مقدور ہو تو خاک سے – ڈاکٹر عبد القدیر

dr-abdul-qadeer-khan

یہ سال پاکستان کے لئے نہایت غم کا سال ہے۔ کئی قدآور، تاریخی شخصیات ہم سے جدا ہو گئیں اور خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اللہ پاک اُن سب کی مغفرت کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے ،ان کے عزیز و اقارب کو صبرِ جمیل، ہمت اور برداشت عطا فرمائے۔ آمین!

مرزا اسد اللہ خان غالبؔ اردو زبان کے سب سے اعلیٰ شاعر تھے، اُن کا فارسی کا کلام بھی لاجواب ہے مگر ہمارے یہاں فارسی دانوں کا فقدان ہے، اردو پوری قوم جانتی ہے اور اردو کی غزلیں بےحد مقبول ہیں۔ بعض فلموں میں بھی ان کی غزلیں گائی گئی ہیں۔ حالات کی مناسبت سے یہ شعر آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کے اے لعیم

تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے

(اگر میں خوش قسمت یا اہلِ اقتدار ہوتا تو میں زمین سے پوچھتا کہ اے خسیس (کنجوس) تو نے وہ بیش بہا، قیمتی خزانوں کا کیا کیا؟)۔ مطلب یہ تھا کہ اتنے عالیشان لوگ اُس میں دفن ہو گئے اور ان کا کوئی سراغ و نشان نہیں ہے۔ اِسی سے ملتا جلتا ایک شعر ہے:

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

(تمام نہیں بلکہ چند گلاب و ٹیولپ بن کر اُبھر آئے، زمین میں رہ کر ان کی کیا حیثیت رہ جاتی )

آئیے چند فرشتہ خصلت، اللہ کے ہردلعزیز شخصیات کا آپ سے تعارف کراتا ہوں۔

(1)سب سے پہلے مجاہد ختم نبوت، عاشق رسول، اللہ تعالیٰ کے سپاہی ، اعلیٰ حافظ سید خادم حسین رضوی کی وفات کا ذکر کرتا ہوں اور آنکھیں آنسوئوں سے نم ہیں۔ ایسے مجاہد اسلام عاشق رسول بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ آپ انسان کے بھیس میں فرشتہ تھے۔ ان کی نماز جنازہ میں جس جم غفیر نے شرکت کی اس کی مثال ملک میں نہیں ملتی۔ جب ایک دوست نے اس کا ذکر کیا تو میں نے دل میں کہااللہ پاک گنہگار ہوں مگر تیرا بندہ ہوں میں نے 20کروڑ مسلمانوں کو حفاظت میسر کی ہے مجھے ایسی موت، نماز جنازہ عطا کرنا، آمین۔ میں خادم حسین رضوی صاحب کو ذاتی طور پر جانتا تھا ۔ یو ٹیوب پرمیرے لئے ان کے بیانات اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ کراچی میں میری بہن کے گھر کے قریب محمد علی ہائوسنگ سوسائٹی کے بالکل قریب ایک فرشتہ خصلت اور مخیر دوست حاجی رفیق پردیسی رہتے ہیں۔ خادم حسین صاحب وہاں تشریف لائے انھوں نے دیکھا کہ گارڈ وغیرہ موجود ہیں پہرہ دے رہے ہیں ۔پوچھنے پر حاجی رفیق نے اُن کو بتایا کہ میں آیا ہوا ہوں اور بہن کے پاس ٹھہرا ہوا ہوں ۔ اُنہوں نے ملنے کی خواہش کی اور حاجی صاحب ان کو لے کر آئے وہ وھیل چیئر میں تھے چہرہ پر رعب اور عشقِ رسولؐ نمایاں تھا۔ اُنہوں نے پہلے میرے گھٹنے کو ہاتھ لگائے پھر مصافحہ کیا اور دونوں ہاتھ پکڑ کر چومے ، آنکھوں سے لگائے اور کہا کہ یہ صرف محسن پاکستان نہیں ہیں بلکہ محسنِ اُمت بھی ہیں اور قائد اعظم کے بعد کوئی قیامت تک آپ کا مقابلہ نہ کر سکے گا۔ بہت دیر ٹھہرے، میری چھوٹی مرحومہ بہن نے بھوپالی روایت کے مطابق خاطر مدارت کی۔ میں یہ ملاقات زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔

(2)دوسری اعلیٰ، بہادر، محب وطن، خوش مزاج شخصیت ہمارے سابقہ وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی تھے۔ نہایت شریف، خاموش طبع اور صابر شخص تھے۔ جب میں 1976کے شروع میں آیا اور ایٹم بم بنانے کا کام شروع کیا ان سے غائبانہ تعارف ہوا۔ یہ بہترین ہاکی پلیئر تھے اور چونکہ میرا تعلق بھوپال سے ہے جو ہاکی کا گڑھ تھا مجھے ہاکی کے کھلاڑیوں اور ٹورنامنٹس کے بارے میں خاصی معلومات تھیں۔ میرے ایک نہایت عزیز دوست غلام حسین راجہ جو ملٹری اکائونٹس سے ریٹائرہوئے تھے اور گارڈن کالج کے بہت اچھے ہاکی کے کھلاڑی تھے وہ جمالی صاحب کے بھی اچھے دوست تھے ۔ وہ ماہر نجوم تھے اور گلزار اورلالہ فاروق کے قریبی عزیز تھے۔ ماہر نجوم ہونےکی وجہ سے وہ پروفیسر راجہ کہلانے لگے تھے۔ وہ اور مقصود شیخ (ایک نہایت نیک، مذہبی شخص، سیکریٹری بلدیات وفاق) روز شام کو میرے پاس پکوڑے کھانے اور چائے پینے آتے تھے، کپ میں چائے سے زیادہ چینی ہوتی تھی۔ ایک روز رات کومیں نے راجہ صاحب کو فون کیا اور کہا میں ابھی پانچ منٹ بعد کرتا ہوں۔ جب فون آیا تو کہنے لگے جمالی صاحب آئے تھے اپنے مستقبل کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو میں نے کہہ دیا کہ آپ ایک ہفتہ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان بن جائیں گے۔ اُنہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر تمہاری پیشں گوئی صحیح نکلی تو تم کو عمرہ پر روانہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کام کرادیا اور میں، میرے چند ساتھی، اور راجہ صاحب بھی عمرے پر چلے گئے اس طرح ان کی کئی باتیں بالکل صحیح ثابت ہوئی تھیں۔ کے۔ آر۔ ایل سے ریٹائرمنٹ کے بعدمیں ان کا ایڈوائزر بن گیا اور وہ تین سال بہت ہی اچھے گزرے۔

(3)ایک اور نہایت عزیز، قابل صحافی، جگر کے ٹکڑے جناب عبدالقادر بھی ہم سے رخصت ہوگئے۔ میرے پیارے دوست تھے اور ہم اکثر ملتے رہتے تھے۔ میں ان کے بیٹے کی شادی میں شرکت کرنے ان کے گائوں گیا۔ بہت پیارا موسم تھا، دوپہر کو ولیمہ تھا ، پہاڑوں کو دیکھ کر میں نے کہا کہ یہاں سےکسی کے خلاف میزائل داغنے کا بہت اچھا اڈہ بن سکتا ہے۔

(4)جنرل رحمت اللہ خان بہت پیارے مخلص دوست ہیں، اعلیٰ کردار اور اخلاق کے مالک ہیں نواز شریف کے چیف سیکورٹی افسر تھے اور غالباً مشرف کے ہم درجہ تھے۔ جب مشرف نے جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تو مشرف کے حواریوں نے ان کو بہت پریشان کیا تھا۔ ان کی خوشدامن صاحبہ کا پچھلے دنوں انتقال ہوگیا۔ اللہ پاک ان سب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

source

Read Urdu column Maqdoor ho tu Khak se by Dr Abdul Qadeer khan

Leave A Reply

Your email address will not be published.