میری ماں کو کس نے رلایا – سلیم صافی
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ میاں نوازشریف بطور لیڈر اور مسلم لیگ بطور جماعت کبھی میرے فیورٹ نہیں رہے ۔ میں نے یا میرے خاندان کے کسی فرد نے کبھی مسلم لیگ (ن ) کو ووٹ نہیں ڈالا۔ انسانی نظریات کی تشکیل میں اس کے ماحول اور پس منظر کا بنیادی کردار ہوتا ہے اور میں چونکہ آٹھویں جماعت میں اسلامی جمعیت طلبہ سے متعارف ہوا تھا اس لئے دیگر جماعتیوں کی طرح میں بھی مسلم لیگ اور اس کی قیادت کو ناپسند کرتا رہا۔ میدان صحافت میں قدم رکھا تو تصورات اور سیاسی نظریات تبدیل ہوئے لیکن جو نئی
سو چ تشکیل پائی اس میں بھی میاں نوازشریف یا ان کی جماعت کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی ۔ جب پرویز مشرف نے میاں نوازشریف کو جیل میں ڈالا یا پھر انہیں جلاوطن کیا تو آمریت اور جمہوریت کے درمیان کشمکش کامعاملہ بن گیا ۔ چنانچہ اس عرصے میں اس جماعت سے متعلق نرمی سے کام لیتا رہا اور 2013 کے انتخابات تک چونکہ میاں صاحب جمہوری کیمپ میں اور ان کے مخالفین کے لاڈلے رہے ، اس لئے میری زبان اور قلم ان سے متعلق نرم رہے ۔ تاہم جس دن میاں نوازشریف اقتدار میں آئے ، اس دن سے دوبارہ مخاصمت شروع ہوئی۔ محترم مریم نواز صاحبہ جس دن وزیراعظم ہائوس کے اندر گئیں، اس دن سے میں ان کے نقادوں اور مغضوب صحافیوں کی صف میں شامل ہوا ۔ پورے چار سال بعد میری ان سے
ملاقات تب ہوئی ، جب سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں وہ وزیراعظم ہائوس سے نکل گئیں۔ میاں نوازشریف سے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلے میں کبھی کبھار ملاقات ضرورہوجاتی تھی لیکن ان کے وزیراعظم بنتے ہی ، میں ان کے ناپسندیدہ ترین صحافیوں میں شامل ہوگیا تھا۔ سی پیک جیسے معاملات پر تو میرے اور ان کی حکومت کے معاملات اس قدر خراب ہوئے کہ ان کی ٹیم انتقامی کارروائیوں پر اتر آئی ۔ مجھے ایجنسیوں کے ذریعے تنگ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ میرے ادارے کے مالکان پر دبائو ڈالا جاتا رہا کہ وہ مجھے نکال دیںیا پھر خاموش کریں ۔ احسن اقبال اور عرفان صدیقی نے توچینیوں تک کو میرے خلاف ورغلایا اور انہیں بتاتے رہے کہ میں انڈین لابی کا بندہ ہوں اس لئے سی پیک کے حوالے سے حکومتی رویے پر تنقید کررہا ہوں۔دھرنوں کے موقع پر دیگر جمہوریت پسندوں کی طرح میں نے اپنی استطاعت کے مطابق دھرنا برداروں کا مقابلہ ضرور کیا اور سسٹم کے ساتھ کھڑا رہا لیکن دھرنے ختم ہوتے ہی سی پیک ، سول ملٹری تعلقات اورفاٹا کے ادغام جیسے معاملات پر دوبارہ صرف میاں نوازشریف نہیں بلکہ ان کے اتحادیوں کے ساتھ بھی مخاصمت عروج پر پہنچی ۔میرے خلاف مہم چلائی گئی اور طرح طرح کے فتوے تک لگائے گئے۔عرفان صدیقی اینڈ کمپنی میرے خلاف کان بھرتے رہے کہ میں جو کچھ کررہا ہوں فوج یا پھر چوہدری نثار علی خان کے کہنے پر کررہا ہوں۔ غرض جب سے میاں نوازشریف وزیراعظم بنے، ا س دن سے لے کر وزیراعظم ہائوس سے ان کے نکالے جانے تک میرا کوئی ایک کالم یا ٹی وی پروگرام ایسا نہیں دکھایا جاسکتا جو میں نے میاں نوازشریف یا مریم نواز صاحبہ کی ستائش یا تائید میں لکھا یا پیش کیا ہوالبتہ ان کے خلاف لکھے گئے کالموں اور پیش کردہ پروگراموں کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔
جو میری رائے رہی، کم و بیش وہی میرے گھر والوں کی بھی مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے بارے میں رہی ۔ میری والدہ ایک دیہاتی اور سیاست کی الف ب سے ناواقف عمررسیدہ اور بیمار خاتون ہیں ۔ وہ چونکہ بستر سے اٹھ نہیں سکتیں اس لئے بڑی کوشش کی کہ ان کے کمرے میں ان کے لئے ٹی وی لگوادوں لیکن وہ ٹی وی اس لئے لگانے نہیں دے رہیںکہ اس سے ان کی عبادت میںخلل پڑتا ہے۔ یوں وہ نہ سیاست کے مدوجزر سے واقف رہتی ہیں اورنہ صحافتی نزاکتوں سے ۔ ان کی زندگی اور سوچ گھر تک اور مصروفیات بستر یا پھر عبادات تک محدود ہیں۔ تاہم کچھ عرصہ سے وہ دو سیاستدانوں کو ناپسند کرنے لگی تھیں۔ ایک عمران خان اور دوسرے نواز شریف ۔ عمران خان کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ یہ شخص بدتمیزی اور بے حیائی کا کلچر پھیلارہا ہے۔ جبکہ نوازشریف کو اس لئے ناپسند کرتی تھیں کہ اس شخص نے مہنگائی بڑھائی ہے یا پھر یہ کہ وہ ان کے بیٹے کا اوران کا بیٹا ان کا مخالف ہے ۔تاہم جس دن میاں نوازشریف اور مریم نواز صاحبہ کو سز ا ہوئی تو اس دن مجھے گھر سے اطلاع ملی کہ امی بہت دکھی اور ڈسٹرب ہیں ۔ رات کو جب میں گھر گیا تو خلاف توقع میں نے ان کو تھوڑا سا غصے میں پایا ۔ حسب عادت میں قدم بوسی کے لئے جھکا اور انہوں نے میرے سر کا بوسہ لیا تو ساتھ غصے میں فرمانے لگیں کہ تم لوگ ٹھنڈے پڑگئے ۔ میں نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا کہ امی میں نہ خوش ہوں اور نہ خفا ۔ ہم ان چیزوں کے عادی ہوگئے ہیں ۔ کوئی آئے یا جائے ، ہمیں ذاتی طور پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن امی کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ کہنے لگیں کہ بیٹے تم بھی بہت اس کے پیچھے پڑے ہوئے تھے ۔ آخر تم لوگ اور کیا چاہتے ہو۔ پہلے اس بے چارے کو جیل میں ڈالا۔ پھر ان کو اپنے والد کے جنازے میں آنے نہیں دیا۔ اب جب وہ دوبارہ حکمران بنا ہے تو جس طرح زردار ی کے لئے انتظار کیا ، اس طرح اس کے لئے بھی تھوڑا سا انتظار کرلیتے ۔تم لوگ اتنے تگڑے اور بہادر ہو تو پرویز مشرف اور عمران خان کو سزا دلوادو۔ میں نے امی کو سمجھایا کہ یہ میاں صاحب کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے لیکن مجھے لگا کہ امی کی تمام تر ہمدردیاں ان کی طرف منتقل ہوگئی ہیں ۔