میں اعتراف کرتا ہوں – جاوید چوہدری
میں روز صبح فون کھول کر دیکھتا ہوں‘گم نام مہربان کا میسج پڑھتا ہوں‘ ہنستا ہوں اور ’’ آپ سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں‘ معافی چاہتا ہوں‘ آیندہ احتیاط کروں گا‘‘ کا میسج کاپی کرتا ہوں اور پھر فارورڈ کردیتا ہوں‘ یہ میسج اور اس پر ریسپانس اب میری زندگی کا حصہ بن چکا ہے‘ یہ ممکن نہیں میرا کالم شایع ہوا ہو اور مجھے مذمت کا یہ پیغام نہ ملے‘ اگر کسی دن یہ گم نام مہربان مہربانی کرنا بھول جائیں تو میرا پورا دن برباد ہو جاتا ہے۔
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آج دن ہی نہیں چڑھا‘ میرے گم نام مہربان پانچ وقتہ نیگٹو انسان ہیں‘ یہ مجھے میاں شریف کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں اور میں کچھ بھی لکھ لوں یہ اس میں سے کوئی نہ کوئی اعتراض ضرور ڈھونڈ لیتے ہیں‘ مثلاً چند دن قبل ان کا کہنا تھا آپ نے جتنا زور لگانا تھا لگا لیا لیکن پاکستان میں کورونا سے صرف ہزار لوگ مرے ہیں‘آپ دیکھ لیجیے گا ہمارا کپتان کورونا کو بھی آئوٹ کر دے گا۔
میری ہنسی نکل گئی اور میں نے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ان سے معذرت کر لی‘یہ صاحب میری زندگی میں اکیلے نہیں ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے سیکڑوں نیگٹو لوگ عنایت فرمائے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے مجھے یقین ہے میں اگر شیطان کو بھی کنکریاں ماروں گا تو یہ اس وقت بھی مجھے برا بھلا کہیں گے اور یہ اعتراض کریں گے میں نے جان بوجھ کر چھوٹی کنکریاں اٹھائی تھیں تاکہ شیطان کو چوٹ نہ لگے صرف گدگدی ہو‘ میں شروع شروع میں ایسے لوگوں سے چڑ جاتا تھا‘ میں ان سے کہتا تھا کالم صرف معلومات اور رائے ہوتے ہیں‘ یہ آسمانی صحیفہ نہیں ہوتے‘ آپ کو اگر یہ پسند آ جائیں تو سو بسم اللہ‘ پسند نہ آئیں تو آپ انھیں مسترد کر دیں‘ یہ زندگی کے لیے لازمی نہیں ہیں۔
آپ کو اچھے لگتے ہیں تو آپ پڑھ لیں‘ نہیں لگتے تو آپ ارطغرل غازی دیکھیں اور اپنا ایمان تازہ کریں‘ میرے پیچھے جوتا لے کر دوڑنے سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے گم نام مہربانوں سے سمجھوتہ کر لیا‘ میں نے انھیں وہ کوے مان لیا جو روز دوسروں کی کھڑکیوں پر آتے ہیں‘ کائیں کائیں کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں مگر آج جب میں نے صبح اپنے گم نام محبوب کا میسج پڑھا تو مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ محسوس ہوا شاید یہ اور ان جیسے لوگ ٹھیک کہہ رہے ہوں اور میں غلط ہوں۔
شاید یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مقدس پیغام ہوں اور یہ پیغام میرے جیسے گم راہ شخص کو راہ ہدایت پر لانے کا وسیلا ہو‘ یہ سوچ روشنی بن کر میرے دل پر اتری اور میں نے فیصلہ کر لیا میں آیندہ حکومت پر تنقید نہیں کروں گا‘ میں دل سے مان لوں گا اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ ملک کا مقدر فرشتوں کے ہاتھوں میں دے دیا ہے اور ان فرشتوں پر یقین میرے ایمان کا حصہ ہونا چاہیے‘ میں نے لمبی سانس لی‘ اپنے گم نام محبوب سے معافی مانگی اور اپنی گم راہی کو راہ راست پر ڈال دیا۔
