لیڈرز ایسے ہوتے ہیں – جاوید چوہدری
دنیا میں اس وقت فروٹ اور ڈرائی فروٹ دونوں مہنگے ہیں‘ ہم اگر قیمتوں کو 1990 سے 2021 تک چار حصوں میں تقسیم کریں تو ان میں ہزار گنا اضافہ ہوا‘ ہمارا بچپن اور جوانی چلغوزے چھیلتے ہوئے گزری‘ یہ بے چارہ گلیوں اور ریڑھیوں پر ذلیل ہوتا تھا لیکن یہ پچھلے دس برسوں میں مارکیٹ سے غائب ہو گیا‘ آج بھی اس کی قیمت 3600 روپے کلو ہے اور یہ پانچ سو روپے کلو ملتا تھا لیکن گاہک اس کے باوجود خریدنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔
مونگ پھلی بھی ہمارے دیکھتے دیکھتے بادام کے بھاؤ بکنے لگی جب کہ بادام بیماروں اور امیروں کی میز پر پہنچ گیا‘ اخروٹ‘ کاجو‘ پستہ‘ خشک خوبانی اور انجیر بھی مہنگی ہو گئی‘ آپ فروٹس کو بھی دیکھ لیں‘ لوکل فروٹس یعنی مالٹا‘ کیلا‘ خربوزہ اور تربوز تک جھوٹ کی حد تک مہنگے ہو چکے ہیں اور یہ بھی صرف پاکستان میں مہنگے نہیں ہوئے بلکہ پوری دنیا میں ان کے ریٹس میں اضافہ ہوا‘ اب سوال یہ ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اس پر چند سال پہلے ایک گلوبل رپورٹ آئی تھی جس میں انکشاف ہواتھا چین میں تیس برسوں میں اپر اور مڈل کلاس کا سائز بڑا ہوا اور اس نے فروٹ اور ڈرائی فروٹ کھانا شروع کر دیے۔
چین میں چلغوزہ امیر لوگوں کی خوراک ہوتا تھا‘ غریب جب امیر ہوئے تو انھوں نے بھی دھڑا دھڑ چلغوزے خریدنا شروع کر دیے یوں ڈرائی فروٹ اور فروٹ کی مانگ بڑھ گئی اور اس نے پوری دنیا میں پھلوں اور خشک پھلوں کی قیمت بڑھا دی‘یہ ایک مثال ہے۔ آپ اب دوسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘آپ کو یاد ہو گا افغان جنگ کے دوران پاکستان میں چھوٹا گوشت سستا تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ افغان گوشت خور ہیں۔
یہ سارک ملکوں میں فی کس سب سے زیادہ گوشت کھاتے ہیں‘ جنگ کے دوران افغانستان میں گوشت کی مارکیٹ ختم ہو گئی لہٰذا پاکستان اور بنگلہ دیش میں گوشت کی قیمتیں کم ہو گئیں لیکن نائین الیون کے بعد افغانستان میں امن ہوا‘ خوش حالی آئی تو افغان گوشت خوری کی طرف واپس آ گئے اور اس کا اثر پورے خطے پر پڑا‘ پاکستان میں بھی گوشت مہنگا ہو گیا‘ پاکستان میں آج آٹا‘ چینی‘ گھی اور دالیں بھی افغانستان کی وجہ سے مہنگی ہیں۔
امریکا کے انخلاء کے بعد افغانستان میں خوراک کی سپلائی بند ہو گئی اور پاکستان سے خورونوش کا سامان وہاں جانے لگا اور یوں پاکستان میں مہنگائی کا سیلاب آ گیا‘ کورونا کے دوران بحری آمدورفت رک گئی تھی جس کی وجہ سے اشیاء ضرورت کی قلت پیدا ہو گئی‘ چیزیں مہنگی ہو گئیں‘ کورونا کے بعد دنیا کھلی تو کنٹینرز اور بحری جہازوں کی تعداد کم ہو گئی‘ کرائے پانچ گنا بڑھ گئے‘ اس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گیا۔
دنیا اور معیشت اس طرح چلتی ہے‘ ہم حقیقتاً گلوبل ویلج میں رہ رہے ہیں‘ آج کے دور میں جرمنی میں فائبر آپٹک خراب ہوتی ہے تو انٹرنیٹ پاکستان میں سلو ہو جاتا ہے اور دو دن میں موبائل کمپنیاں اور پورا بینکنگ سسٹم بیٹھ جاتا ہے‘ فیس بک اور یوٹیوب اپنی پالیسی تبدیل کر تی ہے یا واٹس ایپ اپنے صارفین سے کال چارج کرنے لگتا ہے تو ایک ہی رات میں کروڑوں لوگوں کی جیبیں ہلکی یا بھاری ہو جاتی ہیں لہٰذا کہنے کا مطلب یہ ہے پوری دنیا کی معیشت ایک دوسرے سے منسلک ہے۔
