مہاویر پوچھ رہا ہے- جاوید چوہدری
وہ محض ایک سوال تھا لیکن اس نے مجھے اندر اور باہر دونوں جگہوں سے ہلا کر رکھ دیا‘ میں دیر تک پسینہ پونچھتا رہا مگر میرا ماتھا خشک نہ ہوا‘ میں ایک ٹشو رگڑتا تھا اور دوسرا ٹشو نکالنے تک میرا ماتھا دوبارہ تر ہو جاتا تھا۔
وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور میں شرمندگی سے دائیں بائیں دیکھ رہا تھا‘ وہ بھکشو تھا‘ بودھ بھکشو‘ اس نے بدن پر نارنجی رنگ کی دو چادریں لپیٹ رکھی تھیں‘ سر پر استرا پھرا ہوا تھا‘ ناک پر گول شیشوں کی عینک تھی اور پائوں میں لکڑی کی کھڑاویں‘ اس کا تھیلا اس کے ساتھ پڑا تھا اور وہ عینک کے گول شیشوں کے پیچھے سے مجھے گھور رہا تھا۔
وہ مجھے سری لنکا میں ابہایا گری وی ہارا (Abhaya Girivihara) کی بودھ خانقاہ میں ملا تھا‘یہ بودھ ازم کے مہایا فرقے کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے‘ میں پھرتا پھرتا انورادھا پورا پہنچ گیا اور میری مہاویر سے ملاقات ہو گئی‘ وہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھا‘ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہوا اور سکون کی تلاش میں بودھ ہو گیا‘ بودھ بودھا کے پائوں میں ایک خاص قسم کا پھول چڑھاتے ہیں‘ اس پھول کے اندر بودھا سٹوپا جیسا ڈنڈل ہوتا ہے اور ان کا عقیدہ ہے مہاتما بودھ اس کے پھول کے قریب پیدا ہوئے تھے اور یہ اسی کے قریب فوت ہوئے تھے۔
میں نے ہیڈ پجاری سے اس پھول کا نام پوچھا‘ اسے انگریزی نہیں آتی تھی‘ اس نے مجھے اشارے سے مہاویر کی طرف بھیج دیا‘ وہ آلتی پالتی مار کر مراقبے میں بیٹھا تھا‘ میں اس کے قریب بیٹھ گیا‘ اس نے چند لمحوں بعد آنکھیں کھولیں اور میری طرف متوجہ ہو کر بولا ’’مے آئی ہیلپ یو‘‘ میں نے اسے پھول دکھایا اور اس سے اس کا نام پوچھا‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’لوٹس‘‘ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اٹھ کھڑا ہوا‘ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بٹھایا اور پوچھا ’’آپ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں‘‘ اور پھر ہماری گفتگو شروع ہو گئی۔
وہ حقیقتاً بہت پڑھا لکھا جوان تھا‘ آدھی دنیا دیکھ چکا تھا‘ سچ کی تلاش میں درجن بھر مذہب بھی کھنگال چکا تھا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا تم نے اسلام کا مطالعہ بھی کیا‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’ میں بھارت میں تین اسلامی مدارس میں پڑھتا رہا‘ ایک مدرسہ بریلوی تھا‘ دوسرا دیوبندی اور تیسرا شیعہ‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا تم نے اسلام قبول کر لیا تھا‘‘ وہ مسکرا کر بولا ’’نہیں‘ میں صرف وہاں پڑھتا رہا‘ میں مختلف مذاہب کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا چناں چہ اسلامی مدارس میں بھی داخل ہو گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’تم پھر مسلمان کیوں نہیں ہوئے۔‘‘
