میڈم چیف منسٹر اور پروفیسر اطہر محبوب – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

میں نے 1991میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے صحافت میں ایم اے کیا اور 1992 میں بہاولپور سے لاہور شفٹ ہو گیا‘ اسلامیہ یونیورسٹی اس وقت تک ایک پس ماندہ صحرائی یونیورسٹی تھی‘ بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں‘ یونیورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس تین حصوں میں تقسیم تھے‘ اولڈ کیمپس شہر کے درمیان تھا‘ اس میں وائس چانسلر کا دفتر‘ صحافت کا شعبہ‘ لاء ڈیپارٹمنٹ اور خواتین کے دو ہاسٹل تھے‘ ریلوے کیمپس ریلوے اسٹیشن کے قریب تھا اور اس میں کیمسٹری اور ایجوکیشن کے شعبے تھے جب کہ اس کی بالائی منزل پر ہاسٹل تھا اور اس میں ہم لوگ رہتے تھے‘ باقی یونیورسٹی شہر سے دور صحرا میں تھی‘ یہ حصہ نیو کیمپس یا بغدادالجدید کہلاتا تھا‘ اس کے دائیں بائیں تاحد نظر ریت ہی ریت تھی‘ آبادی کا نام و نشان نہیں تھا‘ ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر تھی‘ یونیورسٹی کے نوے فیصد شعبے اس کیمپس میں تھے۔

اسٹوڈنٹس اولڈ کیمپس سے بسوں پر نیو کیمپس آتے تھے‘ پڑھتے تھے اور واپس اولڈ کیمپس آ جاتے تھے‘ نیو کیمپس میں کینٹین تک نہیں تھی‘ اسٹوڈنٹس کو چائے کے لیے بھی اولڈ کیمپس آنا پڑتاتھا‘ وہ ایک مشکل دور تھا‘ ہاسٹل کے نام پر ایک قدیم عمارت تھی جس کی نچلی منزل پر کلاسز ہوتی تھیں اور اوپر لڑکے ہاتھ میں بالٹیاں پکڑ کر بنیانیں پہن کر باتھ روم آتے جاتے تھے یا کپڑے دھو کر برآمدے کی ریلنگ پر لٹکا دیتے تھے‘ کینٹین کے لیے اولڈ کیمپس جانا پڑتا تھا جب کہ یونیورسٹی کی باقی اہم سرگرمیاں نیوکیمپس میں ہوتی تھیں گویا ہر طالب علم کو دن میں تین مختلف کیمپس میں دوڑنا پڑتا تھا‘ میں یونیورسٹی کے بعد زندگی کی دوڑ دھوپ میں لگ گیا‘ درمیان میں ایک دو مرتبہ بہاولپور جانے کا اتفاق ہوا مگر یونیورسٹی کی حالت میں کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا‘ 2020 میں 30 سال بعد یونیورسٹی نے مجھے وزٹ کی دعوت دی۔

یہ میرے لیے اعزاز کی بات تھی‘ وہ ادارہ جس کے آپ ایک بغلول سے طالب علم رہے ہوں وہ اگر آپ کو گیسٹ اسپیکر کی حیثیت سے دعوت دے تو یہ میرے جیسے نالائقوں کے لیے واقعی اعزاز کی بات ہوتی ہے‘ میں بہرحال27 دسمبر2020کو بہاولپور گیا اوریونیورسٹی دیکھ کر حیران رہ گیا‘ جامعہ کی کایا مکمل طور پر پلٹ چکی تھی‘ نیو کیمپس کا صحرا چمن میں تبدیل ہو چکا تھا‘ اس میں درخت بھی تھے اور دور دور تک گھاس بھی‘ صحرا کی ریت پر درجنوں ڈیپارٹمنٹس کھڑے تھے اور ان میں 65 ہزار طالب علم پڑھ رہے تھے۔

یونیورسٹی کے کل 126شعبے تھے جب کہ ٹیچرز کی تعداد (2400 تھی‘ مستقل ٹیچرز1400 اور جزوقتی ایک ہزار)تھی‘ کیمپس کا ماحول ہارورڈ اور کولمبیا یونیورسٹی جیسا تھا‘ لائبریری انتہائی وسیع تھی اور اس میں اسٹوڈنٹس ریسرچ بھی کر رہے تھے‘ہمارے دور میں یونیورسٹی میں غنڈہ گردی تھی لیکن اب وہاں غنڈے تھے اور نہ گردی‘ صرف اور صرف تعلیم‘ ریسرچ اور علم و ادب تھا‘ مجھے اللہ نے بڑی دنیا دیکھنے کا موقع دیا‘ میں نے درجنوں عالمی لیول کی یونیورسٹیاں بھی دیکھیں‘آپ یقین کریں اسلامیہ یونیورسٹی کسی بھی طرح ان عالمی یونیورسٹیوں سے کم نہیں تھی اور یہ کارنامہ صرف ایک شخص کا تھا اور ان کا نام پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب تھا۔

