مہنگائی! – ارشاد بھٹی
پچھلے دو برسوں میں وزیراعظم نے 11مرتبہ مہنگائی پر نوٹس لیا، ویسے تو یہ اب مذاق ہی بن گیا کہ جس چیز کا وزیراعظم نوٹس لیں، وہ چیز نایاب ہو جائے، زمین سے آسمان پر جا پہنچے، صورتحال پہلے سے زیادہ بگڑ جائے۔ خیر 5وفاقی کابینہ اجلاسوں میں بھی مہنگائی مہنگائی ہوئی، گزرے6مہینوں میں حکومتی وزراء کے 5سو بیانات مہنگائی پر۔
وعدے، دعوے، بڑھکیں مگر مہنگائی نہ رُکی، وزیراعظم نے تو قوم کو یہ خوشخبری بھی سنائی کہ مہنگائی اتنی، تنخواہ میں میرا گزارا بھی نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ، یہ مہنگائی کیوں، وجہ بےتحاشا آبادی، بےہنر تعلیم، لاغر معیشت، غلط فیصلے، بدنیتی، کرپشن بھی۔ وجہ خراب گورننس، بری پرفارمنس، حکومتی رِٹ کا نہ ہونا، نالائق معاشی ٹیم، اسمگلنگ، کھانے پینے کی اشیاء کی سپلائی چین ٹھیک نہ رکھ پانا۔
واضح منصوبہ بندی نہ لائحہ عمل، وجہ احتساب بھی، جن کا احتساب ہو رہا، اِن کے اپنے کاروبار، ان کے چاچوں، ماموں، رشتہ داروں، چہیتوں کے بھی کاروبار، سب حکومت کیخلاف اکٹھے ہو گئے۔ چینی، گندم، آٹا، دوائی مافیاز کا حکومت مخالف اکٹھ، حکومت مخالف تاجروں، سرمایہ کاروں کی ذخیرہ اندوزی تاکہ مصنوعی قلت پیدا کی جائے، لوگ باہر نکلیں، حکومت جائے یا حکومت ناکام ہو جائے۔
یہ وہ وجوہات جن کی وجہ سے مہنگائی رک رہی نہ حکومت کچھ کر پارہی، صورتحال کتنی نازک، اس سے اندازہ لگا لیں کہ صرف چینی، گندم مہنگی ہونے سے عوام پر سالانہ 330ارب کا اضافی بوجھ پڑا، 6کروڑ افراد پہلے ہی غربت کی لکیر کے نیچے تھے، گزشتہ 8ماہ میں دو کروڑ افراد مزید غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے، گزشتہ ایک سال میں ہر خاندان کا 33فیصد خرچ بڑھا، جبکہ آمدنی میں دھیلے کا اضافہ نہ ہوا، مڈل کلاس طبقہ دن بدن سکڑتا جا رہا۔
عمران خان اپوزیشن میں تھے تو کہا کرتے ’’جب حکمراں کرپشن کرتا ہے، وہ ٹیکس چوری کرتا ہے تو کرپٹ حکمرانوں کی چوری کی قیمت عوام مہنگائی کی صورت میں ادا کرتے ہیں‘‘۔
آج ٹیکس لگ رہے، مہنگائی بھی بڑھ رہی، اب حکمراں کرپٹ یا حکمرانوں کی چوریوں کی وجہ سے ہمیں مہنگائی بھگتنا پڑ رہی، اس سے اہم بات یہ کہ حکومتی معاشی ٹیم نالائق، ابھی پچھلے وفاقی کابینہ اجلاس میں پتا چلا کہ گندم، چینی پر کابینہ کو جتنی بریفنگز دی گئیں، سب جعلی اعدادوشمار پر مبنی، فواد چوہدری کو کہنا پڑا کہ سال پہلے ہمیں بتایا گیا 20لاکھ ٹن گندم اضافی ہے، اسے گوداموں میں رکھنے کے بجائے ایکسپورٹ کر دینی چاہئے۔
جب گندم ایکسپورٹ ہو گئی، تب پتا چلا کہ ہمارے تو اپنے لئے گندم نہ رہی، لہٰذا سال بعد اب ہم گندم باہر سے منگوا رہے، اسی طرح ہمیں چینی پر بریفنگ دی گئی کہ ہمارے پاس اپنی ضرورت سے 15لاکھ ٹن اضافی، ہمیں چینی ایکسپورٹ کر دینی چاہئے، جب ہم نے 11لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کر دی تو چینی نایاب ہوئی، اب ہم چینی باہر سے منگوا رہے، اب پتا نہیں گندم، چینی پر وفاقی کابینہ کو جان بوجھ کر جعلی بریفنگز دی گئیں یا کسی کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ گندم، چینی کتنی ہوئی، کتنی ہماری ضرورت کیلئے کافی، کتنی گندم، چینی کہاں پڑی ہوئی۔
