گاڑی کے نیچے آ جاتے ہیں۔
حیوانات کے ماہرین کا دعویٰ ہے سڑک پر آنے والے نوے فیصد کتے گاڑیوں سے ٹکرا کر مر جاتے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں حادثوں میں مرنے والی بلیوں کی تعداد صرف دس فیصد ہوتی ہے‘ کیوں؟کیونکہ بلیاںفوکسڈ اورکلیئر ہوتی ہیں‘ یہ سڑک کے کنارے پہنچتے ہی فیصلہ کر لیتی ہیں مجھے گزرنا چاہیے یا پھر رک جانا چاہیے چنانچہ آپ کو سڑکوں پر نو کتوں کے بعد ایک بلی کی لاش ملتی ہے اور وہ بھی عموماً بلی کا بچہ ہوتا ہے یا پھر اندھی‘ بیمار‘ بوڑھی اور لنگڑی بلی۔
ہم اگر کتے اور بلی کی اس عادت کو فلسفہ سمجھ لیں تو ہم اسے کتا فلاسفی اور بلی فلاسفی کہہ سکتے ہیں‘ کتا فلاسفی سڑک پر پہنچ کر جاؤں یا نہ جاؤں یا کس طرف جاؤں اورکس طرف نہ جاؤں پر مبنی ہوتی ہے جب کہ بلی اس کے مقابلے میںجب بھی سڑک پار کرنے نکلے گی تو یہ پار کر جائے گی یا اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ جائے گی‘ہمیںکتے اور بلی کی یہ فلاسفی انسانوں اور معاشروں میں بھی دکھائی دیتی ہے‘ ہم میں سے بے شمار لوگ کتوں کی طرح پوری زندگی کنفیوژ رہتے ہیں‘یہ میں جاؤں یا نہ جاؤں‘ کروں یا نہ کروں‘ جاری رکھوں یا ختم کر دوں‘ واپس چلا جاؤں یا آگے بڑھتا رہوں۔
میرے لیے یہ اچھا رہے گا یا وہ‘ میں سوٹ پہنوں یا شلوار قمیض‘ مجھے داڑھی رکھنی چاہیے یا کلین شیو رہنا چاہیے‘ میں مذہبی ہو جاؤں یا لبرل‘ مجھے اردو میں تعلیم حاصل کرنی چاہیے یا انگریزی میں اور مجھے فیملی کو وقت دینا چاہیے یا پھر اپنے پروفیشن کو‘ ہم میں سے نوے فیصد لوگ زندگی کی شاہراہ پر کھڑے ہو کر اس کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں جب کہ بلی جیسے دس فیصد لوگ چپ چاپ آگے نکل جاتے ہیں۔
یہ لبرل ہو جاتے ہیں یا پھر مذہبی‘ یہ اردو نویس بن جاتے ہیں یا پھر انگلش اسپیکنگ‘ یہ کام کرتے ہیں یا پھر زندگی بھر آرام‘ یہ کارآمد ہوتے ہیں یا بے کار اور یہ بے ایمان ہوتے ہیں یا پھر ایماندار‘ یہ کتوں کی طرح سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر فیصلہ نہیں کرتے چنانچہ یہ زندگی کی شاہراہ سے بچ کر گزر جاتے ہیں‘ یہ تقسیم لوگوں کی طرح معاشروں میں بھی ہوتی ہے‘ کتا فلاسفی کے شکار معاشرے ہم جیسی غلطیاں کرتے ہیں‘ یہ ستر ستر سال کنفیوژن میں رہتے ہیں۔
یہ رائل‘ صدارتی‘ مارشل لاء اور پارلیمانی نظام ٹرائی کرتے رہتے ہیں‘ یہ کبھی سرمایہ دار بن جاتے ہیں‘ کبھی سوشلسٹ ہو جاتے ہیں اور کبھی اسلامی‘ یہ کبھی لبرل بن کر کراچی جیسے شہروں کو عیاش سیاحوں کی جنت بنا دیتے ہیں اوریہ کبھی اسے طالبان کا مورچہ بنا دیتے ہیں‘ یہ پہلے باوردی صدور کو نکال کر جمہوریت لاتے ہیں اور پھر آمریت کی دعائیں کرتے ہیں‘ یہ لوڈ شیڈنگ سے تنگ آ کر واپڈا کے