مدینہ یاد آتا ہے! – ڈاکٹر عامر لیاقت حسین

2023265 DrAamirliaquathussain 1584676971 545 640x480

بس ایک مدینہ ہی تو ہے جو غم کے ماروں کو اپنے سینے میں چھپا کر پہلے تو بڑے پیار سے اْن کے آنسوؤں کو جذب کرتا ہے اور پھر رحمت کی تھپکیاں دے کر اْنہیں کچھ دیرکے لیے سلادیتا ہے اور وہ ٹوٹے ہوئے انسان واقعتاً نیندکی آغوش میں چلے جاتے ہیں، جنھیں وقت کی کڑی دھوپ اور اپنوں کے’’ بدلتے روپ ‘‘ نے نہ جانے کب سے سونے ہی نہ دیا تھا۔ یہاں قدم قدم پر عشق کے چشمے اْبلتے ہیں لیکن سیراب ہونے والے کچھ ہی دیر بعد پھر سے پیاسے ہوجاتے ہیں۔

عجیب ہیں یہ تشنہ لب مگر با ادب عشاق، جو اپنے آقاﷺ کے دستِ کرم سے جام کوثرکے دوگھونٹ پینے کے لیے بے قرار ہیں۔ اِن کے درودوسلام کے پھولوںکی خوشبواْن فرشتوں کو بڑی بھلی لگتی ہے جو زیارت کے لیے اپنی اپنی باری کے منتظر ہیںاور مجھ جیسے ان گنت گناہ گاروں کی قسمت پر رشک کرتے ہیں جنھیں ’’ بیت عصیاں‘‘ میں رہتے ہوئے تومدت گذرگئی مگر ’’باب جبریل‘‘ میں داخلہ کبھی بند نہ ہوا…! پر اب تو سب ہی کا داخلہ بند ہے، مدینہ یاد آتا ہے۔

یاد آتا ہے حاضری کا وہ باب کہ جب اک گناہ گار اپنے سرکار ﷺ کے روضہ پر نورکی چھاؤں میں سنہری جالیوں کے سامنے اشکوں سے گذارش کی کوشش کرتے ہوئے حیران تھا کہ

خاک مجھ میں کمال رکھا ہے

مصطفی ؐ نے سنبھال رکھا ہے

شاید یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں لبوں کو الفاظ نہیں ملتے،جذبے گنگ اوراحساسات ساکت رہ جاتے ہیں البتہ صلوۃ و سلام کی سرگوشیاں زندہ ہونے کی حقیقت کو قائم رکھتی ہیں۔میں نے دیکھا ہے کہ اِس دربار میں اشک بھی کلام کرتے ہیں، رخسارکا ساتھ چھوڑنے سے پہلے ہی وہ چپکے چپکے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ شاید اْن آنکھوں کی شکایت کرتے ہوں جنہوں نے وقت پر اْنہیں اپنے پیالوں سے چھلکنے نہیں دیا، یا پھر بارگاہ میں یہ التجا کرتے ہوںکہ ہم وہاں سے کیوں بہہ نکلے جنھیں بہانے کا سلیقہ بھی نہیں آتا ! اور پھر جب نگاہ مسجد نبوی کے قالینوں پر پڑتی ہے تو بے اختیار اِن کے مقدرکے اوج کا تصور ایک لمحے کے لیے یہ دعا بن جاتا ہے کہ کاش! میں اِس مسجد میں بچھا ہوا قالین ہوتا جس پر توحید کے پروانے اپنے رب کے حضور سجدے کرتے ، میں اْن کی پیشانیوں کو چومتا اور یہیں چپ چاپ پڑا اْنہیں تکتا رہتا۔

