میرے دشمن کا دشمن- حامد میر
ڈبل گیم تو بڑے عرصے سے جاری تھی لیکن ایک گریٹ ڈبل گیم 2019میں شروع ہوئی۔
اِس گریٹ ڈبل گیم کے نتائج سامنے آنے کی توقع 2020کے ابتدائی ایام میں تھی لیکن کورونا وائرس نے گریٹ ڈبل گیم کو بریک لگا دی۔ 2021کے آغاز کے ساتھ ہی گریٹ ڈبل گیم دوبارہ شروع ہو چکی ہے۔
تین جنوری 2021کو بلوچستان کے علاقے مچ میں گیارہ ہزارہ مزدوروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔
اِس دہشت گردی کی ذمہ داری داعش نے قبول کی جس نے اِس خطے میں 2015میں جنم لیا۔ داعش نے ایک ایسا ہی حملہ 25مارچ 2020کو کابل میں سکھوں کے ایک گوردوارے پر کیا تھا جس میں دو درجن سے زائد بےگناہ افراد مارے گئے تھے۔ یہ سکھ بھی نہتے تھے اور مچ میں قتل ہونے والے غریب ہزارہ مزدور بھی نہتے تھے۔
کابل کے حملے میں ایک بھارتی شہری محمد انیس ملوث تھا جس کا عسکری نام ابو خالد الہندی تھا لیکن مچ حملے میں ملوث افراد کے نام ابھی سامنے نہیں آئے۔
مچ حملے کا مقصد پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانا نظر آتا تھا۔ حکومت کی نااہلی کے باعث ہزارہ مقتولین کی لاشوں کو کئی دن تک دفنایا نہ جا سکا۔
اِس دوران حکومت نے کہا کہ قتل ہونے والے مزدوروں میں بعض افغان شہری تھے اور افغان حکومت اُن کی لاشیں مانگ رہی ہے لیکن بعد میں سب کو پاکستان میں دفنایا گیا۔
ہزارہ مزدوروں کے قتل کے ذریعے پاکستان میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی سازش ناکام ہو گئی لیکن خطرہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں اِس قسم کی سازشیں جاری رہیں گی اور اگر اِن سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہ بنائی گئی تو وہ گریٹ ڈبل گیم کامیاب ہو سکتی ہے جس کا اصل مقصد پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔
اِس گریٹ ڈبل گیم کے ماسٹر مائنڈ کا سراغ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ صرف اِس سوال پر غور کر لیں کہ پاکستان اور افغانستان میں امن و استحکام پیدا ہونے سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوگا؟
اگر جواب نہ ملے تو کنگز کالج لندن میں ڈیفنس اسٹڈیز کے ایک استاد اوی ناش پلوال کی کتاب MY ENEMY’S ENEMYپڑھ لیں جس کے سرورق پر ایک تصویر میں افغان صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا رہے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں نریندر مودی اپنے دشمن کے دشمن کے ساتھ ہاتھ ملا رہا ہے اور موصوف کے دشمن کا نام پاکستان جبکہ دشمن کا دشمن اشرف غنی ہے۔
اوی ناش پلوال کا تعلق بھارت سے ہے اور اِس کتاب میں اُنہوں نے افغانستان میں نریندر مودی کی گریٹ ڈبل گیم کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔
مودی ایک طرف بلوچستان میں پاکستانی ریاست کی غلطیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے پختونوں میں بےچینی پھیلانے میں مصروف ہیں۔
اِس مقصد کیلئے وہ افغانستان کے راستے سے پاکستان میں مداخلت کر رہے ہیں۔ یہ کتاب 2017میں شائع ہوئی تھی اور کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مودی حکومت نے افغان طالبان کو اپنے جال میں پھانسنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیابی نہ ملی البتہ اشرف غنی کی مدد سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کئی عسکریت پسندوں کو پھانس لیا گیا جن میں سے اکثر داعش کا حصہ بن چکے ہیں۔
2019میں امریکہ اور افغان طالبان میں امن معاہدے کے امکانات واضح ہوئے تو مودی اور اشرف غنی نے ایک گریٹ ڈبل گیم شروع کی۔ یہ دونوں بظاہر تو امن مذاکرات کی حمایت کرتے رہے لیکن اندر ہی اندر مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔
مودی اُن مذاکرات کی کامیابی سے اس لئے خوفزدہ تھے کہ اگر طالبان سے مذاکرات کے بعد امریکی فوج افغانستان سے واپس چلی جاتی تو پھر مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی عسکریت پسندی کی حوصلہ افزائی ہوتی اور یہی وجہ تھی کہ جب افغان امن مذاکرات ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئے تو مودی نے 5اگست 2019ءکو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آئین کی دفعہ 370کو معطل کر دیا اور ایک متنازعہ علاقے پر زور زبردستی سے قبضہ کر لیا۔
