لنگڑا مچھر – حامد میر
یہ ایک لنگڑے مچھر کی کارستانی ہے۔ یہ مچھر ہر دور میں کسی طاقتور حکمران کی ناک میں گھس جاتا ہے۔ ناک کے راستے حکمران کے دماغ میں پہنچتا ہے۔ حکمران غلط فیصلے کرنے لگتا ہے اور پھر نتیجہ صرف وہ حکمران نہیں بلکہ اُس کی پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
آج دنیا کے پُررونق ترین شہر ویران ہو رہے ہیں۔ کورونا وائرس نامی عالمی وبا کے خوف سے سب کچھ بند ہو رہا ہے۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہماری زندگی میں ایسا وقت آئے گا جب علماء کہیں گے کہ مسجدوں میں جاکر نماز ادا کرنے کی ضرورت نہیں، نماز گھروں پر ادا کرو۔ جب گرجا گھروں اور مندروں سمیت تمام عبادت گاہوں کے دروازے بند ہو جائیں گے۔
اربوں لوگ موت کے خوف سے اپنے آپ کو گھروں میں بند کر لیں گے لیکن خوف کے اس ماحول میں غور و فکر کریں تو ذہنوں کے کچھ دروازے کھل جاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ کورونا وائرس نے اچانک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
سائنسدان اور ماہرینِ طب پچھلے کئی سالوں سے خبردار کر رہے تھے کہ ایک عالمی وبا دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے۔ ان سائنسدانوں نے اس وبا کا توڑ کرنے کیلئے جو فنڈز مانگے وہ طاقتور حکمرانوں کیلئے مونگ پھلی کے چند دانوں کے برابر تھے لیکن اُن کے دماغ میں لنگڑا مچھر گھس چکا تھا لہٰذا یہ حکمران عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کے بجائے دہشت گردی کے نام پر شروع کردہ جنگ پر کھربوں ڈالر خرچ کر تے رہے۔
میڈیا نے بار بار یاد دلایا کہ دہشت گردی سے زیادہ بڑا خطرہ کوئی عالمی وبا ہو سکتی ہے لیکن طاقتور حکمران ٹی وی چینلز اور اخبارات و جرائد کو ’’فیک نیوز‘‘ کے طعنے دے کر سوشل میڈیا کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اور خبطِ عظمت میں مبتلا ہوکر غلط فیصلے کرتے گئے۔ آج ان غلط فیصلوں کا خمیازہ پوری دنیا بھگت رہی ہے۔
آج صبح میں نے ایک امریکی جریدے ’’کلینیکل مائیکرو بائیالوجی ریویو‘‘ کے اکتوبر 2007ء کے شمارے میں شائع ہونے والا ایک تحقیقی مضمون پڑھا جس میں پانچ سائنسدانوں نے 13سال قبل دنیا کو کورونا وائرس کے بارے میں خبردار کیا۔ یہ جریدہ امریکن سوسائٹی فار مائیکرو بائیالوجی کے زیر اہتمام شائع ہوتا ہے۔
کچھ سال کے بعد ایک امریکن تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن نے 2012ء میں ایک رپورٹ شائع کی اور بتایا کہ مستقبل میں امریکا کیلئے بڑا خطرہ دہشت گردی نہیں بلکہ ایک عالمی وبا بنے گی جو امریکی معاشرے کے پورے طرزِ زندگی کو بدل کر رکھ دے گی لہٰذا اس طرف توجہ کریں۔ براک اوباما کی حکومت میں ہوم لینڈ سیکورٹی ایڈوائزر لیزا مناکو نے اس معاملے پر توجہ دینا شروع کی لیکن 2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بن گئے۔
امریکی سائنسدانوں نے ٹرمپ سے گزارش کی کہ آپ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر سالانہ ایک سو ارب ڈالر خرچ کر رہے ہیں، ہمیں ایک عالمی وبا کا توڑ تلاش کرنے کے لئے سالانہ صرف ایک ارب ڈالر دیا جا رہا ہے ہمیں صرف ایک ارب ڈالر مزید دے دیں تاکہ ہم صرف امریکہ کو نہیں پوری دنیا کو ایک نئی وبا سے محفوظ رکھ سکیں جو چین میں جنم لے سکتی ہے۔ ٹرمپ اس درخواست کو مسترد کرتے رہے۔
ان کا خیال تھا کہ یہ وبا چین میں جنم لے گی تو صرف چین کو تباہ کرے گی لیکن جب وبا پھیل گئی تو امریکہ بھی بند ہونے لگا۔ اب ٹرمپ نے مزید فنڈز دے دیے ہیں لیکن بہت دیر ہو چکی۔
سائنسدان ابھی تک کورونا وائرس کا علاج دریافت نہیں کر پائے لہٰذا کوئی اس وبا کو ﷲ کا عذاب کہتا ہے کوئی آزمائش کہتا ہے۔ ایسی وبا پہلی دفعہ نہیں آئی۔ قرآن مجید میں ایسی وبائوں کا ذکر ملتا ہے جن کے باعث سرکش اور بدکردار قومیں برباد ہو گئیں۔