میں آج اعتراف کرتا ہوں مجھ سے ماضی میں بہت غلطیاں‘ گستاخیاں اور گناہ سرزد ہوئے ہیں‘ میرے جیسے حقیر شخص کو 2018ء کے انتخابات کے نتائج پراعتراض نہیں کرنا چاہیے تھا‘ مجھے ان 63 فیصد سیاست دانوں کو بھی لوٹا نہیں کہنا چاہیے تھا جو الیکشنز سے چند ماہ پہلے پرانی پارٹیاں چھوڑ کر چڑھتے سورج کو سلامی کے لیے حاضر ہو گئے‘ جہانگیر ترین خواہ لاکھ بار کہتے رہتے ’’میں ان الیکٹ ایبلز کو کھینچ کر پارٹی میں لایا تھا‘ یہ نہ ہوتے تو عمران خان وزیراعظم نہ بنتے‘‘ وغیرہ وغیرہ لیکن مجھے جہانگیر ترین کی بات سے اتفاق نہیں کرنا چاہیے تھا۔
مجھ سے ریحام خان کی کتاب پڑھنے کا گناہ بھی سرزد ہو گیا‘ مجھے یہ خرافات بھی نہیں پڑھنی چاہیے تھیں‘ میں نے کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا ذکر کر کے بھی غلطی کی‘ مجھے حکومت کا 9نکاتی ایجنڈا بھی قوم کو نہیں سنانا چاہیے تھا‘ میں نے ادویات کی قیمتیں بڑھانے اور وزیرصحت عامرکیانی کا ذکر کر کے بھی زیادتی کی‘ میں بار بار پشاور میٹرو کا ذکر بھی کرتا رہا‘ مجھے ایک سال میں گیارہ ہزار ارب روپے کے قرضے کی بات بھی نہیں کرنی چاہیے تھے‘ گیس‘ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا ایشو بھی نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔
ٹیکسوں میں اضافے اور امپورٹ اور ایکسپورٹ کی نیک پالیسی کو غلط سمجھنا بھی میری غلطی تھی‘ نواز شریف کو علاج کے لیے ملک سے باہر بھجوا دینا اور آصف علی زرداری کو نیب کے لاک اپ سے اسپتال اور اسپتال سے گھر شفٹ کرنے کا ذمے دار بھی میں تھا‘ نیب کے وکلاء عدالتوں میں کوئی الزام ثابت نہیں کر پاتے یہ بھی میری غلطی تھی‘ میں یہ بھی مانتا ہوں چوہدری صاحبان کے 19 سال پرانے کیسز بھی میں صندوقوں سے نکال کر میز پر لایا تھا۔
میں نے انھیں نیب کے بورڈ میں پیش کیا تھا اور میں نے چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادوں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ وہ بھی میں ہی تھا جس کی وجہ سے چوہدری پرویز الٰہی لاہور ہائی کورٹ چلے گئے اور طارق بشیر چیمہ چینلز پر آ گئے اور حکومت ’’بیک فٹ‘‘ پر چلی گئی‘یہ میں تھا جس کی وجہ سے آٹا 45روپے سے 80روپے کلو ہو گیا‘ میں نے ہی گندم ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی تھی اور جب میری وجہ سے گندم کا بحران پیدا ہو گیا تو میں نے کٹائی کے موسم میں تین لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے کی اجازت بھی دے دی یوں میری وجہ سے گندم مافیا نے 40 ارب روپے بنا لیے‘ وہ بھی میں ہی تھا جس نے چینی کی قلت کے باوجود ای سی سی سے گیارہ لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی۔
پنجاب سے تین ارب روپے کی سبسڈی دلائی‘ ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور یہ60روپے کلو سے 85روپے پر آ گئی اور میں اس دوران سوتا رہا اور چینی مافیا نے سو ارب روپے کما لیے اور یہ بھی میں ہی ہوں جو آٹا اور گندم کی رپورٹ آنے کے باوجود ذمے داروں کو گرفتار نہیں کر رہا اور میں یہ بھی مانتا ہوں میں نے تفتان بارڈر کھولا تھا اور میری وجہ سے پورے ملک میں کورونا پھیلا تھا اور میری وجہ سے ڈاکٹروں اور نرسوں کو بروقت پروٹیکشن کٹس نہیں ملی تھیں اور یوں چھ سو ڈاکٹر اور پیرا میڈکس بیمار ہو گئے تھے‘ یہ میں تھا جس نے ڈھیلا ڈھالا لاک ڈائون کیا اور جب کورونا کے مریضوں کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہوگیا تو میں نے لاک ڈائون ختم کر دیا۔