وہ بولا ’’ مجھے مسلمان بہت انا پرست اور متکبرلگے‘ یہ خود کو پوری دنیا سے برتر سمجھتے ہیں چناں چہ میں آگے نکل گیا‘‘ میں نے انکار میں سر ہلایا اور معذرت سے عرض کیا ’’نہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘ اسلام تو ہے ہی عاجزی اور انکساری کا مذہب‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’کیا آپ لوگ یہ نہیں سمجھتے آپ کے نبیؐ تمام انبیاء‘ تمام اوتاروں اور تمام مذہبی رہنمائوں سے عظیم ہیں۔‘‘
میں نے جواب دیا ’’یہ ہمارا عقیدہ ہے‘‘ وہ بولا ’’اور کیا آپ یہ نہیں سمجھتے صرف آپ کی کتاب سچی اور عظیم ہے۔‘‘ میں نے فوراً جواب دیا ’’یہ بھی ہمارا عقیدہ ہے، ہمارا ایمان‘ یہ ہمارا یقین ہے۔‘‘ وہ بولا ’’میں آپ کے یقین‘ آپ کے ایمان کو مان لیتا ہوں‘ آپ بس میرے ایک سوال کا جواب دے دیں‘‘ میں غور سے اس کی بات سننے لگا‘ وہ بولا ’’میں مان لیتا ہوں آپ کے نبیؐ اور آپ کی کتاب دنیا کی ساری کتابوں‘ سارے نبیوں سے عظیم اور اچھی ہے لیکن اس عظیم کتاب‘ اس عظیم نبیؐ اور سچے اور اچھے اﷲ کے باوجود آپ لوگ اچھے کیوں نہیں ہیں؟
آپ لوگوں کو بولنے چالنے‘ کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کی تمیز کیوں نہیں‘ آپ لوگ علم‘ دلیل اور منطق کے دشمن کیوں ہیں؟ آپ ایک خدا‘ ایک رسولؐ اور ایک کتاب کو ماننے کے باوجود ایک دوسرے کو کافر کیوں سمجھتے ہیں،آپ ایک اللہ‘ ایک رسولؐ اور ایک کتاب کا نام لے کر اپنے ہم مذہب کو قتل کیوں کر دیتے ہیں‘ آپ اس اللہ‘ اس رسولؐ اور اس کتاب کی جھوٹی قسم کیوں کھاتے ہیں‘ آپ جھوٹ کیوں بولتے ہیں‘ ملاوٹ کیوں کرتے ہیں‘ غلط بیانی کیوں کرتے ہیں‘ ذخیرہ اندوزی کیوں کرتے ہیں‘ چوری اور ڈاکا زنی کیوں کرتے ہیں‘ خواتین اور بچوں کی آبروریزی کیوں کرتے ہیں‘ خوراک اور ادویات میں فراڈ کیوں کرتے ہیں‘ وعدہ خلافی کیوں کرتے ہیں‘ دوسروں پر شک کیوں کرتے ہیں اور آپ انسانوں کو درجوں میں تقسیم کیوں کرتے ہیں؟‘‘۔
میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ وہ بولا ’’میں بڑے بڑے مسلمان علماء‘ تاجروں اور پروفیسروں سے ملا اور میں نے آخر میں اپنے آپ سے کہا‘ مہاویر جس مذہب سے اس کے اپنے جدی پشتی ماننے والے نہیں بدلے، مجھے اس سے کیا ملے گا چناں چہ میں آگے نکل آیا اور میں آج بودھ ہوں۔‘‘
میں نے ماتھا صاف کیا اور اس سے پوچھا ’’کیا تمہیں یقین ہے بودھ مت سچامذہب ہے اور یہ تمہیں وہ سب کچھ دے گا جس کی تمہیں تلاش ہے۔‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’میں آپ کو عجیب بات بتاتا ہوں‘ مسلمانوں کے علاوہ دنیا کے کسی مذہب کے پیروکار سو فیصد سچائی کا دعویٰ نہیں کرتے‘ پورا بودھ مت کہتا ہے ’’تم ہوسکتا ہے نروان پا جائو اور یہ بھی ہو سکتا ہے تم محروم رہو‘‘ یہ لوگ سیدھے راستے پر رہتے ہوئے بھی دعویٰ نہیں کرتے جب کہ تم لوگ غلط راستے پر چل کر بھی سچا ہونے کا دعویٰ کرتے ہو‘ تم پوری دنیا کا خون چوس کر بھی دعویٰ کرتے ہو تم جنت میں جائو گے اور کینسر کی دوا ایجاد کرنے والے دوزخی ہیں۔
