مقصد – جاوید چوہدری
یہ تجربہ امریکا کے ایک اولڈ پیپلزہوم میں ہوا اور اس نے پوری دنیا کی نفسیاتی شکل تبدیل کر دی ‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس تجربے اور اس کے نتائج سے واقف نہیں ہیں چناںچہ ہماری زندگی میں امن‘ کام یابی اور خوشی نہیں‘ ہم اگر آج بے مقصدیت کے اس المیے کو سمجھ جائیں تو ہماری لائف کی شکل تبدیل ہو جائے۔
امریکا کے ایک اولڈ پیپلزہوم میں خوف ناک بیماریوں کے شکار بوڑھے رہتے تھے‘ یہ چند مہینوں کے مہمان بوڑھے تھے‘ اس اولڈ پیپلزہوم میں آنے والے تمام مہمان جانتے تھے یہ اب زیادہ عرصے تک دنیا کی رونقیں نہیں دیکھ سکیں گے‘ اولڈ ہوم کا اسٹاف بھی ان مہمانوں کی منزل سے واقف تھا‘ یہ بھی ان مریضوں کی دل و جان سے کیئر کرتا تھا لیکن پھر یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے ان مہمانوں پر ایک نفسیاتی تجربہ کیا‘ یہ پودوں کے چند گملے لے کر ہوم میں پہنچا‘ اس نے بوڑھے مریضوں کے دو گروپ بنائے اوریہ پودے دونوں گروپوں میں تقسیم کر دیے۔
پروفیسر نے ایک گروپ کو بتایا یہ پودے آپ کی ذمے داری ہیں‘ ان کو پانی دینا‘ دھوپ میں رکھنا‘ ان کو کھاد دینا‘ ان کی گوڈی کرنا‘ ان کو سردی اور گرمی سے بچانا اور ان کو کیڑوں‘ مکھیوں اور پرندوں سے محفوظ رکھنا آپ لوگوں کی ڈیوٹی ہے جب کہ دوسرے گروپ سے کہاگیا ہم نے یہ پودے محض آپ کے کمرے میں رکھ دیے ہیں‘ آپ چاہیں تو ان کی ذمے داری اٹھا لیں‘ نہ چاہیں تونہ اٹھائیں۔ پروفیسر نے پودے حوالے کیے اور دونوں گروپوںکی سرگرمیوں کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔
گروپ ون کے بوڑھوں نے پودوں کی ’’ٹیک کیئر‘‘ شروع کر دی‘ ان میں سے کچھ بابوں اور مائیوں نے گملوں کو پانی دینا شروع کر دیا‘ کچھ ان کی گوڈی کرتے تھے ‘ کچھ ان میں کھاد ڈالتے تھے‘کچھ انھیں موسموں سے بچاتے تھے اور کچھ انھیں مکھیوں‘ مچھروں اور پرندوں سے محفوظ رکھتے تھے ۔ پروفیسر نے مریض بوڑھوں کی جسمانی صورت حال کو بھی تبدیل ہوتے دیکھا‘ اس نے دیکھا پودے ملنے سے قبل یہ لوگ سارا دن بستر پر گزارتے تھے‘ یہ چڑچڑے اور بدمزاج بھی تھے اور یہ معمولی معمولی باتوں پر غصے سے بھی بھڑک اٹھتے تھے لیکن پودے ملنے کے بعد ان کا مزاج تبدیل ہونے لگا‘ ان کا مزاج خوش گوار ہو گیا‘۔
یہ ایک دوسرے کے ساتھ اور طبی عملے کے ساتھ شائستگی سے گفتگو کرنے لگے‘ انھیں پہلے کے مقابلے میں بھوک بھی زیادہ لگنے لگی‘ یہ بستر سے اتر کر چہل قدمی بھی کرنے لگے اور ان کا دوائوں پربھی انحصار کم ہونے لگا‘ ان کے دردوں میں بھی کمی آ گئی اور یہ جسمانی لحاظ سے بھی فٹ ہو گئے جب کہ ان کے مقابلے میں دوسرے گروپ کے لائف اسٹائل میں کوئی فرق نہیں آیا‘ یہ لوگ اسی طرح سارا سارا دن بستر پر پڑے رہتے تھے اور طبی عملے اور ساتھی مریضوں کے ساتھ جھگڑتے بھی تھے ‘ یہ سلسلہ ایک سال تک چلتا رہا۔