ڈاکٹر اطہر محبوب کا تعلق پڑھے لکھے خاندان کے ساتھ تھا‘ ان کا خاندان والد اور والدہ دونوں سائیڈز سے انتہائی پڑھا لکھا اور بااثر تھا‘ یہ 2019 میں وائس چانسلر بن کر بہاولپور آئے‘ ذات میں لیڈر شپ گندھی ہوئی تھی لہٰذا انھوں نے پس ماندہ اور غیر معروف یونیورسٹی کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور اسے شعبوں‘ طالب علموں اور فیکلٹی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی بنا دیا‘ یونیورسٹی نے بہاولپور اور اس کے مضافات میں تعلیم کی ہزاروں شمعیں روشن کیں اور یہ سب کچھ دیکھ کر دل خوش ہو گیا‘ بہرحال قصہ مختصر حکومت کو اس شان دار انسان اور لیڈر شپ کی صلاحیت سے بھرپور شخص سے کام لینا چاہیے تھا‘ اس کے ماڈل کو باقی اداروں تک پھیلانا چاہیے تھا لیکن آنے والے دنوں میں ہم نے اس عظیم انسان کو بھی عبرت کی نشانی بنا دیا۔

2023 میں پروفیسر اطہر محبوب کی مدت ملازمت ختم ہو رہی تھی‘ حاسدین کو خدشہ تھا حکومت کہیں انھیں ایکسٹینشن نہ دے دے یا یہ شخص ترقی کر کے تمام وائس چانسلرز کا باس نہ بن جائے چناں چہ ایک جعلی اسکینڈل گھڑا گیا‘ مقامی اخبارات نے اسے اٹھایا اور یہ قومی خبر بن گئی‘ سوشل میڈیا پر باقاعدہ سرمایہ کاری کر کے یونیورسٹی اور پروفیسر اطہر محبوب کی شخصیت پر کیچڑ اچھالا گیا‘ اس کے دو مقصد تھے‘ پہلا مقصد پروفیسر اطہر محبوب کی نیک نامی پر کیچڑملنا تھا اور دوسرا بہاولپور جیسی مارکیٹ میں پرائیویٹ یونیورسٹیاں بری طرح پٹ گئی تھیں۔

ان کے کیمپس خالی پڑے تھے‘ ان پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے پاس ٹیلی ویژن چینلز بھی تھے لہٰذا انھوں نے اپنے مفاد کے لیے یونیورسٹی اور پروفیسر اطہر محبوب دونوں کی عزت خاک میں ملا دی‘ پروفیسر صاحب کا نام ای سی ایل پر بھی آ گیا اور یہ اپنی فائل اٹھا اٹھا کر ایک دفتر سے دوسرے دفتر بھی دوڑنے لگے‘ بہرحال اللہ تعالیٰ اچھے اور نیک لوگوں کی عزت کی رکھوالی کرتا ہے‘ یہ اسکینڈل مکمل طور پر جھوٹا نکلا‘ ملک کے تمام تحقیقاتی اداروں نے اسے جھوٹا‘ لغو اور فضول قرار دے دیا‘جے آئی ٹی نے بھی پروفیسر صاحب کو بے گناہ قرار دے دیا‘ یہ بھی معلوم ہو گیا یہ اسکینڈل حسد اور مالیاتی فوائد کے لیے گھڑا گیا تھا اور اس کا مقصد پروفیسر اطہر محبوب اور یونیورسٹی دونوں کا راستہ روکنا تھا اور یہ مقصد بہرحال پورا ہو گیا‘ملک کی سب سے بڑی اور کام یاب یونیورسٹی کی عزت خاک میں مل گئی اور یونیورسٹی کو بدلنے والا شخص دربدر ہو گیا۔

آپ صورت حال دیکھیے‘ اس ملک میں کوئی بھی شخص چند رپورٹرز‘ کسی یوٹیوبر یا ایک آدھے نیوزچینل کو ساتھ ملا کر کسی بھی شخص یا ادارے کی مٹی پلید کر سکتا ہے اور یہ الزام بعدازاں کتنا ہی غلط اور غلیظ ثابت کیوں نہ ہو جائے اس شخص اور ادارے کی عزت بحال نہیں ہوتی‘ پروفیسر اطہر محبوب صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ تمام اداروں نے تحقیقات کے بعد اسکینڈل کو ’’بیس لیس‘‘ اور پروفیسر صاحب کو بے گناہ قرار دے دیا لیکن سوشل میڈیا اور میڈیا کی پرچھائیوں نے پروفیسر صاحب کا پیچھا نہ چھوڑا‘ پنجاب میں پچھلے دو ماہ میں25یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتی تھی‘ پروفیسر اطہر محبوب بھی ان پوزیشنز کے لیے ’’کوالی فائی‘‘ کرتے تھے۔