دفتروں پر حملے کرتے ہیں اور جب بجلی پوری ہو جاتی ہے تو یہ ’’ملک کو قرضوں میں ڈبو دیا‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ پبلک ٹرانسپورٹ کے مطالبے کرتے ہیں لیکن جب میٹروز بن جائیں یا اورنج لائن ٹرین شروع ہو جائے تو یہ اس کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ یہ ’’ہمیں بین الاقوامی معیار کے اسپتال چاہئیں‘‘ کے مطالبے بھی کرتے ہیں لیکن جب پی کے ایل آئی جیسے ادارے بن جائیں تو یہ اسے چلنے نہیں دیتے‘ یہ پی آئی اے کو دنیا کی سب سے اچھی ایئر لائن بھی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب کہا جائے ہمارے پاس جہاز 32 اور پائلٹ 526 ہیں‘ پی آئی اے کا روزانہ خسارہ 11 کروڑ روپے ہے اورپرائیوٹائزیشن کے علاوہ اس کا کوئی حل نہیں تو یہ سڑکیں بلاک کر دیتے ہیں‘ شوکت عزیز 22ارب روپے میں پاکستان اسٹیل مل فروخت کر رہے ہوں تو یہ ان کو سپریم کورٹ لے جاتے ہیں اور پھر اس پر مزید پانچ سو ارب روپے ضایع کردیتے ہیں‘ یہ لوگ روزگار‘ صحت‘ تعلیم‘ موٹرویز‘ گیس‘ بجلی اور پانی چاہتے ہیں لیکن جب کوئی انھیں یہ دے دے تو یہ اسے عدالتوں اور جیلوں میں گھسیٹتے ہیں۔
ملک میں جب احتساب شروع ہو جاتا ہے تو یہ این آر او کے ذریعے تمام فائلیں بند کردیتے ہیں اور جب این آر او ہو جائے تو یہ بند فائلیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں‘ یہ پہلے پرویز مشرف کو ہیرو بناتے ہیں پھر افتخار محمد چوہدری ان کا ہیرو ہوتا ہے اور آخر میں پتہ چلتا ہے افتخار محمد چوہدری اور پرویز مشرف دونوں نے ملک تباہ کر دیا‘ یہ جنگ کے دوران امن ریلیاں نکالتے ہیں اور امن میں جنگ کی دھمکیاں دیتے ہیں‘ نریندر مودی چل کر آ جائے تویہ لانے والے کو غدار کہتے ہیں اور پھر ’’آپ ایک قدم بڑھاؤ‘ ہم دو قدم بڑھائیں گے‘‘ جیسی منتیں کرنے والے کو نوبل انعام کا حق دار سمجھتے ہیں‘ آئی ایم ایف قرضے دے تو یہ ٹھکرا دیتے ہیں‘ نہ دے تو منتیں کرتے ہیں‘ یہ لوگ پوری زندگی اپنے بچوں کے سلیبس‘ لباس اور کھانوں کا فیصلہ نہیں کر پاتے‘ یہ لوگ لسی کے گلاس میں کافی پیتے رہتے ہیں اور جینز ادھیڑ کر دھوتی بناتے رہتے ہیں‘ یہ پوری زندگی رزق میں وسعت کی دعا کرتے ہیں لیکن دولت اور دولت مندوں سے نفرت کرتے ہیں۔
یہ اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ کامیاب لوگوں کو گالی دیتے ہیں‘ یہ خود ایک پیسہ ٹیکس نہیں دیتے لیکن کسی کی فیکٹری پر چھاپہ پڑ جائے تو یہ تالیاں بجاتے ہیں‘ یہ ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں لیکن مخالف فرقے کے کسی شخص کو اپنی مسجد میں نماز نہیں پڑھنے دیتے‘یہ بل گیٹس کی خیراتی پولیو ویکسین لے لیتے ہیں لیکن یہ یہودی ارب پتیوں کو گالی دیتے ہیں‘ یہ یورپی ملکوں کے ویزوں کے لیے ذلیل ہوں گے لیکن یہودونصاریٰ کو قابل موت سمجھیں گے‘ یہ پراپرٹی میں سٹے بازی سے لاکھوں کو کروڑ بنا لیں گے لیکن سود حرام ہے‘ یہ کچھ نہ کرنے والوں کو کچھ نہیں کہیں گے لیکن کرنے والوں کو گلیوں میں گھسیٹیں گے اور یہ اذان کے وقت شادی کا بینڈ بند کرا دیں گے لیکن خودکبھی مسجد نہیں جائیں گے۔
