لمبی ٹھنڈی آہ! – ارشاد بھٹی
حیرانی یہ، نااہل، سزا یافتہ اشتہاری مجرم 54منٹ قوم سے خطاب فرمائے، 24کروڑ کے ملک سے اتنی بھی اخلاقیات نہ نکلے کہ دل ہی میں شرمندہ ہوا جا سکے، حیرانی یہ، جو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار، جس نے عمر بھر اسٹبلشمنٹ کی بیساکھیاں استعمال کیں، جس کی جنرل جیلانی، اصغر خان کیس سے ایکسٹینشن ووٹ تک کہانیاں ہی کہانیاں، جسے جب بھی موقع ملا، جمہوریت کی پیٹھ میں خنجر گھونپا۔
وہ 70سال کی عمر میں چھٹی مرتبہ انقلابی ہونے کی اداکاریاں فرما رہا تھا اور یار لوگ عش عش کر رہے تھے، حیرانی یہ، پیارے نبیؐ کب کے فرما چکے ’’مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا‘‘ لیکن ہم ایک سوراخ سے بار بار ڈسوائیں بلکہ اتنی بار ڈسوائیں کہ سوراخ تنگ پڑ جائے، حیرانی یہ، سب کو پتا جو کچھ میاں صاحب نے کہا، وہ عمر بھر نہ کیا۔
جس سے میاں صاحب نے منع فرمایا، وہی عمر بھر کیا لیکن پھر بھی تضاداتی شاہکار کی جے جے ہو رہی، مجھے پتا ہم لکڑ ہضم، پتھر ہضم، ہم کمزور یادداشتوں والے، یہاں کچھ کہنا، بتانا، سمجھانا فضول مگر پھر بھی پیشِ خدمت ہیں آل بچاؤ، مال بچاؤ، کھال بچاؤ اکٹھ سے میاں صاحب کے خطاب کے چند ٹوٹے اور اُنکی حقیقت۔
میاں صاحب نے یوسف رضا گیلانی سے اظہار ہمدردی کیا کہ وہ بحیثیت وزیراعظم وقت پورا نہ کر سکے، حقیقت یہ، گیلانی صاحب نااہل ہوئے سپریم کورٹ کی حکم عدولی پر، گیلانی صاحب کی ملکی محبت پر زرداری صاحب کی محبت غالب آئی، حقیقت یہ بھی، نواز شریف میمو گیٹ معاملے پر گیلانی صاحب کو سیکورٹی رسک ثابت کرنے بقلم خود سپریم کورٹ گئے۔
میاں صاحب نے فرمایا، حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ پبلک کی جائے، وہ زرداری دور میں بھی کہا کرتے کہ اقتدار میں آکر حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ پبلک کروں گا بلکہ کارگل کمیشن بھی بناؤں گا، اقتدار میں آئے، سب کچھ بھول گئے۔
میاں صاحب نے فرمایا، ریاست کے اوپر ریاست نہیں چلے گی، میاں صاحب بھول گئے، پاکستان میں ریاست کے نیچے ریاست، ریاست کے اوپر ریاست، ریاست کے اندر ریاست سب کے بانی وہ خود، یہ کھیل وہ 1985سے کھیل رہے۔
میاں صاحب نے فرمایا، ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں، انہیں لانے والوں سے، جی بالکل، سارا قصور لانے والوں کا ہی، انہیں چاہئے تھا جس طرح مجھے 3دفعہ لائے، چوتھی بار بھی لے آتے، دیکھو نا بھائی شہباز تو الیکشن سے پہلے وزیراعظم بنے بلکہ کابینہ کے نام تک فائنل کئے بیٹھے تھے مگر سب کچھ چوپٹ ہوگیا۔
سارا قصور لانے والوں کا، میاں صاحب نے فرمایا، عوام کے ووٹ سے آئی جمہوری حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے ہیں، جی ہاں، جیسے میں نے بےنظیر بھٹو، گیلانی حکومتوں کے ہاتھ پاؤں باندھے تھے اور جیسے میں نے جونیجو، جتوئی کے ہاتھ پاؤں بندھوائے تھے۔
میاں صاحب نے کہا، ریاستی ڈھانچہ کمزور ہورہا ہے، کسی کو کوئی پرواہ نہیں، جی بالکل، ہم نے ممبئی حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے جیسے کام کرکے اور فوج سے لڑکے ہمیشہ ریاستی ڈھانچہ مضبوط رکھا، میاں صاحب نے فرمایا، بھارت نے کٹھ پتلی حکومت دیکھ کر کشمیر کو اپنا حصہ بنالیا، جی بالکل، جب ہم نے مقبوضہ کشمیر مولانا کے حوالے کر رکھا تھا۔
