مکھی اور دودھ – جاوید چوہدری
آپ اگر واہگہ بارڈر سے امرتسر کی طرف جائیں تو پانچ کلو میٹر بعد پُل کنجری نام کا ایک چھوٹاسا گاؤں آتا ہے‘ یہ پاک بھارت سرحد پر واقع ہے اور یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مسلمان بیوی موراں کا گاؤں تھا۔
رنجیت سنگھ کے حرم میں 20 خواتین تھیں‘ ان میں دو مسلمان تھیں‘ موراں دوسری مسلمان عورت تھی‘ ناچنے گانے والی تھی‘ مہاراجہ روز اس کا گانا سن کر سوتا تھا‘ موراں ایک شام تاخیر سے دربار پہنچی‘ مہاراجہ نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا‘ مہاراج میرے گاؤں سے نہر گزرتی ہے۔
میں گھوڑے پر یہ نہر عبور کرتی ہوں‘ آج گھر سے نکلی تو میرا ایک جوتا نہر میں گر گیا‘ مجھے جوتا تلاش کرنے میں دیر ہو گئی‘ مہاراجہ موراں کی محبت کا اسیر تھا‘ اس نے اسی وقت نہر پر پُل بنوانے کا حکم دے دیا‘ مہاراجہ کا حکم تھا‘ مہینے میں پُل تیار ہو گیا‘ پنجابی میں طوائف کو کنجری کہا جاتا ہے لہٰذا اس پُل کی وجہ سے پورے گاؤں کا نام پُل کنجری ہو گیا‘ مجھے چھ سال قبل اس گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا‘ موراں کا پُل آج تک موجود ہے‘ گاؤں میںمہاراجہ کا قلعہ‘ بارہ دری‘ گوردوارہ اور چھوٹی سی پرانی ویران مسجد بھی موجود ہے۔
یہ مسجد موراں نے بنوائی تھی اور یہ اسی کے نام سے منسوب ہے‘ موراں بعد ازاں لاہور شفٹ ہو گئی تھی اور اس کا انتقال بھی لاہور میںہوا تھا‘ لاہور میں بھی اس نے ایک خوب صورت مسجد بنوائی تھی لیکن یہ مسجدیں اور موراں ہمارا موضوع نہیں‘ ہمارا موضوع پُل کنجری گاؤں کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہے‘ گاؤں میں مسلمان اور سکھ دونوں امن سے رہتے تھے‘ موراں کا خاندان بھی موجود تھا‘ ان لوگوں کا کام ناچنا گانا ہوتا تھا‘ 1947 میں فسادات شروع ہوئے تو سکھ اکثریت نے پُل کنجری کے مسلمانوں کو لوٹنا شروع کر دیا‘ طوائفوں کے گھر میں ایک سکھ طبلچی تھا‘ یہ بچپن سے ان کے پاس تھا اور ان کے گھر میں پل کر جوان ہوا تھا‘ فسادات کے دوران طبلچی کے اندر کا سکھ جاگ گیا۔
اس نے طوائف کی گردن پر کرپان رکھی اور اسے حکم دیا ’’باجی اپنی کان کی بالیاں اتار کر میرے حوالے کر دے‘‘ طوائف ڈر گئی اور اس نے کان کی بالیاں اتاریں اور اس کے حوالے کر دیں‘ طبلچی نے وہ اپنی جیب میں رکھیں اور پگڑی کے دامن سے اپنی آنکھیں صاف کرنے لگا‘ طوائف نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’کلدیپ تم رو کیوں رہے ہو‘‘ طبلچی نے ہچکیاں لے کر جواب دیا ’’باجی میں بچپن سے تمہارا نمک کھا رہا ہوں‘ مجھے تمہارے کانوں سے بالیاں اترواتے شرم آ رہی تھی‘ میں اس لیے رو رہا ہوں‘‘ طوائف نے حیران ہو کر پوچھا ’’اگر تمہیں شرم آ رہی ہے تو پھر تم ایسا کر کیوں رہے ہو؟‘‘ طبلچی نے کرپان نیام میں رکھی اور مسکرا کر بولا ’’میری بہن ان بالیوں کا نصیب اب اترنا تھا اگر میں نہ اتارتا تو یہ کوئی اور اتار لیتا چناں چہ میں نے سوچا‘ میں آپ کا اپنا ہوں پھر یہ میں ہی لوٹ لیتا ہوں‘‘۔
یہ واقعہ صرف واقعہ نہیں یہ دنیا کی ایک بڑی حقیقت ہے‘ زندگی کا مقصد اگر حاصل کرنا ہے تو پھر حاصل کرنے والے ہی کامیاب سمجھے جاتے ہیں‘ پھر جس نے بالیاں اتار لیں وہ ہی فائدے میں رہا‘ ہم اگر بھاری دل کے ساتھ اس حقیقت کو مان لیں اور چند لمحوں کے لیے اخلاقیات کو سائیڈ پر رکھ دیں تو ہم آصف علی زرداری اور عمران خان دونوں کو کامیاب سیاست دان ماننے پر مجبور ہو جائیں گے۔