قرآن مجید کی سورۃ الاعراف میں طوفان اور ٹڈی دَل کے علاوہ مینڈکوں کی بھرمار اور خون کی بارش کو بھی اللہ کا عذاب قرار دیا گیا۔ 1981ء میں جنوبی یونان میں آسمان سے مینڈکوں کی بارش ہوئی تو سائنسدان حیران رہ گئے۔ سری لنکا میں مینڈکوں کے ساتھ آسمان سے مچھلیاں بھی گریں۔ 2001ء میں بھارتی ریاست کیرالا میں خون کی بارش ہو گئی۔
2015ء میں آسٹریلیا کے علاقے نیو سائوتھ ویلز میں آسمان سے مکڑیوں کی بارش ہو گئی۔ سائنسدانوں نے بہت غور کیا اور یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دے دی کہ شائد طوفانی ہوائیں زمین اور سمندر کی مخلوق کو آسمانوں میں لے گئیں اور وہ مخلوق بارش کے ذریعہ واپس زمین پر آ گئی لیکن ان واقعات کے اشارے بہت پہلے قرآن میں مل چکے تھے۔ قرآن کریم خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔
جس میں کئی معجزوں کا ذکر ہے جن کے سامنے سائنس بےبس ہے لیکن سائنس بار بار قرآن کی سچائی کے ثبوت فراہم کرتی رہتی ہے۔ قرآن حکیم کی سورۂ یونس میں کہا گیا کہ ہم فرعون کے بدن کو بچائے دیتے ہیں تاکہ تو آنے والی نسلوں کیلئے عبرت کی نشانی بنے۔ جب قرآن نازل ہو رہا تھا تو کسی کو معلوم نہ تھا کہ فرعون کی لاش محفوظ ہے۔
تقریباً تین ہزار سال تک فرعون کی لاش ایک مقبرے میں پڑی رہی، 1898ء میں فرعون کی حنوط شدہ لاش کا سراغ ملا اور 1907ء میں ایلیٹ سمتھ نے اس کا سائنسی معائنہ کیا اور کہا کہ یہ وہی فرعون ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں ڈوب گیا تھا۔ فرعون کی حنوط شدہ لاش 1860ء میں مصر سے چوری ہو گئی تھی اور کینیڈا کے ایک میوزیم میں پہنچی۔
کینیڈا سے امریکہ کے ایک میوزیم میں پہنچی اور وہاں سے 2003ء میں واپس مصر آئی۔ 2009ء میں اس ناچیز کو بھی مصر میں فرعون کی حنوط شدہ لاش دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ مصر کے ایک میوزیم میں پڑی یہ حنوط شدہ لاش قرآن مجید میں کی گئی پیش گوئی اور اُس کی سچائی کا ثبوت ہے۔ قرآن مجید کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔
حضرت یونس علیہ السلام چالیس دن مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے، اصحاب کہف اپنے کتے سمیت ایک غار میں تین سو نو سال تک سوئے رہے اور پھر بیدار ہو گئے۔ نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا لیکن آگ اُن کا کچھ بگاڑ نہ سکی۔
قرآن مجید میں بیان کیے گئے ان قصوں کو کچھ غیر مسلم سائنسدان تسلیم نہیں کرتے لیکن وہ یہ نہیں بتا پاتے کہ یہ تمام واقعات ایک ایسے رسولﷺ کو کیسے پتا چلے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اور اُمّی تھے؟
اس ناچیز کو عرض یہ کرنا ہے کہ قرآن مجید ﷲ کی نافرمان قوموں کی تباہی کے قصوں سے بھرا پڑا ہے۔ فرعون اور نمرود جیسے حکمران اپنے گھمنڈ اور غلط فیصلوں سے پوری قوم کی تباہی کا باعث بنتے رہے۔ نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا لیکن ﷲ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو بچا لیا اور آپ ﷲ کے حکم سے وطن چھوڑ کر ہجرت کر گئے۔ نمرود کی ناک میں ایک لنگڑا مچھر گھس گیا اور دماغ تک پہنچ گیا جب یہ مچھر تنگ کرتا تھا تو نمرود حکم دیتا کہ میرے سر پر جوتے مارو۔
وہ تخت پر بیٹھ کر سر میں جوتے لگواتا تھا۔ جوتے بند ہو جاتے تو مچھر دوبارہ تنگ کرتا اور اپنے آپ کو خدا کہلوانے والا حکمران اپنے درباریوں سے کہتا کہ مجھے پھر جوتے مارو اور پھر یہ نمرود جوتے کھاتا ہوا جہنم واصل ہو گیا۔ لیکن لنگڑا مچھر ابھی تک زندہ ہے۔
یہ وقت کے کسی نہ کسی نمرود کی ناک کے راستے اُس کے دماغ میں گھس جاتا ہے اور اُس کا غرور خاک میں ملا دیتا ہے۔ میں کوئی عالم ہوں نہ سائنس دان ایک معمولی صحافی ہوں اور مجھے کہنے دیجئے کہ کورونا وائرس دور جدید کے نمرودوں کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے اور خمیازہ پوری دنیا بھگت رہی ہے۔
اس وقت لنگڑا مچھر ایک سے زائد حکمرانوں کے دماغ میں گھسا ہوا ہے۔ بہت جلد آپ ان گھمنڈی حکمرانوں کو جوتے پڑتے دیکھیں گے۔ ﷲ ہم سب کو معاف فرمائے آمین!
Source: Jung News
Read Urdu column Langra Machar By Hamid Mir