مزید حلوہ – عبدالقادر حسن
سسکا سسکا کر مار دینے سے بہتر ہوتا ہے ایک ہی دفعہ مار دیا جائے تا کہ مارنے والے کی بھی جان چھوٹے اور مرنے والا بھی سسک سسک کر مرنے کی اذیت سے آزاد ہو جائے لیکن شائد سسکا سسکا کر مارنے والے کو اس طریقہ کار میں زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ اپنے اسی طریقے پر کاربند رہتے ہوئے مار دینے کو ترجیح دیتا ہے اور مرنے والے کی اذیت کی اس کو کوئی پروا نہیں ہوتی کیونکہ وہ پہلے ہی جس بے رحمی سے ظلم کر رہا ہوتا ہے اس میں کسی قسم کی رعائت دینے کا اس کے پاس کوئی رواج نہیں ہوتا، وہ اپنے طریقہ کار کے مطابق اپنا عمل جاری رکھتا ہے اور اس سے لطف حاصل کرتا ہے۔
سسکا سسکا اور تڑپا تڑپا کر مار دینے کاکچھ ایسا ہی رویہ ہمارے حکمرانوں کا رہا ہے جو بھی حکمران آیا پہلے تو اس نے خزانہ خالی ہونے کا رونا رویا اور پھر اس کو بھرنے کے لیے عوام سے قربانی مانگی۔ بے چارے عوام نے اپنے ہر حکمران کو خوش آمدید بھی کہا اور قربانی کا بکرا بھی بنے لیکن عوام کے ساتھ وہی ہوا جو جمہوریت کا حسن ہے کہ ہمارے جمہوری حکمرانوں نے خزانہ تو کیا بھرنا تھا ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دیں اور ملک کے معاملات چلانے کے لیے دن رات قرضوں کے حصول میں لگے رہے۔
قرض در قرض لینے کی روایت آج کی نہیں یہ ماضی بعید کا قصہ ہے یعنی یہ وہی قصہ ہے کہ جب ایک ملک میں حکمران کے بارے جھگڑا ہو گیا ہے اور اس بات کا فیصلہ نہ ہو سکا کہ آیندہ کون شخص حکمران ہو گا تو شہر والوں نے فیصلہ کیا کہ جو کل صبح سویرے جو بھی شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہو گا وہی آیندہ کا حکمران ہو گا ۔ اگلی صبح سب سے پہلے ایک فقیر شہر کے دروازے پر پہنچا تو دربانوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور کہا کہ آپ آج سے ہمارے بادشاہ ہیں، پہلے پہل تو فقیر نے مزاحمت کی اور کہا کہ وہ ایک فقیر ہے اسے اس کے حال میں خوش رہنے دیا جائے لیکن جب اس کی ایک نہ سنی گئی تو اس نے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور شاہی محل میں پہنچ گیا ۔
شاہی محل میں اس کو بادشاہوں والا لباس فراہم کیا گیا ۔ فقیر نے بادشاہوں والا لباس تو پہن لیا لیکن اپنا فقیروں والا لباس ایک تھیلے میں بند کر کے ایک طرف سنبھال کر رکھ دیا اور شاہی تخت پر بیٹھ کر حکمرانی شروع کر دی۔ شاہی خزانے کے منہ غریبوں کے لیے کھول دیے گئے جو بھی دربار میں حاضر ہوتا اس کی جھولی اشرفیوں سے بھر کر واپس لوٹایا جاتا ۔ دن گزرتے رہے، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہمسائیہ ملک کے بادشاہ نے جب دیکھا کہ فقیر کی بادشاہی میں اس کا ہمسائیہ ملک کمزور ہوتا جا رہا ہے تو اس نے اپنی فوج کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا ۔
اس حملے کی اطلاع وزیر نے جب فقیر بادشاہ کو دی تو اس نے حکم دیا کہ حلوہ پکایا جائے اور اس کو تقسیم کیا جائے ۔ اس عجیب و غریب حکم کی تعمیل کی گئی اور حسب حکم حلوہ پکا کر تقسیم کر دیا گیا دوسرے روز پھر وزیر نے بادشاہ کو بتایا کہ دشمن ملک کی فوجیں قریب پہنچ گئی ہیں ، اب کیا کیا جائے۔ بادشاہ نے پھر حلوہ پکانے کا حکم جاری کیا ، وزیر اور مشیر یہ سمجھ رہے تھے کہ حلوہ پکانے میں فقیر منش بادشاہ کی کوئی حکمت ہو گی ۔ جب دشمن فوجیں شہر کے باہر پہنچ گئیں تو بادشاہ کو اس کی اطلاع دی گئی، فقیر بادشاہ نے کہا کہ میری گدڑی لائی جائے، وزیر بھاگم بھاگ بادشاہ کے پرانے کپڑے لے آیا۔ بادشاہ نے شاہی خلعت اتاری اور اپنے فقیروں والے بوسیدہ لباس کو زیب تن کیا اور وزیروں مشیروں سے مخاطب ہوئے کہا کہ ہم تو حلوہ کھانے آئے تھے سو حلوہ کھا کر جا رہے ہیں، تم جانو اور تمہارا دشمن ملک جانے۔ یہ کہہ کر بادشاہ شاہی محل سے نکل گیا ۔
