ملکہ لیلو کلانی سے عمران خان تک ……(آخری قسط) – اوریا مقبول جان
دُنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں کوئی بھی سیاست دان، دانشور یا عوامی رہنما کتنا بھی امریکہ یا سامراجی معاشی نظام کا ناقد کیوں نہ ہو، جرأتِ اظہار کا پیکر بھی ہو، مگر عالمی طاقتیں اس سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوا کرتیں بلکہ ایسے تمام افراد کو کھل کر بولنے کے لئے بے شمار مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ دُنیا بھر میں ان کی تحریروں کے تراجم کروائے جاتے ہیں، یہاں تک کہ انہیں اعلیٰ عالمی انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ سرد جنگ کے دوران اسی پالیسی کے تحت دُنیا بھر کے ادیبوں، شاعروں اور سیاسی جدوجہد کرنے والوں کو عالمی میڈیا ہمیشہ پذیرائی دیتا رہا ہے۔ اس کے پیچھے ایک بہت بڑا فلسفہ پوشیدہ ہے، یہ ایک ایسا گُر ہے جو عوام کی انفرادی اور اجتماعی نفسیات سے تعلق رکھتا ہے۔ کسی بھی شخص یا گروہ کے اندر اگر کسی قائد، حکومت یا نظام کے خلاف شدید جذبات اُبل رہے ہوں تو ایک شاندار انقلابی نظم، ولولہ انگیز ناول، جاندار فلم اور جلسے میں کسی انقلابی کی دُھواں دار تقریر اس کے جذبات کی فوری تسکین کر دیتی ہے۔ وہ یوں سمجھتا ہے جیسے اس کے اندر کھولتے ہوئے جذباتی لاوے کو راستہ مل گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جذبات میں مشتعل کوئی شخص جب ایک انقلابی نظم سنتا ہے یا شاندار کہانی پڑھتا ہے تو اس کے بعد وہ سکون کی نیند سوتا ہے۔ لیکن ہر وہ لیڈر یا رہنما اپنی اس انقلابی سوچ کی وجہ سے جب بھی کبھی لوگوں میں مقبول ہونے لگتا ہے تو پھر خطرے کی گھنٹی بج اُٹھتی ہے۔ کسی لیڈر میں جب یہ جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے کہ اس کی آواز پر لاکھوں لوگ باہر نکل آتے ہیں، تو پھر ایسے شخص کو مقبولیت کے آغاز میں ہی دبانے کی کوشش کی جاتی ہے،
اس کے اقتدار میں آنے کے راستے مسدود کر دیئے جاتے ہیں اسے خریدنے بھی کوشش ہوتی ہے۔ لیکن اگر وہ ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا اقتدار تک پہنچ جائے تو پھر امریکی سی آئی اے کا وہ منصوبہ حرکت میں آتا ہے جسے حکومتوں کی تبدیلی (Regime Change) کہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک لیڈر، چلّی کے سلویڈور آلندے (Salvador Allende) کی سیاسی جدوجہد چالیس سالوں پر محیط تھی۔ اس نے 1952ئ، 1958ء اور 1964ء میں صدارتی الیکشن لڑا اور آہستہ آہستہ مقبول ہوتا چلا گیا اور آخر کار 1970ء میں وہ صدر کا الیکشن جیت گیا، مگر اسے اس حد تک روکا گیا کہ صدارت کے لئے اسے چھوٹی پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنا پڑی۔ برسر اقتدار آتے ہی اس نے تین کام کئے۔ بڑی صنعتوں کو امریکی سرمایہ داروں سے آزاد کروایا، تعلیم پر زیادہ بجٹ مختص کیا اور عام آدمی کو غربت سے نکالنے کے پروگرام شروع کئے۔ اس کے ان اقدامات نے امریکیوں کو ایک دَم چوکس کر دیا۔ چلّی کی کانگریس میں بیٹھے وہ سیاست دان جو امریکی پے رول پر تھے ان کو اس شخص کے خلاف متحد کیا گیا۔ سی آئی اے کے مخصوص صحافیوں نے اس کے خلاف مضمون لکھنے شروع کئے اور امریکی لابی والی عدلیہ نے اس کے اقدامات کے خلاف فیصلے دینا شروع کر دیئے۔ لیکن اس سب کے باوجود اس کی مقبولیت میں کمی نہ آئی۔ اب ایک ہی راستہ باقی تھا۔ واشنگٹن کے "School of Americas” سے تربیت یافتہ جنرل بنوشے، سی آئی اے کے کہنے پر فوج لے کر صدارتی محل جا پہنچا۔ آلندے نے اس گھیرائو اور فائرنگ کے دوران ریڈیو پر آخری جذباتی تقریر کی۔ تقریر کے دوران جنرل بنوشے کے فوجی اندر گھس آئے، اس دوران ایک فائز کی آواز سنائی دی گئی ۔
بعد میں لوگوں کو یہ بتایا کہ آلندے نے خودکشی کر لی ہے۔ کہانی میں مزید رنگ بھرنے کے لئے اس کی وہ تصویریں بھی عام کی گئیں جو اس کلاشنکوف کے ساتھ تھیں جو اسے کیوبا کے فیڈرل کاسترو نے دی تھی۔ اس کے بعد جنرل بنوشے اقتدار پر قابض ہو گیا اور ان بِکائو سیاست دانوں کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا جو امریکہ کے کہنے پر آلندے کے خلاف کانگریس میں اکٹھے ہوئے تھے۔ اسی طرح گوئٹے مالا میں ایک مقبول رہنما جیکب آربنز (Jacob Arbenz) پیدا ہوا۔ اس نے عوامی مقبولیت کے بَل بوتے پر صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد عام کسانوں کی فلاح کے لئے انقلابی زرعی اصلاحات نافذ کر دیں۔ امریکہ کی بہت بڑی سرمایہ کاری یونائیٹڈ فروٹ کمپنی میں تھی۔ اس کے ملکیتی باغات تقسیم ہونا شروع ہوئے تو پھر امریکہ حرکت میں آیا۔ گوئٹے مالا کے لئے سی آئی اے آپریشن شروع کیا جس کا نام PBS uccess رکھا۔ گوئٹے مالا سے مفرور، ایک سو پچاس افراد جو امریکہ میں پناہ گزین تھے، انہیں اسلحہ اور سرمایہ دے کر وہاں کرائے کے گوریلوں کے طور پر تخریب کاری کے لئے بھیجا گیا اور مسلح بغاوت شروع کروائی گئی۔ اسی طرح فوج میں امریکی وفاداروں اور آربنز کے حامی فوجیوں میں لڑائی شروع کروائی گئی۔ لڑائی ایوانِ صدر کے آس پاس پہنچی تو جیکب نے ریڈیو کے لئے ایک جذباتی تقریر ریکارڈ کروائی جس میں کہا کہ وہ مزید خونریزی سے بچانے کے لئے استعفیٰ دے رہا ہے اور پھر میکسیکو کے سفارت خانے میں سیاسی پناہ لینے چلا گیا۔ اس کی یہ تقریر استعفے کے بعد چلائی گئی۔
