میرا ووٹ میری مرضی، تیرا نوٹ تیری مرضی – حسن نثار
لکھنا کسی اور موضوع پر تھا لیکن اخبار کی شہ سرخی دیکھ کر طبیعت باغ باغ ہو گئی اور میں نے ارادہ تبدیل کر لیا کیونکہ ہماری جنم جلی منحوس جمہوریت دنیا کے ہر موضوع سے زیادہ دلچسپ، ڈھیٹ اور بےحیا ہے۔
یہ جان کر جی بہت خوش ہوا کہ اس بدترین مہنگائی میں بھی غیور اور باشعور لیکن بھوکا، بیروزگار ووٹ صرف دو ہزار روپے میں دستیاب ہے حالانکہ تکنیکی طور پر دیکھیں تو دو ہزار روپیہ شاید ایک ہزار بھی نہیں رہ گیا بلکہ سچ پوچھیں تو عوامی زبان میں ’’ٹکے ٹوکری‘‘ ہو چکا ہے اور اس ’’ووٹ‘‘ کے ساتھ یہی کچھ ہونا چاہئے تھا اور یہی کچھ ہوتا بھی رہے گا۔
تضادات اور دروغ گوئی ہماری خوراک ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ووٹ کی خرید و فروخت کے موجد میاں صاحب ووٹ کو عزت دینے کا شوشا چھوڑتے کہ یہ تو خود ووٹ کی بےعزتی کی پیداوار ہیں اور یہی وہ دھندا تھا جس نے کونسلر کا الیکشن ہارنے والے شخص کو تین بار اس ملک کا وزیراعظم بنا دیا۔ باقی سب پہیلیاں اور کہانیاں ہیں۔
اصل بات یہ کہ یہی ’’ووٹ شریف‘‘ کی اصل قیمت اور اوقات ہے۔ دو ہزار روپے میں مٹھی بھر چلغوزے، ڈھنگ کے موزے ’’ایرن مور‘‘ تمباکو کی دو ڈبیاں، لنڈے کا کوٹ اور چند قیمے والے جمہوری نانوں کا حصول بھی مشکل ہے لیکن ’’رائے‘‘ بہ آسانی خریدی جا سکتی ہے۔ کبھی اسی مسخرے ووٹ کی شان میں یہ شعر لکھا تھا؎
سرمایہ کیا، رائے چرائی جا سکتی ہے
پانی میں بھی آگ لگائی جا سکتی ہے
گزشتہ 30برسوں میں کم از کم 30بار ہی اپنا یہ فیورٹ جملہ ری پیٹ کیا ہو گا کہ ’’جس کے پائوں تلے زمین اور سر کے اوپر چھت اپنی نہیں اس کی رائے بھی اپنی نہیں ہو سکتی‘‘۔ آزادانہ رائے ’’آزاد‘‘ لوگوں کی ہوتی ہے، غلاموں کی نہیں اور مت بھولو کہ غلاموں کی بےشمار قسمیں ہوتی ہیں اور ہم جیسے معاشروں کا ’’عام آدمی‘‘ تہہ در تہہ غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے یہاں تک کہ ’’ذات برادری‘‘ بھی غلامی کی ہی ایک مکروہ ترین شکل ہے کہ یہ بدترین جہالت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں ایک پاجی اور خبیث الدہر کو صرف اس لئے ووٹ دے دوں کہ اس کا تعلق میری ’’برادری‘‘ سے ہے لیکن یہاں صرف یہی کچھ ہے۔
لاہور کے حلقہ این اے 133میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے پر ووٹ خریدنے کا الزام لگایا، الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کے ذمہ داروں کو گرفتار کیا جائے اور فواد چودھری پوچھتے ہیں کہ کیا دو دو ہزار میں ووٹ خریدنا ووٹ کو عزت دینا ہے؟ میں نہیں جانتا کہ جمہوریت کی یہ ننگی تجارت عزت ہے یا بےعزتی لیکن حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ ….سچ یہی ہے کہ ووٹ سمیت یہ ساری کی ساری جمہوریت ہمیشہ برائے فروخت تھی، ہے اور رہے گی۔
یہی وجہ ہے کہ اس ’’بلاوی‘‘ سے مجھے شدید نفرت ہے، انگریزی میں ’’بلاوی‘‘ کو کال گرل کہتے ہیں لیکن اس سے بھی کہیں اہم سوال یہ ہے کہ جب الیکشن کمیشن کے نوٹس کے نتیجہ میں ’’ذمہ داران‘‘ کو گرفتار کیا جائے گا تو کیا صرف ضمیر یعنی ووٹ خریدنے والوں کو ہی گرفتار کیا جائے گا یا بیچنے والوں کی پکڑ دھکڑ کا اہتمام بھی ہوگا کیونکہ حقیقت تو یہی ہے کہ خریدنے اور بیچنے والا دونوں مجرم ہیں، ایسی صورت میں ووٹ بیچنے والوں نے یہ کہہ دیا کہ …..