ستمبر 2019ءمیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کر دیا کیونکہ افغان طالبان کیمپ ڈیوڈ میں اشرف غنی کے ساتھ بیٹھ کر معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔
مودی اور اشرف غنی کی ڈبل گیم کے باوجود 29فروری 2020کو قطر میں امریکہ اور طالبان میں امن معاہدے پر دستخط ہو گئے جس کے تحت امریکہ نے اگلے 14ماہ میں اپنی فوج افغانستان سے نکالنی تھی اور کابل حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرنا تھا جس کے بعد انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع ہونا تھے۔
امن معاہدے پر دستخط کے بعد افغانستان میں جو حالات پیدا ہوئے، اُن کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
دور سے کھڑے ہو کر دیکھیں تو نظر آئے گا کہ امن معاہدے کے بعد افغانستان میں خونریزی بڑھ گئی لیکن جب قریب سے حقائق کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک طرف کابل حکومت نے معاہدے پر عملدرآمد میں تاخیری حربے اختیار کئے تو دوسری طرف طالبان کے خلاف ہوائی حملوں اور داعش کے زمینی حملوں میں شدت آگئی۔
یہ دعویٰ درست نہیں کہ افغان طالبان میں امن معاہدے پر اختلاف ہے۔ طالبان نے دوحہ معاہدے کا مسودہ افغانستان میں اپنی رہبر شوریٰ کو بھیجا تھا جس نے تمام فیلڈ کمانڈروں سے مشورہ کیا۔ جب اتفاق ہو گیا تو مُلا ہیبت اللہ اخوند نے ایک کمیٹی سے کہا کہ اِس معاہدے کا شرعی نکتہ نظر سے جائزہ لیا جائے اور جب کمیٹی نے جائزہ مکمل کر لیا تو معاہدے پر دستخط ہوئے۔
2020میں عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر طالبان نے سیز فائر کیا اور ملک بھر میں اِس کی پابندی ہوئی، سیز فائر کے دوران حملے ہوئے تو داعش کی طرف سے ہوئے، طالبان کی طرف سے نہیں ہوئے۔
یہ کوئی راز نہیں کہ کابل کے شمال میں شکردرہ کے علاقے میں داعش کو تربیتی مرکز کس نے فراہم کیا؟ ابتدا میں امریکہ پر الزام لگایا گیا کہ وہ داعش کی خفیہ مدد کرتا ہے لیکن امریکہ نے داعش کے کئی اہم کمانڈروں کو نشانہ بنا کر اس الزام کو رد کرنے کی کوشش کی۔
جب ننگرہار اور کنڑ میں طالبان نے داعش کو شکست دی تو داعش کے جنگجوئوں کو افغان فوج نے پناہ دی۔ امن معاہدے کو کامیاب بنانے کیلئے جتنی لچک طالبان نے دکھائی وہ غیرمتوقع تھی۔ مُلا عبدالغنی برادر سے لیکر انس حقانی تک طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے اکثر ارکان نے کئی کئی سال جیلوں میں گزارے اور امریکہ کے خلاف جنگ میں اپنے عزیزوں کو قربان کیا۔
انس حقانی کے چار بھائی اور پھوپھی امریکیوں کے ہاتھوں شہید ہوئیں۔ اِس کے باوجود انس حقانی امن معاہدے کا حصہ بنے اور طالبان نے اپنے ایک سابق آسٹریلوی قیدی ٹموتھی ویکس کو بھی دوحہ معاہدے میں شرکت کی دعوت دی۔ انس حقانی نے خود ایئرپورٹ جاکر اُس کا استقبال کیا۔
طالبان دوحہ معاہدے کو کامیاب بنانے کیلئے جو کر سکتے تھے، انہوں نے کیا۔ سازش ہوئی تو مودی اور اشرف غنی کی طرف سے۔
امید ہے کہ جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد امن مذاکرات آگے بڑھیں گے کیونکہ یہ مذاکرات ٹرمپ نے شروع نہیں کئے تھے، یہ مذاکرات اوبامہ کے دور میں شروع ہوئے تھے۔ جو لوگ افغان امن معاہدے کے ثمرات سامنے نہ آنے کی ذمہ داری طالبان پر ڈالتے ہیں، وہ بتائیں کہ داعش کو طالبان کے خلاف کس نے کھڑا کیا؟
دشمن کے دشمن کی گریٹ ڈبل گیم کا مقصد اِس امن معاہدے کو ناکام بنانا ہے کیونکہ اِس معاہدے کی ناکامی پاکستان کی ناکامی قرار پائے گی لہٰذا دشمن مودی اور دشمن اشرف غنی کی پاکستان کے خلاف سازشوں کو ناکام بنائے بغیر افغان امن معاہدہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
Source: Jung News
Read Urdu column Meray Dushman ka Dushman by Hamid Mir