’’کیا ہارٹ اٹیک بھی ڈیل کا حصہ ہے؟ – انصار عباسی

ansar-abbasi

جب میاں نواز شریف صاحب کی حالت تشویشناک ہوئی اور اُن کے معالج تک ڈر گئے کہ اُن کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں تو جہاں ایک طرف بڑی تعداد میں لوگوں میں فکر پیدا ہوئی اور دعائیں کی جانے لگیں، وہیں میاں صاحب کے معاملہ میں ریاستی سختی فوری طور پر نرمی میں بدل گئی بلکہ ذمہ داروں کے ہاتھ پیر پھول گئے۔

پہلے میاں صاحب کی بیماری کا مذاق اڑانے والوں کے لہجے بدلے اور ماضی کے برعکس اُن کے لیے ہمدردی کے بیانات دیے جانے لگے اور صحت کی دعائیں کی جانے لگیں۔ خوف یہ تھا کہ اگر میاں صاحب کو جیل یا قید کے دوران کچھ ہو گیا تو عوامی ردعمل کتنا شدید ہوگا اور کس کس کو اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس خوف نے میاں صاحب کے لیے سب کچھ بدل دیا۔ ماضی کے دبائو ختم ہو گئے۔ حکومت نے خود کہنا شروع کر دیا کہ جہاں چاہیں علاج کرائیں اور بیرونِ ملک جانا چاہیں تو چلے جائیں۔ مریم نواز کو بھی جیل سے اپنے والد کے ساتھ اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

وفاقی و پنجاب حکومت کے ساتھ ساتھ احتساب بیورو، جو پہلے میاں صاحب کو جیل میں ڈالنے اور اُنہیں ہر حالت میں وہیں رکھنے کے جتن کر رہا تھا، نے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں میاں صاحب کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی مخالفت کرنے سے گریز کیا بلکہ عدالت کے سامنے اس انداز میں اپنے جوابات دیے کہ میاں صاحب کی ضمانت ہو ہی جائے تو بہتر ہے۔

پہلے لاہور ہائی کورٹ اور پھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے میاں صاحب کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کی اور اب منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ عبوری ضمانت کو مستقل کرنے کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ اس دوران کسی خفیہ ہاتھ کی طرف سے دبائو ڈالنے کے اشارے ملے ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی بات کسی طرف سے ہوئی۔

میاں صاحب کو کچھ ہو گیا تو کیا ہوگا، اس خوف نے یقیناً سب کر جکڑ لیا ہے لیکن جیسے ہی عدالتوں کی طرف سے میاں صاحب کی ضمانت کے فیصلے ہوئے (جس کی بڑی وجہ وفاقی و پنجاب حکومت اور نیب کی طرف سے ضمانت کی درخواستوں کی مخالفت نہ کرنا تھا) تو کچھ میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد نے ڈیل ڈیل کی باتیں کرنا شروع کر دیں اور حکومت سمیت سب پر شک کیا جانے لگا کہ کوئی غیر معمولی رعایت میاں صاحب کو دی گئی ہے۔

اگر ڈیل ڈیل کی باتیں کرنے والے سچ کہہ رہے ہیں تو بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا میاں صاحب بیمار نہیں؟ جو ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کیا وہ سب جھوٹ ہے اور کیا سب ڈاکٹرز بھی مبینہ ڈیل کا حصہ ہیں؟ کیا میاں صاحب کے خون کے اور دوسرے میڈیکل ٹیسٹوں کی رپورٹیں بھی جعلی ہیں؟ کیا اس مبینہ جعلسازی میں ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کرنے والے ادارے حتیٰ کہ پنجاب حکومت کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی شامل ہیں؟ کیا نواز شریف کو چند دن قبل ہونے والا ہارٹ اٹیک بھی ڈیل کا حصہ تھا؟ کیا یہ سب ممکن ہے؟ حقیقت میں میاں صاحب کی زندگی کو بیماری کی وجہ سے واقعی شدید خطرات کا سامناہے اور اس بیماری نے شیخ رشید جیسے اُن کے سیاسی مخالف سے یہ بھی کہلوا دیا کہ اُنہوں نے وزیراعظم عمران خان مشورہ دیا کہ میاں صاحب کو علاج کے لیے باہر جانے دیا جائے، کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے۔

یہی مطالبہ چوہدری شجاعت حسین نے بھی عمران خان سے کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ عدالتوں کے بجائے حکومت خود یہ فیصلہ کرے۔ وزیراعظم بھی میاں صاحب کے کیس میں بہت نرم پڑ گئے ہیں اور اُنہوں نے شیخ رشید اور اپنے وزراء کے ذریعے سب کو یہ پیغام دیا ہے کہ عدالت جو فیصلہ کرے، اُنہیں منظور ہے۔ چاہے میاں صاحب کو باہر جانے کی اجازت دے دی جائے۔

گزشتہ دو سالوں کے دوران جو کچھ میاں نواز شریف اور اُن کے خاندان کے ساتھ ہوا اُس پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ پاناما کیس میں بننے والی وٹس ایپ جے آئی ٹی سے لے کر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ وڈیو تک، نواز شریف کیس میں ایسا بہت کچھ ہوا جسے ایک کیس اسٹڈی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

کیا پہلے غلط ہوا یا اب غلط ہو رہا ہے، یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب کے لیے ایک ایسا کمیشن بننا چاہیے جو سچائی تک پہنچنے کا صلاحیت اور اختیار رکھتا ہو، لیکن شاید ایسا ممکن نہیں۔

یہاں میں آصف علی زرداری صاحب کے متعلق یہ کہنا چاہوں گا کہ اُن کے بارے میں بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ اُن کی طبیعت کافی خراب ہے۔ زرداری صاحب تو نیب کے ملزم ہیں، اُنہیں تو ابھی کسی عدالت کی طرف سے سزا بھی نہیں ملی بلکہ اُنہیں گزشتہ چند ماہ سے نیب کی گرفتاری کا سامنا ہے۔

میری حکومت اور نیب سے درخواست ہے کہ زرداری صاحب کو فوری کراچی منتقل کیا جائے تاکہ اُن کو اُن کی مرضی کا علاج معالجہ فراہم ہو۔ ہو سکے تو اُن کی بھی ضمانت کی مخالفت نہ کی جائے کیونکہ پاکستان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے کسی الزام کی بنیاد پر سندھ اور خصوصاً پی پی پی کے کسی لیڈر کو اگر قید کے دوران پنجاب یا پاکستان میں کسی اور جگہ کچھ ہو جاتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا۔

کرپشن کے کیسوں میں ملوث افراد کو الزام کی بنیاد پر نہیں بلکہ عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر ہی جیل میں ڈالا جانا چاہئے اور یہ بھی کہ عدالتی فیصلے ویسے نہ ہوں جس طرح احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ وڈیو سے ظاہر ہوتے ہیں۔

Source: Jung News

Read Urdu column Kya heart attack bhi deal ka hissa hai By Ansar Abbasi

Leave A Reply

Your email address will not be published.