معذرت چاہتا ہوں! – ارشاد بھٹی
معذرت چاہتا ہوں، کوئی واقعہ، حادثہ، سانحہ ہوا، کوئی آزمائش، مصیبت پریشانی آئی، حکومتیں سست، کنفیوز، نااہل، نالائق نکلیں، ہوم ورک صفر، تیاری صفر، منصوبہ بندی صفر، سیکھنے کا عمل صفر، فالو اَپ صفر، یہی وجہ سالہا سال سے سیلاب آئے، تباہی مچا کر نکل گئے۔
2005کا زلزلہ، کھنڈرات ابھی تک موجود، پولیو پھر سے ہرا بھرا، ڈینگی مر کر پھر سے زندہ، کہیں سالوں سے بارش نہ ہونے پر دنیا پیاسی، کہیں سالوں سے بارش بندے مار رہی، 72سال ہونے کو آئے، آج بھی کسی عمارت کی پانچویں منزل پر آگ لگ جائے، بجھانا مشکل، کوئی عمارت گر جائے، زندوں کو بچانا مشکل۔
معذرت چاہتا ہوں، کوئی واقعہ، حادثہ، سانحہ ہوا، کوئی آزمائش، مصیبت پریشانی آئی، قوم کی اکثریت ذخیرہ اندوز نکلی، ملاوٹ خور نکلی، جھوٹ فروش نکلی، بھیڑوں کا ریوڑ نکلی، مُردے بیچے گئے، لاشوں کے سودے ہوئے، جس کا جہاں داو ٔلگا، رج کر لوٹا۔
معذرت چاہتا ہوں، کوئی واقعہ، حادثہ، سانحہ ہوا، کوئی آزمائش، مصیبت پریشانی آئی، وسائل صفر، ادارے کورونا زدہ، سیاست کورونا زدہ، معیشت کورونا زدہ، صحافت کورونا زدہ، انصاف کورونا زدہ، اہل علم، دانشور کورونا زدہ، مذہبی پیشوا، بس چپ ہی ہو جا۔
معذرت چاہتا ہوں، کوئی واقعہ، حادثہ، سانحہ ہوا، کوئی آزمائش، مصیبت پریشانی آئی، ایک اتفاق، اتحاد نہیں، اوپر سے بدنیتی، ابھی دیکھ لیں، کورونا وائرس 7براعظموں، 199ملکوں کو تِہ و بالا کرکے ہمارے دروازوں پر، ہم اسی میں الجھے ہوئے، نماز باجماعت مسجد میں پڑھی جانی چاہئے یا نہیں۔
اندازہ کریں، ایک وبا، ایک اَن دیکھا دشمن، پوری انسانیت خطرے میں، کورونا وائرس کا علاج احتیاط، صرف احتیاط، ہم کن بحثوں میں الجھے ہوئے۔
ذرا سوچیے، کیا امریکہ، برطانیہ، یورپ نے پوپ سے پوچھ کر چرچ بند کیے، ویٹیکن سٹی سے رائے لے کر چرچوں میں عبادت سے منع کیا، مودی نے بھارت کا لاک ڈاؤن کرتے، مندروں کو تالا لگاتے ہوئے اپنے کسی چیف پجاری، پنڈت، یوگی سے پوچھا، کسی ہندو نظریاتی کونسل سے رائے لی۔
عالم عرب کو چھوڑیں، کیا سعودی عرب نے مسجد نبوی، خانہ کعبہ خالی کرانے سے پہلے امام کعبہ سے پوچھا، ترکی نے مسجدوں میں باجماعت نماز پر پابندی لگانے سے پہلے جامعہ الازہر کے فتوے کا انتظار کیا۔
کیا انڈونیشیا، ملائیشیا نے جمعہ کی نماز پر پابندی لگانے سے پہلے اپنے علماء کو بلا کر رائے لی، سب کو معلوم عوام کی جان، مال کی حفاظت کا ذمہ حکومت کا۔
لہٰذا سب حکومتوں نے یہ ذمہ داری محسوس کی، نبھائی۔معذرت چاہتا ہوں، ہمارا دین وہ جو انسانو ں کے نہیں بلکہ جانوروں کے حقوق بھی بتائے، ہمارا دین وہ جو سرسبز درخت کاٹنے سے منع کرے، جو زندوں کو چھوڑیں مُردوں پر بھی سلامتی بھیجے، جو کہے، ایک انسان کی جان بچانے کا مطلب پوری انسانیت کی جان بچانا۔
اس دین کے پیروکار کیا بحثیں کر رہے، پوری دنیا لاعلاج مرض میں مبتلا، علاج ایک ہی، احتیاط، ایک دوسرے سے فاصلہ، ایک دوسرے سے دور رہنا، رش والی جگہوں پر نہ جانا اور ہم ہیں کہ قوم کو باجماعت بیمار کرنا چاہ رہے۔
معذرت چاہتا ہوں، ہمارا دین وہ، آپ سفر میں ہیں، مریض ہیں، پانی میسر نہیں، تیمم کر لیں، اگر کوئی خطرے والی بات ہو، نمازوں کو جمع کر لیں، نمازوں کو قصر کر لیں، کھڑے ہوکر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو، نماز بیٹھ کر پڑھ لیں، سواری پر بیٹھے نماز پڑھ کر لیں۔