یہ بھی میں تھا جس نے بجلی کے پرائیویٹ پراجیکٹس (آئی پی پیز) کی کرپشن کی رپورٹ جاری کی اور پھر ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری محبت کے دعوے دار دوست ملک کا سفیر آیا اور یہ فائل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گئی اور یہ بھی میں ہوں جو اٹھارہویں ترمیم میں ترمیم کے ذریعے اب صوبوں کا حصہ کم کرنا چاہتا ہے‘ میں اپنی یہ غلطی بھی مانتا ہوں میں وزیراعظم کے ماضی کے بیانات دکھا دکھا کر لوگوں کا ناشتہ خراب کرتا رہا ہوں‘ میں نے ستمبر 2013ء میں عمران خان کا وہ انٹرویو کر کے بھی ظلم کیا تھا جس میں خان صاحب نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایکسٹینشن اعتراض کیا تھا۔
میں نے وہ کلپ چلا کر بھی غلطی کی جس میں عمران خان نے شیخ رشید کے بارے میں کہا تھا میں انھیں اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں اور اس کے بعد انھوں نے کسی ٹلی (گھنٹی) کا ذکر کیا تھا‘ میں اب چھوٹی کابینہ اور غیر منتخب نمایندوں کو کابینہ میں شامل نہ کرنے کے وعدے یاد دلا کر بھی ظلم کر رہا ہوں اور میں اپنی یہ غلطی بھی مانتا ہوں میں نے معیشت کا بیڑہ بھی غرق کر دیا اور سرکاری نظام بھی توڑ پھوڑ کر رکھ دیا اور وہ بھی میں ہی ہوں جو پارلیمنٹ کو نہیں چلنے دے رہا اور اپوزیشن کے ساتھ بھی نہیں بیٹھ رہا۔
میں اپنے سارے گناہ‘ ساری غلطیاں تسلیم کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں میں آیندہ حکومت پر تنقید کی گستاخی نہیں کروں گا‘ عدالتوں اور کمیشن میں کرپشن ثابت ہو یا نہ ہو میں احتساب کا نعرہ لگاتا رہوں گا‘ حکومت خواہ آصف علی زرداری یا میاں نواز شریف کو جیلوں سے نکال دے تو بھی میں انھیں کرپٹ کہتا اور لکھتا رہوں گا‘ میں ہر صبح اٹھ کر عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کا نئے پاکستان کا ترانا بھی سنوں گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل پیجز سے جب بھی جہانگیر ترین اور فردوس عاشق اعوان کو گالیاں دی جائیں تو میں انھیں کم از کم دس لاکھ لوگوں تک ’’ری ٹویٹ‘‘ کروں گا‘ سارا ملک خواہ بند ہو جائے میں تب بھی مایوس نہیں ہوں گا‘ میں روز 1992ء کے ورلڈ کپ کا فائنل میچ بھی دیکھوں گا اور آسمان سے معجزے برسنے کا انتظار بھی کروں گا‘ میں محنت‘ کام اور ترقی سے بھی تائب ہو جائوں گا‘ میں خود کو بے ایمان بھی تسلیم کرلوں گا۔
میں آیندہ کسی جگہ کہوں گا اور نہ لکھوں گا’’ہمیں بھیک نہیں مانگنی چاہیے‘‘ بلکہ میں کوشش کروں گا میں خود بھی درمیانے سائز کا کوئی کشکول لے کر نکل جائوں اور رقم لا کر وزیراعظم فنڈ میں جمع کرا دوں اور میں یہ بھی عہد کرتا ہوں ملک میں کچھ بھی ہو جائے میں گھبرانے کی غلطی نہیں کروں گا خواہ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور ڈبلیو ایچ او کے مزید لوگ بھی لا کر بڑے بڑے عہدوں پر کیوں نہ بٹھا دیے جائیں اور آخری بات خواہ ملک میں کسی بھی مقدس دستاویز سے چپ چاپ کوئی بھی کلمہ‘ کوئی بھی فقرہ نکال دیا جائے میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کا ذکر نہیں کروں گا‘ بس ایک بار میری غلطیاں معاف کر دیں‘ میں آیندہ پاکستان کو صرف پاکستان نہیں کہوں گا نیا پاکستان کہوں گا‘ میں آیندہ حکومت کی ہر بات پر ایمان لے آئوں گا‘ یہ یوٹرن لے یا پی ٹرن لے‘ یہ ٹرن حلال اور صحیح ہوگا‘ میں اعتراف کرتا ہوں اور معافی چاہتا ہوں۔
Must Read urdu column Mai Aitraaf Karta hun by Javed Chaudhry