کچھ ایسا ہی حال ہمارے ملک کے ساتھ بھی روا رکھا گیا جو بھی حکمران آیا وہ حلوہ کھانے آیا اور حلوہ کھا کر چلا گیا اور اپنے سے بعد میں آنے والے کے لیے خزانہ خالی کر گیا لیکن ہمارے شاطر حکمرانوں نے مزید قرضے حاصل کر کے اپنے لیے حلوہ کھانے کا بندو بست کیا اور آج تک یہ بند وبست جاری ہے۔ حلوے پکائے جا رہے اور کھائے جا رہے ہیں بلکہ اب کھانے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے، اس لیے زیادہ قرض حاصل کیے جا رہے تا کہ کہیں حلوے کی مقدار کم نہ ہو جائے اور کوئی کھانے سے رہ نہ جائے۔
جب سے ہمارے موجودہ حکمران تخت پر براجمان ہوئے ہیں ، انھوں نے بھی عوام کو حلوے کھانے کے خواب دکھائے لیکن ابھی تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے بلکہ عوام کے پاس اگر خود سے حلوہ پکانے کا بندوبست تھا تو وہ بھی چھین لیا گیا یعنی مہنگائی میں ہوشرباء اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ، عوام کی حالت دن بدن پتلی ہوتی جا رہی ہے، ان کے لیے زندگی کے شب و روز گزارنا مشکل تر بنایا جا رہا ہے اور آئے روز بڑی ڈھٹائی سے مزید مہنگائی کی اطلاع بھی دے دی جاتی ہے۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نئے نویلے حکمران ابھی تک حکومت چلانے کے اسرار و رموز سمجھ نہیں پائے، ان کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت کے معاملات کیسے چلائے جاتے ہیں ، معیشت کیا ہوتی ہے اور ملک کے استحکام کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے۔ حکومتی دعوؤں کے برعکس روز بروز بڑھتی مہنگائی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن گئی ہے اور ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس کو کنٹرول کیسے کیا جائے کیونکہ ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکے کہ ملک کی معیشت درست سمت میں جارہی ہے ۔مزید قرضوں کے حصول کو معاشی ترقی کی جانب بڑھتا قدم قرار دینے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔
دراصل یہی تو وہ قرضے ہیں جن کا رونا رویا جاتا رہا ہے لیکن ہماری موجودہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی ڈگر پر چل پڑی ہے اور قرضوں کے ذریعے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کو معیشت کی ترقی قرار دیا جا رہا ہے۔ قسطوں میں عوام کو مہنگائی کا تحفہ دیا جا رہا ہے، ہر ماہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور گرمی کے آغاز میں ہی بجلی کی قیمتوں کو تقریباً دگنا کر کے آنے والے مہینوں میں عوام کی چیخیں نکالنے کی مکمل منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ معلوم یو ں ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران فقیر کی طرح حلوہ کھانے آئے ہیں اور جب حلوے مانڈے سے ان کا دل بھر جائے گا تو وہ اپنی گڈری پہن کر رخصت ہو جائیں گے اور عوام کو مزید قربانی کے لیے کسی نئے بادشاہ کے رحم و کرم پر چھوڑ جائیں گے، اگر مزید قربانی کے لیے عوام کے پاس کچھ بچا تو۔۔۔
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
Must Read Urdu column Mazeed halwah By Abdul Qadir Hassan
source: Express