آپ کسی دن اپنے دائیں بائیں موجود لوگوں کو دیکھیں‘ شیشے میں اپنا چہرہ دیکھیں اور پھر دنیا کا نقشہ پھیلا کر 245 ملکوں کا جائزہ لیں‘ آپ کو کتا فلاسفی کے شکار لوگ اور ملک دونوں سڑکوں کے درمیان کھڑے ملیں گے‘ یہ کبھی دائیں جا رہے ہوں گے اور کبھی بائیں‘ کبھی آگے دوڑ رہے ہوں گے اور کبھی پیچھے حتیٰ کہ ملک ہوں یا لوگ یہ کسی نہ کسی گاڑی (آفت) سے ٹکرا کر ختم ہو جاتے ہیں‘ آپ اس کے بعد اپنے اور اپنے ملک کے بارے میں سوچیں اور یہ سوال کریں ہم بھی کہیں یہ غلطی تو نہیں کر رہے‘ ہم بھی کہیں سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر کبھی آگے‘ کبھی پیچھے تو نہیں دوڑ رہے‘ ہم بھی کہیں ترقی اور پسماندگی کے درمیان کنفیوژ تو نہیں ہیں‘ مجھے یقین ہے آپ نے جس دن ٹھنڈے دل اور دماغ سے یہ سوال پوچھ لیا آپ اور یہ ملک اس دن ٹھیک ہو جائے گا‘ ہم اس دن دائیں یا بائیں‘آر یا پار لگ جائیں گے‘ ہم اس دن بچ جائیں گے‘ ہم آج مہاتیر محمد کو ہیرو سمجھتے ہیں‘ ہم انھیں 21 توپوں کی سلامی بھی دیتے ہیں۔
یہ بہت اچھی بات ہے لیکن ہم مہاتیر محمد کی فلاسفی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ مہاتیر نے 1980ء کی دہائی میں فیصلہ کیا تھا ہم کسی ملک کے ساتھ لڑیں گے اور نہ کسی لڑائی میں کسی ملک کی حمایت کریں گے‘ یہ آج بھی اپنی فلاسفی پر قائم ہیں‘ آپ تازہ ترین مثال دیکھ لیجیے‘ یہ 21مارچ کو تین روزہ دورے پر پاکستان آئے‘ یہ دورے کے اختتام پر سوالوں کا جواب دے رہے تھے‘ ایک رپورٹر نے ان سے پوچھا’’آپ پاکستان اور انڈیا کی ٹینشن میں کس کا ساتھ دیں گے‘‘۔
جواب میں مہاتیر محمد نے پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر کہہ دیا’’ ملائیشیا پاک بھارت تنازع میں کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دے گا‘ہم جنگیں نہیں چاہتے‘ہمیں دہشت گردوں کو روکنا چاہیے‘ ہم دو فریق میں سے کسی کی طرف داری نہیں کرنا چاہتے مگر ہمیں ان مسائل کا ادراک ہے جس کا انھیں سامنا ہے‘‘ قوموں کو یہ وژن اور یہ کلیئریٹی چاہیے ہوتی ہے‘ یہ لڑتی ہیں یا پھر نہیں لڑتیں‘ یہ لڑوں یا نہ لڑوں جیسی کیفیات میں نہیں رہتیں‘ یہ جہاز گرا کر مذاکرات کی دعوت نہیں دیتیں‘ ہمیں اب اپنے آپ کو کلیئر کرنا ہوگا‘ بلی کی طرح کلیئر ورنہ ہم انسان ہوتے ہوئے بھی حرام موت مارے جائیں گے۔
Must Read urdu column Kuta philosophy By Javed Chaudhry