اس یقین سے غرور کی بو آتی ہے اور تم لوگ سمجھتے ہو اللہ تعالیٰ تمہیں تمام تر گناہوں کے باوجود جنت میں بھجوائے گا، جیسے دوسرے مذاہب کے لوگوں کے بارے میں فیصلہ اﷲ نے نہیں کرنا تم نے کرنا ہے‘ اس تم نے جس کے ہاتھ میں ڈنڈے اور منہ میں نفرت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ وہ رکا‘ لمبا سانس لیا اور بولا ’’تم عجیب دل چسپ لوگ ہو‘ تم اکیسویں صدی میں بیٹھ کر چھٹی صدی کے ایشوز پر ایک دوسرے کا سر اتار رہے ہو اور اس کے بعد یہ دعویٰ بھی کرتے ہو ہم اسلام کے پیرو کار ہیں‘ میں کیسے مان لوں؟ آپ اگر اسلام کے سچے پیروکار ہیں تو پھر پورے عالم اسلام میں امن کیوں دکھائی نہیں دیتا‘ ہم بودھ امن اور آشتی کا دعویٰ نہیں کرتے۔
ہم ایک آئیڈیل معاشرہ بھی نہیں بنانا چاہتے اور ہم نے کبھی اپنی کتاب اور اپنے لیڈر کو دنیا کا عظیم لیڈر اور دنیا کی بہترین کتاب بھی ڈکلیئر نہیں کیا مگر ہم ہمیشہ آشتی اور امن کے ساتھ رہتے ہیں‘ لہاسا میں ہماری مقدس ترین عبادت گاہ تھی‘ چین نے 1959میں اس پر قبضہ کر لیا اور دلائی لامہ کو تبت سے نکال دیا‘ ہم آج تک اس کے لیے بھی نہیں لڑے‘ ہم دنیا میں 54کروڑ ہیں مگر ہم نے آج تک چین پر حملہ کیا اور نہ خودکش بم پھاڑے لیکن تم سب سے اچھے اور نیک ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو مار رہے ہو‘ یہ کہاں کی نیکی‘ یہ کہاں کی اچھائی ہے لہٰذا میرا صرف ایک سوال ہے تم اگر اپنے مذہب کے سچے پیروکار ہو تو پھر تم سچے کیوں نہیں ہو‘تم اچھے کیوں نہیں ہو‘‘ میں لاجواب ہو گیا‘ میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور ٹمپل سے باہر نکل آیا۔
سردار کامران میرے دوست ہیں‘ انھوں نے مجھے کل علامہ ضمیر اختر نقوی کا ایک پرانا کلپ بھجوایا‘ علامہ صاحب نے اس کلپ میں فرمایا تھا’’ ہم سب مسلمانوں کا ایک ہی جھگڑا ہے‘ اﷲ میاں میرے ہیں‘‘ علامہ صاحب نے آخر میں اس بودھ بھکشو جیسا سوال بھی اٹھا دیا۔
اﷲ‘ رسولؐ اور قرآن مجید اچھا ہے تو پھر ہم اچھے کیوں نہیں ہیں؟ مجھے اس کے ساتھ ہی مہاویر یاد آگیا اور میں دیر تک اپنے آپ سے پوچھتا رہا‘ ہم سب عاشق رسولؐ ہیں‘ ہمیں ہونا بھی چاہیے لیکن ہم اپنے رسولؐ کے امتی کب بنیں گے‘ہمارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کب محفوظ ہوں گے؟ رسول اللہﷺ کے دور میں منافقین تک محفوظ تھے لیکن آج اس اسلامی ملک میں مسلمان کے ہاتھوں مسلمان مر رہا ہے‘ ہم ایک دوسرے سے ڈر کر زندگی گزار رہے ہیں‘ کیا یہ ڈوب مرنے کا مقام نہیں اور کیا یہ بھی المیہ نہیں ہم مسلمانوں کو جتنی نظریاتی اور مذہبی آزادی کافر ملکوں میں ملتی ہے ہم اس کا اس اسلامی ملک میں تصوربھی نہیں کر سکتے۔
امریکا کے شہر بوسٹن کے کیتھڈرل چرچ آف سینٹ پال میں 20سال سے جمعہ کی نماز ہو رہی ہے‘ چرچ نے یہ سہولت مسلمانوں کی مشکلات دیکھ کر دی‘ کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں؟ میں ایک بزدل مسلمان ہوں‘ مجھ میں کسی اہل ایمان سے اس سوال کی جرأت نہیں‘ میں نہیں پوچھ سکتا لیکن مہاویر آپ سے یہ پوچھ رہا ہے ’’آپ اگر سچے اور اچھے مذہب کے سچے اور اچھے پیروکار ہیں تو پھر آپ سچے اور اچھے کیوں نہیں ہیں؟ آپ اگر سچے عاشق رسولؐ ہیں تو پھر رمضان میں اسلامی ملک میں مسلمان پولیس نے مسلمان نوجوانوں اور مسلمان نوجوانوں نے مسلمان پولیس پر حملہ کیوں کیا؟‘‘ آپ کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Mahaveer Poch raha hai By Javed Chaudhry