’’میں افغان تھا، میں افغان ہوں اور میں افغان رہوں گا‘‘۔
یہ الفاظ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی نے 2016میں کہے تھے جس پر کچھ محبِ وطن بھڑک اُٹھے اور اُنہوں نے اسفند یار ولی پر غداری کا الزام لگا کر اُنہیں افغانستان جانے کا حکم دیا لیکن اے این پی کے صدر نے یہ حکم نظر انداز کر دیا تھا۔ اُنہوں نے یہ الفاظ اپنی پارٹی کے سابق رکنِ صوبائی اسمبلی شعیب خان کی یاد میں منعقد کئے گئے جلسے میں کہے تھے۔ صوابی کا شعیب خان اپنے علاقے میں بابائے صوابی اور ملنگ بابا کے نام سے مشہور تھا۔ جب سوات سے شمالی وزیرستان اور بنوں سے پشاور تک ہر دوسرے دن بم دھماکے ہو رہے تھے تو یہ اے این پی تھی جو پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ بشیر بلور سے لے کر شعیب خان تک اے این پی نے سات سو سے زائد کارکن پاکستان پر قربان کر دیئے لیکن پاکستان سے محبت کے دعویداروں کو یہ قربانیاں نظر نہیں آتیں۔ وہ اسفند یار کو غدار کہتے ہیں کیونکہ اُسے اپنے افغان ہونے پر فخر ہے۔ کچھ دن پہلے اسلام آباد میں ایک دس سالہ بچی فرشتہ کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔ اغوا کے پانچ دن بعد اُس بچی کی لاش ملی تو لواحقین نے پولیس کیخلاف احتجاج کیا کیونکہ اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے بچی کے والد کی شکایت پر مقدمہ درج کرنے کے بجائے مظلوم والد سے تھانے کی صفائی کا کام لینا شروع کر دیا۔ لواحقین کے احتجاج میں کچھ سیاسی جماعتیں بھی شامل ہو گئیں۔ ایک ٹی وی چینل نے دعویٰ کر دیا کہ فرشتہ کا خاندان پاکستانی نہیں بلکہ افغان ہے۔ پھر کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر پاکستان اور اسلام کا نام لے کر گالم گلوچ کرنے والے محبِ وطن پاکستانی اور مجاہدینِ اسلام میدان میں آ گئے اور اُنہوں نے یہ نعرہ لگا دیا ’’افغانی بھگائو پاکستان بچائو‘‘۔ جواب میں فرشتہ کے لئے انصاف مانگنے والوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ’’میں بھی افغان ہوں‘‘۔ جب بھی کوئی پختون اپنے آپ کو افغان کہتا ہے تو پنجاب سے تعلق رکھنے والے پاکستانیت کے کچھ علمبردار اُسے غدار قرار دے کر افغانستان چلے جانے کا حکم دینے لگتے ہیں۔ یہ وہ رویہ ہے جس کے باعث 1971ءمیں بنگالی پاکستان سے علیحدہ ہو گئے تھے لیکن افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان سے محبت کے نام پر اس پاکستان دشمنی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا نظامِ تعلیم ہے۔ ہم اپنے بچوں کو اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں صحیح تاریخ نہیں پڑھاتے۔ صحیح تاریخ نہ پڑھانے کی وجہ یہ ہے کہ اگر نئی نسل کو پتہ چل گیا کہ ہمارے اصل ہیرو اور ولن کون ہیں تو پھر پاکستان پر ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ افغان دراصل پاکستان کا حصہ ہے لیکن پاکستانیت کے علمبردار اپنے آپ کو افغان کہنے والوں کو غدار قرار دے ڈالتے ہیں۔ اس جہالت کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے لفظ پاکستان کی تاریخ کو بھی ایمانداری سے اپنے تعلیمی نصاب میں شامل نہیں کیا۔ ہم اپنے نصاب میں یہ تو بتاتے ہیں کہ دو قومی نظریے کی ابتداء سر سید احمد خان نے کی تھی، جنہوں نے مسلمانوں اور ہندوئوں کو دو علیحدہ قومیں قرار دیا لیکن جمال الدین افغانی کو اہمیت نہیں دی جنہوں نے وسط ایشیا سے شمال مغربی ہندوستان تک ایک علیحدہ مسلم جمہوریت کی تجویز پیش کی۔ پھر 1890میں عبدالحلیم شرر نے ہندوستان کو ہندو اور مسلم اضلاع میں تقسیم کرنے کی تجویز دی۔ اکبر الٰہ آبادی، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی اور مولانا اشرف علی تھانوی نے 1905اور 1928کے درمیان بار بار علیحدہ مسلم مملکت کی تجویز پیش کی۔ 1928میں کپواڑہ کے علاقے ہندواڑہ سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری صحافی غلام حسن شاہ کاظمی نے ’’ہفت روزہ پاکستان‘‘ کے نام سے ڈیکلریشن کے لئے ایبٹ آباد میں درخواست دی تھی۔ علامہ اقبالؒ نے 1930میں اپنے خطبہ الٰہ آباد میں تفصیل سے پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو علیحدہ ریاست بنانے کی تجویز دی۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں لفظ پاکستان کا خالق چوہدری رحمت علی کو قرار دیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے 1933ءمیں ایک کتابچہ NOW OR NEVER کے نام سے شائع کیا تھا جس میں لفظ پاکستان کی تشریح کی گئی۔ یہ کتابچہ ’’پاکستان موومنٹ‘‘ نامی تنظیم نے شائع کیا جس کے صدر اسلم خٹک اور سیکرٹری چوہدری رحمت علی تھے۔ اس کتابچے کے مطابق لفظ پاکستان میں پ کا تعلق پنجاب، الف کا تعلق افغان، ک کا تعلق کشمیر، س کا تعلق سندھ اور تان کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ ’’پاکستان موومنٹ‘‘ نامی اس تنظیم میں خواجہ رحیم بھی شامل تھے اور انہوں نے اس نام کی منظوری علامہ اقبالؒ سے لی تھی۔ ڈاکٹر جہانگیر تمیمی کی تصنیف ’’اقبالؒ، صاحب حال‘‘ کے مطابق علامہ اقبالؒ نے 22نومبر 1937کو لفظ پاکستان مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے سامنے استعمال کیا اور کہا ’’پاکستان ہی مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل ہے‘‘۔ علامہ اقبالؒ کو تصور پاکستان کا خالق بھی کہا جاتا ہے لیکن افسوس کہ پاکستانیت کے اکثر علمبردار افغانوں کے بارے میں شاعر مشرق کے خیالات سے نابلد ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا افغانستان اور پشتو زبان کے بارے میں بڑا گہرا مطالعہ تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک استاد شیخ عطاءاللہ نے بڑی محنت سے علامہ اقبالؒ کے ساڑھے چار سو سے زائد خطوط تلاش کئے اور ’’اقبال نامہ‘‘ کے نام سے شائع کر دیئے۔ یہ کتاب سب سے پہلے 1944میںشائع ہوئی تھی۔ اب اسے اقبال اکادمی پاکستان نے دوبارہ شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں خالد خلیل کے نام علامہ اقبالؒ کا ایک خط شامل ہے جس میں شاعر مشرق نے پشتو بولنے والے افغان اور پٹھان کو ایک ہی قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ افغان دراصل یہودی النسل ہیں، اِس لئے پشتو میں عبرانی زبان کے کئی الفاظ ہیں۔ اس خط میں خوشحال خان خٹک کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ’’خوشحال خان کی وصیت‘‘ کے نام سے اپنی نظم میں کہا تھا؎
قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اور پھر ایک اور جگہ کہا کہ؎
آسیا یک پیکر آب و گل است
ملتِ افغان در آں پیکر دل است
یعنی ایشیا ایک جسم ہے تو افغان اس جسم میں دل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا ’’افغان باقی، کہسار باقی۔ الحکم للہ، الملک للہ‘‘۔ یہ افغان صرف وہ نہیں جو افغانستان میں رہتے ہیں بلکہ یہ پاکستان میں بھی رہتے ہیں جن کو پختون اور پٹھان کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد نواز خان محمود اپنی کتاب ’’فرنگی راج اور غیرت مند مسلمان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ افغان، پشتون یا پٹھان کی نسل بنی اسرائیل(حضرت یعقوب علیہ السلام) سے ہے، اُنکے جدِ امجد کا نام افاغنہ تھا جو بنی اسرائیل کے بادشاہ طالوت کا پوتا تھا۔ اگر کوئی پاکستانی پشتون اپنے آپ کو افغان کہتا ہے تو کسی کو غصے میں آنے کی ضرورت نہیں یہ اُسکی پہچان ہے۔ جس طرح پنجابی بھارت میں بھی رہتے ہیں، پاکستان میں بھی رہتے ہیں، سندھی بولنے والے بھارت میں بھی ہیں، بلوچی بولنے والے افغانستان اور ایران میں رہتے ہیں، اُسی طرح پشتو بولنے والا پاکستانی اپنے آپ کو افغان کہہ دے تو مسکرا کر اُسے گلے لگایئے اور کہہ دیں میں بھی افغان ہوں کیونکہ آج کے پاکستان میں رہنے والوں کے اکثر بزرگوں کو حضرت داتا گنج بخشؒ، حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت معین الدین چشتیؒ اور لال شہباز قلندرؒ نے مسلمان کیا اور یہ صوفیاء افغان تھے۔
Source: Jung News
Read Urdu column Main bhi afghan hun By Hamid Mir