رسول اللہﷺ کے دور میں جب شدید بارش ہوئی، نماز گھروں میں پڑھنے کو کہا گیا، یہاں تو معاملہ ایسا سنگین، نہ صرف انسانی جان کو خطرہ بلکہ ایک سے دوسرے کی جان کو خطرہ، کیا سب بھول گئے، کوئی انسان اگر جان بوجھ کر اپنی جان کو خطرے میں ڈالے تو یہ خود کشی اور اگر کوئی انسان جان بوجھ کر کسی دوسرے کی جان کو خطرے میں ڈالے تو یہ اقدامِ قتل، پھر یہ ارشادِ باری تعالیٰ ’’اللہ تعالیٰ عبادات کے معاملے میں کسی کو مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا، وہ آسانی چاہتا ہے‘‘۔
معذرت چاہتا ہوں، بلاشبہ ہمارے ڈاکٹرز، نرسیں، طبی عملہ ہمارے جانباز، بہادر، مسیحا، محسن، اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے کورونا سے لڑ رہے، ہمیں کورونا سے بچا رہے، بلاشبہ یہ ہمارے شکریے کے مستحق، مگر ان کا شکریہ تبھی ادا کیا جا سکتا ہے جب ہم ان کی بات مانیں۔
جو یہ کہیں اس پر عمل کریں، مطلب ایسی احتیاط کہ اسپتال، ایمرجنسی، وینٹی لیٹر کی نوبت آئے نہ ان ڈاکٹروں، نرسوں، طبی عملے پر بوجھ پڑے، لہٰذا اگر آپ اپنے طبی مجاہدوں کا حقیقی شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو احتیاط کریں، خود کو بچائیں، دوسروں کو، انہیں بھی۔
معذرت چاہتا ہوں، ان نازک لمحوں میں کہاں گیا ہمارا مالدار طبقہ کہاں گیا، ہمارے ارب پتی کہاں گئے، ہمارے پیسے والے، ان سب سے کہنا، کورونا وائرس وہ وبا، جس سے شہزادہ چارلس محفوظ نہ رہ سکا، برطانوی وزیراعظم بھی بیمار، اٹلی کے کئی میئرز مر گئے، دنیا بھر کے امیر گھروں میں قید، مطلب یہ وائرس امیر، غریب کیلئے ایک جیسا، کسی کو لگ سکے، کسی کی جان لے سکے، لہٰذا میرے مالدار لوگو! آگے بڑھو اور ان مشکل لمحوں میں اپنے غریبوں کی مدد کرو، عین ممکن بعد میں یہ پیسہ تمہارے بھی کسی کام کا نہ رہے۔
معذرت چاہتا ہوں، عوام سے درخواست، نظم، تنظیم، اتحاد، گھبرانا نہیں، ڈرنا نہیں، کورونا سے پہلے اس دنیا میں سانس کی نالیوں کے 196وائرس موجود، یہ ہر روز 50ہزار لوگوں کی جان لے لیں۔
ہرسال 7کروڑ لوگ سانس کی بیماریوں کی وجہ سے مر جائیں، پاکستان جہاں 35فیصد لوگ ذہنی امراض، ڈپریشن کے مریض، جہاں ہر سال خودکشی کا رجحان 5فیصد بڑھ رہا، وہاں جو جہاں ہے ایک دوسرے کو حوصلہ دے، ہمت بندھائے، امید پیدا کرے، ایک دوسرے کی مدد کرکے ہم دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر سکتے ہیں۔
معذرت چاہتا ہوں، جیسے پہلے دنیا کو نائن الیون کی عینک سے دیکھا جا رہا تھا، مطلب نائن الیون سے پہلے کی دنیا اور نائن الیون کے بعد کی دنیا، اب یہ دنیا کورونا عینک پہن کر دیکھی جائے گی، مطلب کورونا وائرس سے پہلے کی دنیا اور کورونا وائرس کے بعد کی دنیا۔
یقین مانئے، گزرے چند دنوں میں مَیں یہی سوچ کر حیران کہ کورونا سے پہلے میں کس دنیا میں رہ رہا تھا، کورونا کے بعد کس دنیا میں رہ رہا، ایک وائرس مجھ سے کیا کچھ چھین چکا، ایک وائرس مجھے کیا کچھ دے کر جائے گا، معذرت چاہتا ہوں۔
میں کنفیوز مگر پُرامید، اس وقت کورونا کا پلڑا بھاری، دوستو جیتیں گے ہم ہی یہ بازی، مگر معذرت چاہتا ہوں، کورونا زدہ نیتوں، کورونا زدہ کوششوں سے کورونا کا مقابلہ ناممکن، اپنے اندر کے کورونے مار لو گے۔
باہر کا کورونا مار پائو گے، معذرت چاہتا ہوں، اب یہ فیصلہ بائیس کروڑ کورونوں کا، اندر کے کورونے مارنے ہیں یا باہر کے کورونوں سے مرنا ہے۔
Source: Jung News
Read Urdu column Mauzrat Chahta hun By Irshad Bhatti