کاش میں اْن کے قدموں کی ملائمت کو اپنے سینے پر محسوس کرتا ، وہ مجھ پر چلتے اور میں اْن کی رہ گذر بنتا اورجب وہ پیارے محبوب کی محبت میں روتے تو میں اْن کے آنسوؤں کوذخیرہ کرتا اور عشق کی اِس ادا پر کھل اْٹھتا،کتنا اچھا لگتا کہ جب وہ کتاب بلاغت کی تلاوت کرتے تو میں بھی اْن کے ساتھ ساتھ قرآن پڑھتا، وہ آیاتِ سجدہ پر سجدے کرتے اور میں اپنی قسمت پہ نازاں ہوتا ،کاش مجھے ریاض الجنہ کے سبز قالین کے ساتھ پہلو ملانے کا شرف ملتا اور میں بھی پردہ نشیںزمین سے یہ پوچھتا کہ تجھے جنت کے پڑوس میں رہنا کیسا لگتا ہے ؟اور جب فریاد رس اپنی بپتا مولا کو سناتے تو میں بھی اْن کے درد کا گواہ بن جاتا اور روزحشر اللہ کے حکم سے اْن کے لیے سفارش کرتا، کاش کہ کسی متقی کی تسبیح کچھ دیرکو میری آغوش میں استراحت کرتی اور میں بھی شکرکے چند دانے پڑھتا، کوئی عابد مجھے اپنا بچھونا بناتا اورمیں یہ بستر نرم کرتا، مجھے عذاب کا ڈر ہوتا نا حساب کا خوف اور میں فردوس میں شہدا کے لیے بچھایاجاتا۔

کاش کہ مجھے گنتی کی ساعتوں کے لیے قوت گویائی مل جاتی اور میں ساجدوں سے یہ کہہ سکتا کہ میں توصرف ایک قالین ہوں جسے عمل پر قدرت نہیں اِسی لیے بے خوف ہوں مگر تمہیں کیا ہوا کہ عمل کے باوجود خوف نہیں؟ تمہاری جبینوں کے کروڑوں بوسوں کے باوجود میرے وجود کے دھاگے اب بھی جواب دہی کے احساس سے لرزتے ہیں اورمیں ڈرتا ہوں کہ اگر انسان ہوتا تو پالن ہارکے سامنے ایک مجرم کی طرح کیسے کھڑا ہوتا؟کیسے کہتا کہ ہاں میرے رب! تْو نے تو اپنے عہد کو پورا کیا لیکن میں وعدہ نہیں نبھا سکا، تْو نے تو میری سانس کے ہر خالی پن کو اپنی نعمتوں سے بھر دیا مگر میں ہی تیرا شکر نہ کر سکا،کاش مجھے میری ماں نے جنا نہ ہوتا اورکاش میں مسجد کے صحن میں بچھا ایک قالین ہوتا۔

اور پھر یاد آیا کہ اِسی سوچ میں گم گستاخ اکھیاںیکبارگی مواجہ شریف کوچوم آتی ہیں اورگویا دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے، نہ جانے کہاں سے طمانیت کے دو غیبی ہاتھ گرتے ہوئے کو تھام لیتے ہیںاور سماعتیں اِس بازگشت کو فیصلے کی طرح محفوظ کرلیتی ہیں کہ ’’رونے والے! مبارک ہوکہ تیرے موتیوں کے خریدار مل گئے، اِن قطروں نے تجھے آنے والے خطروں سے بچا لیا، تیری سسکیوں نے فرشتوں کو بھی گریہ سکھا دیا، یہ طیبہ ہے یہاں سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا، یہ مدینہ ہے یہاں مانگنے والے کو عطا کیاجاتا ہے اوریہ بطحا ہے جہاں مرادیں پوری کی جاتی ہیں،اْن کے فراق میں جب لکڑی کے ستون کی روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں اور اْنہوں نے اْسے سینے سے لگا کر چپ کرادیا تو پھر تْو تو اْن کا امتی ہے ، تجھے روتا دیکھ کر وہ اپنی کملی میں تجھ کوکیوں نہ چھپائیں گے ، اصحاب صفہ کا چبوترا اور استوانِ حنانہ گواہ ہیں کہ اِس بھری دنیا نے جس جس کو ٹھکرایا، میرے سرکارﷺ نے اْس کو سینہ اطہر سے لگایا، ارے بھول گیا کہ یہ مدینہ ہے ، یہاں کی تو مٹی بھی بڑی نرالی ہے،کئی دیوانے ہیں جو اِس مٹی سے اپنا رشتہ جوڑنے کے لیے مدینے کی گلیوں میں ننگے پاؤں پھرتے ہیں اور بیشتر ایسے ہیںجو بقیع میں مل کر اب تومدینے کی مٹی ہی بن چکے ہیں۔‘‘