’’میرا ووٹ میری مرضی‘‘
تو جواب کیا ہوگا؟
خصوصاً اگر ووٹ بیچنے والی دو تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی بیوہ ماں ہوئی اور اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے جمہوریت کے ماموئوں سے کہا کہ ’’حضور! بچے دو دن سے بھوکے تھے اور میں نے یہ سوچ کر اپنا ووٹ بیچ دیا کہ ووٹ فروشی، جسم فروشی سے تو بہتر ہے اور یوں بھی ووٹ جس کو بھی دے دو، نتیجہ تو ایک سا ہی نکلتا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘
شہروں کے باسی نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں کہ مین اربن سنٹرل سے جیسے جیسے دور دراز، پسماندہ علاقوں کی طرف جائیں گے، ووٹ کی ’’عزت دری‘‘ اتنی ہی عام دکھائی دے گی۔ جمہوریت کی ’’بے بے‘‘ برطانیہ میں یہ حرافہ مرحلہ وار آئی تھی اور جب آئی تھی، ہم تو آج بھی ان کے ان ادوار سے بہت پیچھے ہیں لیکن نہیں کیونکہ ہمارے بیلٹ بوکس تو جھوٹ سے بھر جاتے ہیں لیکن کھوپڑیاں خالی رہتی ہیں۔ کیسے دلچسپ اور عجیب و غریب قسم کے لوگ ہیں، ہم کو ہمارا مالیاتی نظام بھی سو فیصد مغربی سیاسی نظام بھی سو فیصد نقل اور کہلاتے ہیں ’’اسلامی جمہوریہ‘‘۔
جب کوئی ’’غیر سودی نظام کا ذکر کرتا ہے تو جھوٹا اور فراڈیا لگتا ہے، پوری معیشت قرضوں کی مرہون منت، قرضوں پر سود یا مارک اپ تو یہ ڈرامہ یونہی ہے کہ کوئی کموڈ میں گلدستہ رکھ دے لیکن جس طرح ہمارے ہاں کچھ بھی اوریجنل نہیں اسی طرح سوچ بھی اوریجنل نہیں۔ اکثر لوگوں کے صرف جسم مرتے ہیں کچھ لوگوں کی روحیں بھی مر جاتی ہیں لفظوں کی قے یا پیچش،
سیاسی نظام ….مغربی جمہوریت
مالیاتی نظام…..مغربی ڈالر کے گرد ناچ ناچ کر یار منانے میں مصروف
مقبول ترین کھیل …..مغربی یعنی کرکٹ
معزز زبان ….انگریزی
فیورٹ فوڈ….پیزا، برگر، پاستا، چپس، نوڈلز وغیرہ،
تعطیلات کیلئے ….یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا
کیا ’’ووٹ‘‘ کیلئے یہ سب کافی نہیں یا دو چار ہزار چیزیں اور گنوائوں؟ پھر بھی سود حرام اور باقی سب کچھ حلال ہے۔
میرا ووٹ …میری مرضی
تیرا نوٹ …تیری مرضی
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Mera vote Meri MArzi Tera Note Teri Mazri By Hassan Nisar