آج اگر انڈیا یا امریکا میں فلمیں کم بنیں گی تو اس کا اثر کپاس کی فصل پر بھی پڑے گا اور کھوتوں کے ریٹس بھی ڈسٹرب ہو جائیں گے چناں چہ آپ آج دوسرے ملکوں کے اثرات کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں آپ اگر چوٹ کو روک نہیں سکتے تو آپ اس کا علاج بھی نہ کریں‘ قومیں اور لیڈر شپ کتنی بڑی ہے یہ فیصلہ ایشوز کا حل اور ردعمل کرتا ہے مثلاً کورونا کی مثال لے لیں‘ یہ پوری دنیا میں آیا‘ یورپ اور امریکا نے اس کا کیسے مقابلہ کیا؟ اس نے اپنے تمام شہریوں کو گھروں میں بٹھا کر تنخواہوں کے برابر رقم دینا شروع کر دی‘ کمپنیوں اور فرموں کو بیس بیس اور تیس تیس سالوں کے لیے بلاسود قرضے بھی دیے گئے۔
ہوٹلز اور ریستوران کی انڈسٹری کو بچانے کے لیے ان کی ماہانہ آمدنی کے برابر رقم دے دی گئی‘ اسکول‘ کالج اور دفتر آن لائن کر دیے گئے اور ہوم ڈیلیوری کے بزنس کو ٹیکس فری کر کے بوسٹ دے دیا گیا چناں چہ بحران ٹل گیا اور لوگ بھوک اور بے روزگاری سے بچ گئے‘ ترکی کرائسیس مینجمنٹ کی تازہ ترین مثال ہے‘ ترکی اس وقت دنیا میں مہنگائی میں دوسرے نمبر پر ہے وہاں انفلیشن 30فیصد ہے۔
مہنگائی کے ساتھ دوسرا بڑا بحران مقامی کرنسی لیرا کی قدر میں خوف ناک کمی کی صورت میں پیدا ہوا‘ نومبر کے پہلے ہفتے میں ایک ڈالر ساڑھے9 لیرے کے برابر تھا لیکن پھر لیرا گرنا شروع ہوا اور یہ دسمبر کے وسط تک فی ڈالر اٹھارہ اشاریہ 25 ہو گیا گویا قدر میں 100فیصد کمی آ گئی اور یہ طیب اردگان کی سیاسی زندگی کا دوسرا بڑا بحران تھا‘ پہلا بحران 15 جولائی 2016کی فوجی بغاوت تھا‘ اپوزیشن سمیت پوری دنیا کے معاشی ماہرین کا خیال تھا ترکی اور طیب اردگان دونوں اس بحران سے نہیں نکل سکیں گے۔
میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں ترکی میں ڈالر اور یورو کی خریدوفروخت پر کوئی پابندی نہیں‘ آپ کسی بھی وقت کوئی بھی کرنسی خرید کر اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں اور یہ اکاؤنٹ پوری دنیا میں استعمال بھی ہو سکتا ہے اور حکومت آپ سے سوال وجواب کی مجاز نہیں‘ دوسرا ترکی ایک بڑا ایکسپورٹر ہے‘ یہ ہر سال180بلین ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کرتا ہے‘ کورونا کے دوران بھی ترکی نے ایکسپورٹ سے169بلین ڈالر کمائے‘ اس کے مالیاتی ذخائر بھی 126بلین ڈالرز ہیں لہٰذا یہ ایک مضبوط معاشی طاقت ہے لیکن سوال یہ ہے ترکی میں پھر یہ معاشی بحران کیوں آیا؟ اس کی دو وجوہات تھیں۔
ایکسپورٹ بڑھنے کی وجہ سے خام مال کی امپورٹ میں اضافہ ہوا یوں تجارتی خسارہ بڑھ گیا‘ حکومت نے خسارہ کم کرنے کی کوشش کی تو لوگوں نے دھڑا دھڑ یوروز اور ڈالرز خریدنا شروع کر دیے‘ مارکیٹ سے یوروز اور ڈالرز غائب ہونے لگے اور لیرا نیچے گرنے لگا‘ لوگ کرنسی کے اتار چڑھاؤ سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنے اکاؤنٹس بھی لیرا سے ڈالرز اور یوروز میں شفٹ کرنے لگے اور یوں ایک ہفتے میں ترکی کی معیشت کا جنازہ نکل گیا‘ مہنگائی کا خوف ناک سیلاب بھی آیا اور معاشی پہیہ بھی رک گیا۔
