منحو س رنگ یا………! – علی معین نوازش
ان دنوں بہت سارے تجزیہ نگار یہ کہتے تھکتے نہیں کہ میاں نواز شریف کا یہ بیانیہ بہت مقبول ہوچکاہے اور چکوال میں ایم پی اے کی اور لودھراں میں ایم این اے کی نشست اسی بیانیے کی مرہون منت ہے ۔ورنہ جب سابق وزیراعظم نے پہلی مرتبہ یہ کہا تھا کہ مجھے کیوں نکالا تو اس فقرے کو ایک مزاحیہ ترین ٹوٹے کے طورپر لوگوںنے خوب اچھالا۔ٹانکے اور مصنوعی جوڑ لگاکر ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے خوب لطیفے بنائے اور جن تجزیہ نگاروں کا یہ خیال تھا کہ عدالت سے یہ فیصلہ کہ نواز شریف کو معزول کردیاجائے،کے آنے کے فوری بعد میاںنواز شریف پاکستان سے فرار ہوجائیںگے ،مسلم لیگ ن ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوجائے گی۔قیادت کے لیے ہاتھا پائی شروع ہوجائے گی۔ لیکن معزولی کے فوری بعد مسلم لیگ ن کی پہلی اور دوسری رو کی قیادت کا جو اجلاس ہوا اوراس میں یہ فیصلہ ہوا کہ میاں نواز شریف کو جی ٹی روڈ سے لاہورجانا چاہیے۔ حالانکہ اس میں یہ تجاویز بھی تھیں کہ موٹر وے سے جاکر لاہور میں پرتپاک استقبال کیاجائے۔دہشت گردی کا خطرہ ہے یاکسی خصوصی پرواز سے لاہور جاناچاہیے۔ اور کسی کا یہ مشورہ تھا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو یہ فیصلہ کرے کہ میاں نواز شریف عدالتی فیصلے کے بعد جی ٹی روڈ کے ذریعے سفرکریں۔یاکوئی اور ذریعہ اپنائیں لیکن ایک دانش مند حاضر نے یہ کہہ کر کمیٹی کی نفی کردی کہ زخم ابھی لگا ہے درد بھی ابھی ہورہا ہے۔ تو علاج کے لیے کمیٹی بنا کر علاج کا انتظار کرنا کوئی دانشمندی نہیں۔آگے کیا ہوتاہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔لیکن یہ فیصلہ کہ جی ٹی روڈ سے جاناچاہیے اور فیصلے کے خلاف کھل کر لڑائی کرنا اور مزاحمتی کردارادا کرناہے۔سیاسی بقا کے لیے اچھے فیصلے ثابت ہوئے اوراس فیصلے کو لے کر میاں نواز شریف اور مریم نواز نے اچھا کھیلا ہے۔اچھی فیلڈنگ سیٹ کی ہے اور نپی تلی بائولنگ کرائی ہے جس کے نتیجے میں تین بڑی کامیابیاں وننگ ٹرافی کی شکل میں حاصل کیں۔لاہور میں کلثوم نواز کی جیت چکوال کی کامیابی اور لودھراں کی تہس نہس کردینے والی وکٹری شامل ہیں۔ میاںنواز شریف کے بیانیے کہ’’مجھے کیوںنکالا‘‘کی پذیرائی سے ان کامیابیوں
کے علاوہ جو سب سے بڑا فائدہ ہوا ہے۔وہ مسلم لیگ ن کے وہ عناصر جو دل ہی دل میںمائنس ون فارمولے کے حامی تھے اور نئی قیادت کی طرف دیکھ رہے تھے اس یقین میں بندھ گئے ہیں کہ مسلم لیگ ن میں ووٹ اب بھی نواز شریف کا ہے۔اب مسلم لیگ ن میں دو خیالات جنم لے رہے ہیں اور پارٹی کے بہی خواہ ان خیالات کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ پہلا خیال یہ ہے کہ میاں صاحب کے بیانیے کی کامیابی کا لوہاگرم ہے اس لیے جتنی جلدی الیکشن کرالیاجائے پارٹی کو فائدہ ہوگا۔اوردوسرا خیال یہ ہے کہ عدالت کی طرف سے جتنا سخت فیصلہ آئے گا۔پارٹی کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔یہ تصویر کا ایک رخ ہے لیکن بابا اسکرپٹ اس بیانیے اور فارمولے سے بالکل متفق نہیں ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ شریف فیملی اور مسلم لیگ ن کے لیے ابھی بہت سارے مسائل منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ویسے بھی پاکستانی سیاست اس کرکٹ میچ کی طرح ہے جس میں جب تک آخری گیند نہ پھینکی جاچکے ،حتمی طورپر کچھ بھی نہیں کہاجاتا۔ میاںمحمد نواز شریف خود تو آئوٹ ہوکر پویلین میں آبیٹھے ہیں لیکن ابھی ترکش میں ایسی بہت سی گیندیں باقی ہیں جووکٹیں گرانے اور کلیاں گرانے کی اہلیت رکھتی ہیں۔اور کچھ فیصلے بھی ہیں جن کے بہت اثرات ہونگے مثلاً عبوری وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا انتخاب بھی بڑی اہمیت کاحامل ہوگا۔یقیناً یہ لیڈرآف ہائوس اور اپوزیشن لیڈر نے اتفاق رائے سے منتخب کرنے ہیں لیکن نیب کے چیئرمین کے لیے بھی یہی طریقہ کار تھا۔لیکن چیئرمین نیب نے اس بات کو بالائے طاق رکھ دیا ہے کہ انہیں چیئرمین بنانے میں کس کا ہاتھ تھا۔بلکہ وہ تو وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ وہی کر یں گے جو ان کے منصب کا تقاضہ ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ آخری اوورز پی ٹی آئی کی قیادت کس طرح کھیلتی ہے کیونکہ اس سیاسی میچ میں کسی کے پاس بھی غلطی کی گنجائش نہیں ۔مسلم لیگ ن نے تو بہت کچھ کھودیا ہے۔اس لیے وہ ڈو آر ڈائی کے فارمولے کے مطابق کھیل رہے ہیںلیکن پی ٹی آئی کو اب جارحانہ کھیل کھیلنا ہے جس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہے اورہاں پیپلزپارٹی ایک گیند بھی ہلکی(فکس)کرادی تو سارا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوگا۔ لیکن کھیل کے حتمی فیصلے کو جانچنے کے لیے سینیٹ کا الیکشن بھی ایک بہت بڑا لٹمس ٹیسٹ ہوگا کہ اونٹ کی اگلی کروٹ کیا ہوگی۔یہ سب کچھ بابا اسکرپٹ کے خیالات اور اس کے کاپی رائٹس بھی انہیں کے پاس ہیں میں نے تو صرف قلم استعمال کیا ہے۔
Must Read Urdu column Manhoos rang ya By Ali moeen nawazish
Source: Jang