ایک طرف قبا کی عظمت ہے تو دوسری طرف قبلتین کی فضیلت، کہیں بئر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے تو کہیں ابیارِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، احد کے ذرے آج بھی بوئے مصطفی ﷺ کی لذت میں مست و سرشار ہیں اور احزاب کے نشانات حکمتِ ابرارکی وسعتوں میں گرفتار ہیں، مدینے کی کشش وادی بیدا سے بدایہ حدالحرم کھینچتی ہے، جس پر ’’روشن خیالی‘‘ غصے سے اپنی مٹھی بھینچتی ہے، یہاں سلمان و جابر رضی اللہ عنہم کے باغات اور صحابہؓ کے مزارات ہیں، سیدنا حمزہ بھی یہیں سو رہے ہیں۔

قصہ مختصریہ کہ سب کے مقدر کے فیصلے یہیں ہورہے ہیں اور جب مسجدِ نبوی کے میناروں سے صدائے اللہ اکبرگونجتی ہے تومیں سوچتا ہوں کہ کیسا ہوتا ہوگا وہ منظر…جب سیدنا بلال ؓ اشھد ان محمد الرسول اللہ کہتے ہوئے حجرہ نبیﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہوں گے اور وہ بے ہوشی بھی کیا بے ہوشی ہوگی جب سرکارﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد حسنین کریمین کی خواہش پر سیدنا بلا ل ؓ نے ایک مرتبہ پھر اذان دی مگر اِس بار جب اشھدان محمد الرسول اللہ کہتے ہی شہادت کی انگلی اٹھائی اورحجرے میںمدینے کا چاند دکھائی نہ دیا تو شہتیر کی طرح گر پڑے اور پھر کچھ ہی دنوں کے بعد انتقال فرماگئے۔

عشق میں اِسی سبقت کی بدولت تو میرے سرکار نے جنت میں اْن کے قدموں کی چاپ آگے سماعت فرمائی تھی !ہر نمازکی ادائیگی کے دوران یہ دھیان ہی ادب پہ مامور کردیتاہے کہ یہ ہے وہ مسجد جہاں فصیح البیان اور بلیغ اللسان یعنی کامل انسان، ہمارے نبیﷺ امامت فرماتے تھے، قرآن اپنے پڑھنے والے پرسلام بھیجتا اور قرآن پڑھنے والا معجزوں کے اِس عظیم معجزے پرشکر ادا کرتا،اْن کی تلاوت پر زمانے کی گردش رک اور وقت کی نبض تھم جاتی۔ اِسی مسجد کے منبر سے جب وہ کلام کرتے تو وہ کائنات کا سب سے بہترین کلام ہوتا اور بے شک اِس سے زیادہ حسین اورکون سی محفل ہوسکتی ہے کہ جہا ںخطاب مصطفی ﷺ کریں اور مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہوں۔

مسجدکے ایک گوشے میں تنہا میں اِن ہی خیالات میں گم ہوں، دنیا کی سطح پر اْبھرنے کی جی نہیں چاہتا،مَن سے بار بار ایک ہی آواز آتی ہے کہ ’’بحرِعشق میں محبت کے جتنے غوطے لگاسکتا ہے لگالے کیونکہ ساحل سے نظارہ کرنے والے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ تْوڈوب رہا ہے اور وہ تجھے بچانے نکل پڑے ہیں‘‘مگر ابھی کیا کروں، دل کوکیسے سمجھائوں کیسے کہہ پائوں کہ

’’مدینہ یاد آتا ہے! ‘‘

Source

Must Read urdu column Madinah Yad ata hai Dr Ammir Liaqat Hussain

Leave A Reply

Your email address will not be published.