پوری دنیا کا خیال تھا یہ بحران حکومت کا سر لے کر ہی ٹلے گا لیکن پھر 20 دسمبرکو طیب اردگان نے نئی معاشی پالیسی کا اعلان کر کے پوری دنیا کے معاشی ماہرین کو ہلا کر رکھ دیا‘ آپ پالیسی کا کمال دیکھیے‘ صرف دو دن میں لیرا ساڑھے 18 سے 11 پر آگیا یعنی ترک شہری پالیسی سے پہلے ایک ڈالر ساڑھے اٹھارہ لیرا میں خرید رہے تھے اور پالیسی سے دو دن بعد ایک ڈالر 11 لیرے کا ہوچکا تھا‘ یہ تبدیلی معاشی تاریخ میں معجزے سے کم نہیں تھی‘ دنیا کے مختلف ملکوں میں لوکل کرنسی مضبوط ہوتی رہتی لیکن یہ اضافہ ہمیشہ بتدریج ہوتا ہے مگر صرف دو دن میں لوکل کرنسی کی مالیت میں 70فیصد اضافہ حیران کن تھا اور یہ معجزہ طیب اردگان نے کر دکھایا‘ ترک صدر نے کیا کیا۔
اردگان نے صرف ایک اعلان کیا’’عوام کو ڈالرز اور یوروز اکاؤنٹس کھولنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ آپ اپنی سیونگز لیرا میں رکھیں اور بینکوں میں جمع کرا دیں‘ آپ جب بھی رقم نکلوائیں گے تو آپ کو ڈالر کی مالیت کے مطابق پیسے ملیں گے‘‘ مثلاً آپ نے ایک لاکھ لیرا جمع کرائے‘ یہ رقم آج 5600 ڈالرز کے برابر ہے‘ آپ ہفتے بعد یہ رقم نکلواتے ہیں اور اس وقت یہ پانچ ہزار ڈالرز کے برابر ہو جاتی ہے تو چھ سو ڈالرز کا نقصان حکومت پورا کرے گی۔
آپ کو 5600 ڈالرز کے برابر رقم ملے گی‘ یہ ایک ریورس کرنسی فارمولا تھا‘ ہم جب ڈالر تبدیل کراتے ہیں تو ہمیں مارکیٹ ریٹ کے مطابق لوکل کرنسی ملتی ہے‘ اردگان نے لوکل کرنسی کو ڈالرز میں ریورس کر دیا یعنی آپ بینکوں میں لیرا جمع کرائیں اور ڈالرز کے برابر رقم لے لیں‘ یہ فارمولا معجزاتی ثابت ہوا اور اس نے دو دن میں لیرا کی مالیت میں 70فیصد اضافہ کر دیا لہٰذا ایک بار پھر ثابت ہو گیا ایشو بحران نہیں ہوتے بحرانوں کا حل ہوتا ہے‘ مہنگائی آتی ہے‘ کرنسی بھی ’’ڈی ویلیو‘‘ ہوتی ہے لیکن آپ اس ڈی ویلیوایشن سے نبٹتے کیسے ہیں‘ آپ مہنگائی کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟ یہ لیڈر شپ کا امتحان ہوتا ہے۔
ہمیں آج یہ ماننا ہوگا دنیا میں ایک طرف طیب اردگان جیسے لیڈرز ہیں جو ایک شاٹ سے معاشی تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں جو ہر قسم کی معاشی حرارت عوام کی طرف منتقل کر دیتے ہیں’’ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے اور ڈالر اگر 182 روپے کا بھی ہو جائے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘ یہ ہماری فلاسفی ہے جب کہ دنیا حل نکالتی ہے۔
آپ فرق دیکھ لیں‘ کاش ہمارے معاشی ماہرین بھی جلے ہوئے پر برف رکھنے کی بجائے طیب اردگان کی طرح زخم کا کوئی مستقل علاج دریافت کریں‘ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر نہ دبائیں‘ بلی کی طرح اپنے بچوں کی حفاظت نہ کریں لیکن یہ ہم نہیں کر سکیں گے کیوں کہ انسان مسائل کا حل اس وقت نکالتا ہے جب وہ مسائل کو مسئلہ تسلیم کرتا ہے جب کہ ہم مسائل کے پہاڑ کے سامنے کھڑے ہو کر بھی اس کے وجود سے انکاری ہیں لہٰذا پھر ہم حل کی طرف کیسے آئیں گے؟۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Leaders Aise Hote hain By Javed Chaudhry