پروفیسر نے سال کے بعدجب دونوں گروپوں کی شیٹ بنائی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا گروپ ون کے لوگ گروپ ٹو کے مریضوں سے جسمانی اور طبی لحاظ سے بھی اچھے تھے اور ان کے مرنے کی شرح بھی کم تھی۔ پروفیسر نے دیکھا گروپ ٹو کے 30 فیصد مریض گروپ ون کے مریضوں اور بوڑھوں کے مقابلے میں جلد فوت ہو گئے۔
یہ ایک حیران کن اسٹڈی تھی جس کے آخر میں پروفیسر نے نتیجہ نکالا گروپ ون کے بوڑھوں کو زندگی کا مقصد مل گیا تھا جب کہ گروپ ٹو کے مریضوں کے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھا چناںچہ ان کی طبی اور نفسیاتی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ پروفیسر کا کہنا تھا زندگی جب کسی دوسری زندگی کا بوجھ اٹھا لیتی ہے تو اس کی قوت‘ برداشت اور ہمت میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ پہلی زندگی خوش گوار بھی ہو جاتی ہے اور مضبوط بھی۔
آپ اگر اپنی زندگی کو اس اسٹڈی میں رکھ کر دیکھیں توآپ کو اپنی تمام کوتاہیوں‘ خرابیوں‘ کمیوں اور ڈپریشن کا جواب مل جائے گا۔ ہماری زندگی میں جب کوئی مقصد‘ کوئی گول آ جاتا ہے تو ہماری قوت مدافعت میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ ہمارے جسم میں طاقت بھی آ جاتی ہے اور ہمارا مزاج بھی خوش گوار ہو جاتا ہے اور ہم اگر بے مقصدیت کا شکار ہو جائیں‘ ہم یہ محسوس کرنے لگیں ہم نے جو کچھ کرنا تھا ہم نے کر لیا تو اس کے بعد ہم خود کو زمین کا بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور یہ سوچ ہمیں بستر مرگ تک پہنچا دیتی ہے۔
مقصد یا گول کی کمی ہمارے جسم‘ ہمارے دل اور ہمارے دماغ میں خلاء پیدا کر دیتی ہے‘ یہ خلاء ہمیں آہستہ آہستہ اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے اور یہ کھوکھلا پن بعدازاں مختلف بیماریوں اور مختلف عارضوں کا گھر بن جاتا ہے۔ آپ نے اکثر سرکاری ملازموں‘ فوجی جرنیلوں اور پولیس کے اعلیٰ عہدے داروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد تیزی سے بوڑھا ہوتے دیکھا ہوگا‘ یہ لوگ سروس کے آخری دن تک ہشاش بشاش اور اسمارٹ ہوتے ہیں‘ یہ قہقہے بھی لگاتے ہیں اور روز جاگنگ بھی کرتے ہیں لیکن آپ انھیں ریٹائرمنٹ کے ایک سال بعد دیکھیں توآپ کے لیے انھیں پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے‘ ان کی کمر جھکی ہوتی ہے‘ ان کی نظر خراب ہو چکی ہوتی ہے۔
یہ دل کے دو دو آپریشن کرا چکے ہوتے ہیں‘ یہ صبح‘ دوپہر اور شام پانچ پانچ گولیاں کھا تے ہیں اور یہ آیات کا حوالہ دے دے کر نوجوانوں کو ڈرا رہے ہوتے ہیں‘ قرآن مجید پڑھنا‘ نمازیں ادا کرنا‘ عمرے کرنا‘ داڑھی رکھنا اور شلوار قمیض پہننا انتہائی شان دار سرگرمی ہے لیکن اس شان دار سرگرمی کے لیے ریٹائرمنٹ کا انتظار کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ آپ کو یہ تمام کام پندرہ سولہ سال کی عمر میں شروع کر دینے چاہییں لیکن ہمارے نوے فیصد بیوروکریٹس‘ فوجی افسر اور سول محکموں کے اعلیٰ عہدے داروں کو اس کا احساس ریٹائرمنٹ کے بعد ہوتا ہے‘ کیوں؟ اس کی وجہ فراریت ہے۔