آپ یقین کریں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں کا فین ہوگیا ہوں‘ کیوں؟ کیوں کہ سیاست اگر اقتدار حاصل کرنا اور پھر مدت پوری کرنا ہے تو پھر یہ دونوں کامیاب ہیں اور ہمیں ان دونوں کو کامیابی کا کریڈٹ دینا ہو گا‘ محترمہ بے نظیر بھٹو سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک اور جنرل کیانی سے لے کر پارٹی تک کوئی شخص آصف علی زرداری کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا لیکن یہ اس کے باوجود بھٹو کی پارٹی کے شریک چیئرمین بھی بنے‘ میاں نواز شریف کو اپنا اتحادی بھی بنایا‘ حکومت بھی بنائی۔
جنرل پرویز مشرف کو بھی نکالا‘ ق لیگ اور ایم کیو ایم کو بھی ساتھ بیٹھنے پر مجبور کیا اور یہ بم دھماکوں‘ سیاسی کشمکش‘ جسٹس افتخار محمد چوہدری‘ میموگیٹ اسکینڈل‘ میاں نواز شریف کی احتجاجی تحریک‘ پارٹی کے اندر دھڑے بندی اور مولانا طاہر القادری کے دھرنے کے باوجود بھی پانچ سال پورے کر گئے‘جنرل کیانی اور جنرل پاشا دونوں ان سے خوش نہیں تھے لیکن یہ اس کے باوجود جاتے جاتے سندھ میں بھی حکومت بنا گئے اور صوبے کی تمام تر تباہی کے باوجود12سال سے سندھ میں ان کی حکومت چلی آ رہی ہے اوران بارہ برسوں میں ان پر کیا کیا الزام نہیں لگا۔
ان کے خلاف کس کس نوعیت کا کیس نہیں بنا اور ان کے کون کون سے ساتھی کو گرفتار نہیں کیا گیا مگر یہ اس کے باوجود آج بھی اپنے گھر میں بیٹھے ہیں‘ اس وقت بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں ان کی انگلی پر ناچ رہی ہیں‘ یہ حکومت کو ہاں کر دیں تو جیت اس کی ہو گی اور یہ اگر پی ڈی ایم کے مطالبے پر سندھ اسمبلی توڑ دیں تو یہ اپوزیشن کے ہیرو ہیں‘کیا یہ اچیومنٹ نہیں؟سیاست اگر اقتدار اور اپنے لیے گنجائش پیدا کرنا ہے تو کیا ہم انھیں کامیاب نہیں کہیں گے؟ یہ آخر کیوں اپنے انڈے پاکستان مسلم لیگ ن کی ٹوکری میں رکھیں‘ یہ کیوں قربانی دیں اور مریم نواز وزیراعظم بن جائیں؟ یہ اس صورت حال کا خود فائدہ کیوں نہ اٹھائیں اور یہ اٹھا رہے ہیں۔
آپ اب عمران خان کی مثال بھی لے لیجیے‘ یہ درست ہے عمران خان نے ساری پارٹیوں کے الیکٹ ایبلز اکٹھے کرکے حکومت بنائی‘ یہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بھی اقتدار میں آئے اور 2018 کے الیکشنز میں دھاندلی بھی ہوئی تھی لیکن سوال یہ ہے کیا باقی پارٹیاں الیکٹ ایبلز نہیں لیتی تھیں؟ کیا پاکستان مسلم لیگ ن نے ق لیگ کے 100 ارکان نہیں ہتھیائے تھے اور کیا پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 میں اقتدار کے لیے اپنے دونوں ازلی دشمنوں ن لیگ اور ق لیگ کو اپنا اتحادی نہیں بنایا تھا؟
ان دونوں جماعتوں نے جنرل پرویز مشرف سے حلف تک لے لیا تھا اور یہ دونوں جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی برداشت کرتے رہے تھے چناں چہ اگر بالیاں اتارنا ان کے لیے جائز تھا تو عمران خان کے لیے کیسے ناجائز ہو گیا؟ دوسرا عمران خان ملک کی دونوں طاقتور پارٹیوں کی موجودگی میں اقتدار میں بھی آئے اور یہ جیسے تیسے گھسیٹ کر اڑھائی سال بھی پورے کر گئے‘ یہ درست ہے یہ اڑھائی سال ہر لحاظ سے بدترین تھے‘ آپ معیشت سے لے کر پارلیمنٹ تک کوئی کتاب کھول کر دیکھ لیں اس میں خسارے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