تب تو بھارت اتنا ڈرا ہو اتھا کہ چپکے چپکے مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوج نکالنے کا سوچ رہا تھا،پھر جب ہم نے اوفہ ڈیکلیئریشن سے کشمیر نکالا، مقبول بٹ کی کتاب پر پابندی لگائی،حریت کانفرنس رہنماؤں سے ملنے سے انکار کردیا، مودی سے سالگرہ کیک کٹوایا، سجن جندل کو مری پھرایا، تب تو بھارت اتنا ڈراہوا تھا کہ مقبوضہ کشمیر ہمیں دینے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔
میاں صاحب نے فرمایا، ہم عالمی تنہائی کا شکار ہو گئے ہیں، جی بالکل، یہی وہ عالمی تنہائی تھی جسے دور کرنے کیلئے میں اپنے 4سالہ اقتدار میں ایک سال ملک ملک پھرا،پھر جب مجھے پتا چلا عالمی تنہائی لندن میں چھپی بیٹھی ہے تب میں 30سے زیادہ مرتبہ اسکے پیچھے لند ن گیا۔
ابھی کل ہی حسین نواز بتا رہا تھا کہ ہمارے دور میں تو امریکی صدر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل رائے ونڈ محل میں خیمہ زن رہتے تھے، میاں صاحب نے فرمایا، ہم نے خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بنا دیا ہے، جی بالکل، مجھے تو بچوں کا کھیل اتنانا پسند ہے کہ میں بچپن میں بھی بچوں کے نہیں بڑوں کے کھیل کھیلا کرتاتھا، پھر کہیں میری خارجہ پالیسی بچوں کا کھیل نہ بن جائے، میں نے 4سال وزیرخارجہ ہی نہیں رکھا۔
میاں صاحب نے فرمایا، ہم نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا، جی بالکل، جب تک بھٹو صاحب، ضیاء صاحب، غلام اسحق خان اور ڈاکٹر قدیر کو پتا چلا تب تک میںملک کو ایٹمی قوت بنا چکا تھا، مزے کی بات بتاؤں، ایٹمی دھماکوں والے دن سائنسدانوں کومیں نے بتایا کہ ایٹمی دھماکے چاغی میں ہونے ہیں، ورنہ وہ سب تو چیچہ وطنی جارہے تھے۔
میاں صاحب نے فرمایا، نیب اپنا جواز کھو بیٹھا ہے، جی بالکل، جب ہم اقتدار سے نکلے اورنیب نے ہمیں گھوری ڈالی تب ہمیں پتا چلا ارے یہ نیب تو اپنا جواز کھو بیٹھا ہے۔
البتہ سیف الرحمان کے احتساب بیورو کا آج بھی جواز موجود ہے، قوم کی ایک بیٹی (موٹروے ریپ) کے ساتھ جو سانحہ ہوا، دل دہل گیا، جی بالکل، تبھی قوم کی اس بیٹی کے گھر مریم نواز دن میں کئی کئی بار جاتی ہیں، میں بھی لندن سے اس بیٹی کو روزانہ فون کرتا ہوں۔
ارے ہاں، ماڈل ٹاؤن میں ایک قوم کی بیٹی جب فریادیں کر رہی تھی، مجھے گولی مت مارنا،میرے پیٹ میں بچہ ہے تب ہمارے دل چھٹی پرتھے ورنہ دہل جاتے، اے پی سی جو فیصلہ کرے گی ہم ساتھ دیں گے، جی بالکل، اے پی سی جو بھی فیصلہ کرے۔
ہم ساتھ دیں گے مگر اپنا، میاں صاحب نے فرمایا، ملک میں ہر ڈکٹیٹر نے 9سال حکومت کی، جی بالکل، یہ تو اللہ کا فضل ہو اکہ مجھے دس سال مل گئے، میاں صاحب نے فرمایا، ملکی معاشی ترقی کے ساتھ مسلح افواج کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ضرورت ہے۔
جی بالکل، بھائیو، اس جملے کا مطلب یہی کہ تقریر میں کہا، سنا معاف کردینا، آخر پر جسٹس شوکت صدیقی، جسٹس فائز عیسیٰ کی بات کرتے ہوئے میاں صاحب کو اچانک جسٹس قیوم اور طبی ضمانت کے دنوں رائے ونڈ محل میں اپنے سامنے بیٹھے جج ارشد ملک یاد آگئے اور بے اختیار میاں صاحب کی ایک لمبی ٹھنڈی آہ نکلی جو وڈیو لنک کے ذریعے پورے ملک میں سنی گئی۔
Source: Jung News
Read Urdu column Lambi Thandi Ahh By Irshad Bhatti