یہ لوگ ریٹائرمنٹ تک ایکٹو ہوتے ہیں لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں اپنا آپ فضول اور بے مقصد محسوس ہونے لگتا ہے چناںچہ یہ موت سے بچنے کے لیے اسپتالوں اور مسجدوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں‘ یہ ڈاکٹروں اور مولویوں کے قابو میں آ جاتے ہیں‘ عمر کے اس حصے میں اگر انھیں جید عالم دین مل جائیں تو ان کی آخرت سنور جاتی ہے اور اگر یہ اس عمر میں کسی نیم پختہ عالم کے قابو آ جائیں تو انھیں وظائف اور عبادات میں بھی سکون نہیں ملتا۔
یہ زندگی میں مزید تنگ ہوجاتے ہیں لیکن آپ کو اس نوعیت کا ڈپریشن بل گیٹس اور مولانا بشیر احمد فاروقی جیسے لوگوں میں نہیں ملے گا‘ یہ لوگ بھی بوڑھے ہوتے ہیں لیکن یہ جوں جوں بوڑھے ہوتے ہیں‘ یہ پہلے سے زیادہ جوان‘ صحت مند اور ایکٹو ہو جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیوںکہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کا مقصد جوان ہو جاتا ہے اور یہ مقصد ان لوگوں کو اس قدر توانائی دیتا ہے جوان پر بڑھاپے کو نرم کردیتا ہے‘ یہ مزید سے مزید ایکٹو ہوتے جاتے ہیں ۔
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ بے مقصدیت ہے‘ ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو ہماری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا‘ ہم بڑے ہو جاتے ہیں‘ ہم جوان ہو جاتے ہیں اور ہم بوڑھے ہو جاتے ہیں لیکن ہماری زندگی میں کوئی مقصد‘ کوئی گول نہیں آتا‘ ہم بچپن اور جوانی تعلیم میں صرف کر دیتے ہیں‘ یہ تعلیم ہمیں ڈگری دے دیتی ہے اور ہم اس ڈگری کی بنیاد پر نوکری بھی حاصل کر لیتے ہیں لیکن یہ نوکری‘ یہ ڈگری اور یہ تعلیم بھی ہماری زندگی کو با مقصد نہیں بناتی‘ یہ ہمارے جسم‘ ہمارے ذہن اور ہماری روح میں جذبے نہیں جگاتی چناںچہ ہم اس بے مقصدیت کی وجہ سے زندگی میں بور ہوتے رہتے ہیں‘ ہم پریشان اور چڑچڑے ہوتے جاتے ہیں۔
آپ نے اس ملک کے اکثر لوگوں کے چہرے پر ایک خاص قسم کی بے زاری دیکھی ہو گی‘ یہ بے زاری دراصل مقصد کی کمی ہے‘ ہم سب لوگ اندر سے خالی ہیں اور اس خلاء نے ہمیں ڈپریشن کا مریض بنا رکھا ہے‘ ہم ایک دوسرے سے الجھ بھی رہے ہیں ‘ گولیوں اور ڈاکٹروں کے سہارے پر بھی چلے گئے ہیں‘ پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ ادویات استعمال ہوتی ہیں‘ ہم میں سے ہر دوسرا شخص کوئی نہ کوئی گولی‘ کوئی نہ کوئی پڑیا اور کوئی نہ کوئی شربت پی رہا ہے اور ہم میں سے زیادہ تر لوگ عمر سے پہلے بوڑھے ہو رہے ہیں اور اس کی واحد وجہ مقصد کی کمی ہے۔
ہم نے آج تک اپنی ذاتی اور اپنی قومی زندگی کا کوئی مقصد طے نہیں کیا‘ مجھے یقین ہے ہم اگرآج اپنی زندگی کا کوئی مقصد طے کر لیں‘ یہ مقصد خواہ پھول اگانا اور اپنے ماحول کو صاف کرنا ہی کیوں نہ ہو یا روتے ہوئے بچوں کو ہنسانا ہی کیوں نہ ہوتو کل ہماری زندگی کی شکل تبدیل ہو جائے گی اورہم ڈاکٹروں سے بھی بچ جائیں گے‘ بڑھاپے سے بھی اور چڑچڑے پن سے بھی۔ ہماری زندگی عذاب نہیں رہے گی‘ زندگی ہو جائے گی۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Maqsad By Javed Chaudhry