وزیراعظم عمرشیخ کو تاریخ کا شان دار ترین پولیس آفیسر کہتے ہیں اور چار ماہ بعد اس شان دار ترین کو بدترین قرار دے کر فارغ کر دیا جاتا ہے‘ ملک کا سب سے بڑا صوبہ عثمان بزدار کے حوالے کر دیا جاتا ہے اوریہ کورونا کو قوالیوں کے ذریعے بہلانے کا حکم دے دیتے ہیں‘ پوری پنجاب حکومت اس وقت قوالیوں کے بندوبست میں مصروف ہے‘ غلام سرور خان پاکستانی پائلٹوں کو جعلی قرار دے کر پوری سول ایوی ایشن کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔
ندیم بابرمہنگی گیس خرید کر ملک میں انرجی کا جنازہ نکال دیتے ہیں اور شاہ محمود قریشی سعودی عرب کو دھمکی دے کر پاک سعودی تعلقات کو بدترین سطح پر لے آتے ہیں لیکن اس کے باوجود عمران خان آج بھی وزیراعظم ہیں اور اندیشہ ہے یہ پانچ سال بھی پورے کر جائیں گے لہٰذا آپ عمران خان کی سیاسی کامیابی اور پختگی ملاحظہ کیجیے‘تاریخ میں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ اپنے منہ سے کہہ رہی ہے ہم حکومت کے ساتھ ہیں‘ ماضی میں غلطیاں اسٹیبلشمنٹ کرتی تھی اور برا بھلا حکومت کو کہا جاتا تھا لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار غلطیاں حکومت کر رہی ہے لیکن ان کا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر جا گرتا ہے لیکن حکومت اس کے باوجود چل رہی ہے‘ عمران خان پی ڈی ایم کے ساتھ بھی کھل کر کھیل رہے تھے اور اپوزیشن مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے حکومت نے پاکستان پیپلز پارٹی کو تھوڑی سی سیاسی گنجائش دے کر پی ڈی ایم کو کم زور کر دیا اور مولانا اور مریم نواز دونوں اب اکیلے رہ گئے ہیں۔
کیا یہ سیاسی کامیابی نہیں؟ آپ عمران خان کی تازہ ترین کامیابی بھی ملاحظہ کیجیے‘ ن لیگ میں چھ لوگ پرائم منسٹر مٹیریل ہیں‘ میاں نواز شریف نے ان کو آگے بڑھنے کا اشارہ دے دیا تھا اور یہ کسی بھی وقت فیصلہ کن قوتوں کے ساتھ ڈائیلاگ کر کے عمران خان کے لیے خطرہ بن سکتے تھے لیکن حکومت نے ان سب کو اپنی اپنی گردن بچانے میں مصروف کر دیا‘ میاں شہباز شریف جیل میں ہیں‘ نیب نے شاہد خاقان عباسی کے خلاف ریفرنس دائر کر دیے ہیں‘ خواجہ آصف نیب کی حراست میں ہیں۔
احسن اقبال بھی نیب عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں اور اب ایاز صادق اور رانا تنویر بھی ریڈار پر نظر آ رہے ہیں‘ یہ بھی زیادہ دنوں تک کھلی فضا میں نہیں رہ سکیں گے تاہم حکومت کو مریم نواز اور ان کا بیانیہ سوٹ کرتا ہے چناں چہ یہ آزاد بھی ہیں اور ان کی تقریروں پر بھی کوئی پابندی نہیں‘ حکومت اب مولانا فضل الرحمن کو ’’انگیج‘‘ کر رہی ہے اور یہ اگر انھیں روکنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر اسے پانچ سال پورے کرنے سے کون روکے گا چناں چہ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے۔
اگر بالیوں نے اترنا ہی ہے تو پھر کلدیپ کیوں نہ اتارے‘ سیاست اگر اقتدارتک پہنچنے اور پانچ سال حکومت کرنے کا نام ہے تو پھر آصف علی زرداری اور عمران خان یہ موقع کیوں ضایع کریں؟آپ یقین کریں میں ان دونوں کا فین ہو گیا ہوں‘ یہ دونوں سچے‘ کھرے اور کامیاب سیاست دان ہیں‘ یہ مکھی اور دودھ دونوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیںاور یہ جب چاہتے ہیں یہ مکھی دودھ میں ڈال دیتے ہیں اور یہ جب چاہتے ہیں یہ اسے نکال لیتے ہیں‘ واہ واہ‘ کیا بات ہے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Makhi aur Doodh By Javed Chaudhry