وفاقی کابینہ اجلاس سے یاد آیا، پچھلے وفاقی کابینہ اجلاس میں (یہ قومی اسمبلی میں بھی بتایا جا چکا) یہ بھی پتا چلا کہ شریف برادران جو کول پاور پلانٹس مطلب کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر لگا گئے، ان کی فضائی آلودگی ایک طرف، صرف ساہیوال، پورٹ قاسم، حب کول پاور پلانٹس کیلئے ایک ارب 20کروڑ ڈالر کا کوئلہ انڈونیشیاء، آسٹریلیا، ساؤتھ افریقہ سے منگوایا جاچکا، یہ بھی سن لیں، کوئلے سے چلنے والے ان بجلی گھروں سے ہمیں 11روپے فی یونٹ بجلی پڑ رہی، اسی طرح شریف برادران کے منصوبے ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی 19روپے فی یونٹ جبکہ سورج سے پیدا ہونے والی بجلی ہمیں سوا 21روپے فی یونٹ پڑ رہی،خود سوچ لیں۔
اتنی مہنگی بجلی اوپر سے بجلی چوری، تبھی بجلی بل اتنے زیادہ آرہے، چوری سے یاد آیا، سنا جارہا، لاہو رمیں ہوئی بغاوت ایف آئی آر میں ایک وزیر اور ایک پولیس افسر نے بھی چوری چوری اپنا حصہ ڈالا، تفصیلات بڑی لچھے دار، یہاں یہ بھی سنتے جائیے، جس دن بغاوت ایف آئی آر میں نامزد لیگی سیاستدان لاہور تھانے پہنچے ہوئے تھے، جس دن لاہور میں اپوزیشن والے پریس کانفرنسیں کھڑکارہے تھے، جس دن گوجرانوالہ جلسے کے حوالے سے لاہور میں اپوزیشن میل ملاقاتیں، بیٹھکیں کرر ہی تھی، جس دن جاتی امراء میں مولانا صاحب اور مریم نواز کی ملاقات، درجن ڈشوں اور 6میٹھوں والے ڈنر پر اپوزیشن اکٹھی تھی۔
اس روز ان سب جھنجھٹوں سے دور سائیں عثمان بزدار پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں مل گئے، علیک سلیک کے بعد بولے، ابھی ابھی آئس کریم کھا کر آیا ہوں، میں نے کہا آج آپ کی آئس کریم کھانابنتی تھی،بولے، کیوں، میں نے کہا، مشرف دور میں جس رات اسلام آباد میں لال مسجد آپر یشن ہورہا تھا، اس رات وزیراعظم شوکت عزیز بلیو ایرا سلام آباد میں قلفی کھا رہے تھے، لہٰذا آج جب پنجا ب میں اپوزیشن کا راج، آپ کا اسلام آباد میں آئس کریم کھانا بنتا تھا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہورہا تھا مہنگائی کا، حکومتی نالائقی کی ایک جھلک تودیکھ لی، اب ذرا مہنگائی پرا پوزیشن کی عوامی فکر کا حال بھی دیکھ لیں، گزرے 2برسوں پر نظر ماریں تواپوزیشن کے ٹاپ 5ایجنڈے میں مہنگائی نہیں، گزشتہ ایک سال میں اپوزیشن 70فیصد نیب، احتساب پر بولی، 25فیصد یہ حکومت جعلی، یہ مینڈیٹ جعلی، وزراء کرپشن پربات کی، جبکہ باقی 5فیصد میں سے بمشکل ڈیڑھ فیصد مہنگائی پر بات کی، اب چونکہ جلسے کرنے، آل بچاؤ، مال بچاؤ، کھال بچاؤ کیلئے لوگوں کو باہر نکالنا، اب مہنگائی مہنگائی ہو رہی، ہمارے سیاستدان انتخابات یا جلسے، جلوسوں سے پہلے عوامی درد میں ڈوبی یوں تقریریں کریں کہ ہر بندہ کہہ رہا ہو بس کر پگلے اب ر لائے گا کیا، مگر یہ 12مصالحوں والی تقریریں انتخابات، جلسے جلوسوں تک ہی ہوں، جونہی یہ سب ختم ہو۔
ہمارے سیاستدان عوامی درد بھول کر پھر سے اپنے دردوں کی دوا کیلئے نکل پڑیں، اب چونکہ اپوزیشن نے اپنی آل، مال، کھال بچانی، لہٰذا مہنگائی پر آنسو بہا رہی لیکن جب یہ کام نکل جائے گا تو یہ سب چھومنتر ہوجائیں گے، رہ گئی مہنگائی، تو وہ کون سا ان کا مسئلہ، عوام جانیں اور مہنگائی جانے ۔
Source: Jung News
Read Urdu column Mehangaye By Irshad Bhatti