ان کے پروفائل کی وجہ سے انھیں انٹرویو کے لیے بھی بلایا گیا لیکن انھیں مسترد کر کے ان سے کم کوالی فکیشن‘ تجربے اور صلاحیت کے لوگوں کو وائس چانسلر بنا دیا گیا‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور سلیکشن بورڈ بہاولپورا سکینڈل سے ڈر گیا تھا اور ان کا خیال تھا اگر پروفیسر صاحب کو منتخب کر لیا گیا تو میڈیا ایک بار پھر آسمان سر پر اٹھا لے گا اور وزیراعلیٰ پنجاب اس وقت کوئی منفی خبر افورڈ نہیں کر سکتیں‘ آپ خوف کی نوعیت اور لیول دیکھیے‘ صرف اس لیے ایک قابل شخص کو محروم رکھا جا رہا ہے کہ ماضی میں چند لوگوں نے اپنے مفاد کے لیے ان پر کیچڑ اچھالا تھا‘ یہ لوگ آج بھی مزے سے زندگی گزار رہے ہیں۔

ان کو کسی نے بلا کر نہیں پوچھا آپ نے کیوں اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے پورے تعلیمی ادارے اور ملک کے کام یاب ترین وائس چانسلر کی عزت خاک میں ملائی لیکن بے گناہ‘ معصوم اور اہل ترین شخص کو عبرت کی نشانی بنا دیا گیا اور آج حکومت اور اس کے سلیکشن بورڈز صرف میڈیا کے خوف سے اسے اس کی اہلیت کے مطابق پوزیشن نہیں دے رہے‘ آپ دیکھ لیں ملک میں کسی بھی اہل شخص کو برباد کرنا کتنا آسان ہے؟ آپ چند رپورٹرز یا یوٹیورز کو ساتھ ملائیں اور کسی بھی پروفیسر اطہر محبوب کو بدنامی کی دلدل میں دفن کر دیں اور بعدازاں اس کی قبر پر گھاس اگا دیں اور بس۔

مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے یہ ملک اہل اور کارآمد لوگوں کے لیے بنا ہی نہیں‘ آپ اگر یہاں کچھ نہیں کرتے تو آپ کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی‘ آپ گریڈ 17 میں بھرتی ہوں اور 22 ویں گریڈ میں پہنچ کر مراعات اور پلاٹس کے ساتھ ریٹائر ہو جائیں اور آپ نے اگر دوران نوکری خوشامد کا آرٹ سیکھ لیا یا آپ کسی طاقت ور دھڑے کا حصہ بننے میں کام یاب ہو گئے تو پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی زندگی آپ کے لیے شان دار ہو گی‘ آپ کو ایکسٹینشن بھی مل جائے گی اور آپ کی مراعات اور تنخواہ میں بھی اضافہ ہو جائے گا لیکن اگر آپ پروفیسر اطہر محبوب کی طرح کام کرنے کی غلطی کر بیٹھے تو پھر یہ سسٹم آپ کو انارکلی کی طرح دیوار میں زندہ چنوا دے گا پھر آپ عبرت کی نشانی بن جائیں گے۔

آپ پروفیسر اطہر محبوب کا کیس دیکھ لیں‘ وہ وائس چانسلرز جنھوں نے یونیورسٹیز کی حالت بدلنے کی غلطی نہیں کی‘ جنھوں نے کسی ادارے کا اسٹیٹس تبدیل نہیں کیا‘ وہ بس آئے‘ لوکل سیاست دانوں‘ لوکل میڈیا اور پریشر گروپس کو راضی رکھا‘ ہاسٹلز اور کیمپس میں جو کچھ ہو رہا تھا اسے ہونے دیا اور انھوں نے گورنر‘ وزیراعلیٰ‘ وزیرتعلیم اور ہائیرایجوکیشن کمیشن کے عہدیداروں کو خوش رکھا‘ وہ آج بھی اپنے عہدوں پر قائم ہیں‘ وہ ترقی پر ترقی کرتے جا رہے ہیں‘ انھیں کسی نے نہیں پوچھا ’’تم نے پچھلے دس بیس سال میں کیا کیا؟‘‘ لیکن جس شخص نے صحرا کی ریت کو علم اور تحقیق میں بدل دیا اسے اس سسٹم نے دھوپ میں کان پکڑا دیے۔

اسے ہم نے بے گناہی کے باوجود ٹکٹکی پر باندھ دیا‘ یہ ہے اس ملک کا نظام یعنی جو لوگ کچھ نہ کریں انھیں ترقی پر ترقی دیتے چلے جائیں اور جو کچھ کرنے کی غلطی کر بیٹھیں‘ جو خود کو کارآمد ثابت کر دیں انھیں پروفیسر اطہر محبوب کی طرح الٹا لٹکا دیں تاکہ ان کا حشر دیکھ کر کوئی دوسرا یہ غلطی نہ کرے‘ میرا خیال ہے میڈم وزیراعلیٰ کو ایک لمحے کے لیے اپنی اس ادا پر بھی غور کرنا چاہیے‘ انھیں سوچنا چاہیے کیا یہ ہے ان کا وہ کام یاب ماڈل جس کے ذریعے یہ صوبے کی حالت بدلنا چاہتی ہیں اگر ماڈل یہ ہے تو پھر صوبے اور ملک دونوں کا خدا ہی حافظ ہے۔

Source: Express News

Must Read Urdu column Madam Cheif Minister and Professor Athar Mehboob By Javed Chaudhry

Comments are closed.