وہ ملکوں ملکوں گھومتا رہا۔ اس کی ایک ہی بیٹی تھی جس سے وہ بے پناہ محبت کرتا تھا۔ وہ اسے لے کر کیوبا چلا گیا اور وہاں جا کر انقلابی اجتماعات سے خطاب کرنے لگا۔ اس کا ملک کیوبا کے پڑوس میں تھا، لوگ اسے سننے کے لئے وہاں بھی آنے لگے۔ اس کی تصویریں گوئٹے مالا میں پھر سے دکھائی دینے لگیں۔ وہ واپسی کے لئے گومگو کی حالت میں تھا کہ اس کو خبر ملی کہ اس کی پیاری بیٹی نے خودکشی کر لی ہے۔ اس سانحے نے اس کے اوسان خطا کر دیئے۔ وہ ایسا بستر سے لگا کہ چند ماہ بعد ہی فوت ہو گیا۔ یہ سب کہانیاں یا افسانوی داستانیں نہیں ہیں بلکہ تاریخ کے وہ حقائق ہیں جو امریکی حکام اور سی آئی اے نے ایک وقت گزرنے کے بعد خود شائع کئے ہیں۔ ان میں تمام تفصیلات موجود ہیں۔ ہر ملک کے بارے میں علیحدہ پلان اور طریقِ کار ہے جس کو پڑھنے کے بعد اس بات پر ضرور حیرانی ہوتی ہے کہ جب ان تمام لیڈروں کے خلاف امریکہ اور سی آئی اے آپریشن کر رہا تھا تو ہر ملک کے بِکائو میڈیا کے ذریعے یہ تاثر عام کیا جاتا تھا کہ یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے، اس کا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں اور غلام سیاسی لیڈر بھی اسے ایک مقامی جنگ بنا کر پیش کرتے تھے۔
یہ سلسلہ اگر چند ملکوں تک محدود ہوتا تو آدمی صبر کر لیتا۔ دُنیا میں اہم اور ’’بڑے‘‘ ممالک کی تعداد ایک سو پچیس سے زیادہ نہیں۔ ان میں سے 72 ممالک میں امریکہ نے حکمرانوں کا تختہ اُلٹا اور اپنی مرضی کی حکومت بنائی۔ یہ لیڈر بیچارے آوازیں بلند کرتے رہے، چیختے رہے، جلسے کرتے اور جلوس نکالتے رہے، دستاویزات دکھاتے رہے کہ یہ دیکھو امریکہ میرے خلاف سازش کر رہا ہے اور وہ میری ذات کو نشانہ اس لئے بنا رہا ہے کہ وہ پوری قوم کو محکوم اور غلام بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ ان لیڈروں کے دیوانے ان کی باتیں سنتے تھے، سر بھی دھنستے تھے لیکن امریکی حکومت اور سی آئی اے کی سرمایہ کاری ایسے تین اہم گروہوں میں تھی (1) میڈیا، (2) عدلیہ ، اور (3) فوج۔ جو تینوں مل کر ایک ایسی قوت بن جاتے تھے جنہوں نے ان 72 ممالک میں امریکی منشا اور مرضی کے مطابق حکومتیں بدل کر رکھ دیں۔ عمران خان اس فہرست کا اگلا شکار ہے۔ اس کا جرم یہ ہے کہ وہ مقبول ہے اور اس کی خطا یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر جھکتا نہیں۔ امریکیوں کو اس سے کسی بھی وقت بدل جانے کا ڈر رہتا ہے۔ پاکستان اس وقت اس قسم کے وقفے سے گزر رہا ہے جو ایسے لیڈروں کو حکومتوں سے معزول کرنے کے بعد آتا ہے۔ اس وقفے میں بہت کچھ ہوتا ہے، ہنگامے، فسادات، بدامنی، لیڈر کی موت، موت کے بعد پھر ہنگامے اور پھر میڈیا میں فوج کو نجات دہندہ کے طور پر بلانے کے لئے آوازیں اور آخر کار فوج کی آمد۔ کیا ہم عین اسی پلان کے تحت اگلے مہینوں میں داخل ہوں گے یا پھر سب کچھ کسی بھی وقت اُلٹ سکتا ہے۔ میرے خیال میں سب کچھ اُلٹ بھی سکتا ہے کیونکہ اب اس وقت پاکستان میں صرف امریکی مفادات ہی زد پر نہیں ہیں بلکہ چین اور روس کے مفادات بھی زد پر ہیں۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے؟ (ختم شد)
Source: 92 news
Must Read Urdu column Malika Lailo kalani se Imran khan tak Last Part By Orya Maqbool jan