گزشتہ چند ماہ کے دوران جب میں ان کے ساتھ بیٹھتا تو وہ وقتاً فوقتاً مجھ سے بیگم کلثوم نواز کی صحت کے بارے میں دریافت کرتیں اور جب میں احوال دے دیتا تو وہ ان کو خصوصی دعائیں دینے لگ جاتیں۔ گزشتہ جمعہ کو جب میاں صاحب اور مریم نواز صاحبہ پاکستان آرہے تھے تو میں ہارون احمد بلور کی وفات پر تعزیت کے لئے پشاور گیا ہوا تھا۔چونکہ بلاول بھٹو نے بھی اس روز تعزیت کے لئے پشاور آنا تھا اس لئے شام کو پشاور ہی میں ہمایوں خان کے گھر پر ان کے ساتھ انٹرویو کی ریکارڈنگ طے تھی ۔ میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا کہ بار بار گھر سے فون آنے لگے ۔بلاول اپنا قصہ سنارہے تھے کہ کس طرح لاہور ائر پورٹ سے ان کے
جہاز کواڑنے کی اجازت نہیں ملی لیکن عمران خان صاحب کے جہاز کو خصوصی اہتمام کے ساتھرروانہ کیا گیا ۔ بتارہے تھے کہ کس طرح اب ان پر انتظامیہ کی طرف سے دبائو ڈالا جارہا ہے کہ سیکورٹی خطرات کی وجہ سے پشاور کینٹ میں واقع ہمایوں خان کے گھر سے باہر نہ نکلیں اور ملاکنڈ کا دورہ ملتوی کردیں۔میں نے بات نہیں کی تو بیوی کا ایس ایم ایس آیا کہ ایمرجنسی ہے اس لئے جلدی کال بیک کرلیں۔
میں نے بات کی تو بیوی نے بتایا کہ جب سے نوازشریف اور مریم کی گرفتاری کی خبر سنی ہے امی جان رو رہی ہیں اور اب تو کھانا اور دوائی بھی نہیں لے رہیں ۔ میں نے امی جان کو سمجھا بجھا کر کہا کہ یہ تو پاکستانی سیاست ہے اور اس میں تو یہ چیزیں معمول ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر نوازشریف نے کرپشن کی ہے تو کیا یہ باقی فرشتے ہیں ۔ ان کی سیدھی سادی دلیل یہ تھی کہ کیا ان لوگوں کی مائیں بہنیں نہیں ہیں جو میاں نوازشریف اور مریم کو مجبور کررہے تھے کہ بیگم کلثوم نواز کو موت و حیات کی کشمکش میں
چھوڑ کر وہ پاکستان گرفتاری دینے چلے آئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اگر کلثوم نواز کو ہوش آیا بھی تو کیا وہ صدمے سے مر نہیں جائیںگی جب ان کو پتہ چلے گا کہ ان کے میاں اور بیٹی کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور اس بیٹی کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی کہ جو اپنی ماں کو موت کی آغوش میں چھوڑ کر باپ کے ساتھ گرفتاری دینے پاکستان چلی آئی ؟۔ پھر کہنے لگی کہ بیٹے تم نے اس ویڈیو میں نوازشریف کی بوڑھی ماں کی حالت دیکھی ہے ، کیا تم لوگوں کو ان پر بھی ترس نہیں آتا ۔ یہ کہہ کر امی کے ضبط کا بندھن پھر ٹوٹ گیا اور ایک بار پھر زاروقطار رونے لگی ۔
میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ میں اپنی ماں کو رونے نہ دوں ۔ کچھ دنوں سے یہ سوچ سوچ کر دماغ پھٹ رہا ہے کہ میری ماں کو کس نے رلادیا۔ خود میاں نوازشریف نے یا پھر ان کے مخالفین نے ۔ ذمہ دار جو بھی ہوں ۔ میاں نوازشریف ہوں یا پھر ان کے مخالفین ، ان سے بس ایک التجا ہے کہ جو کرنا ہے کرلیں ۔ ذاتی ، ادارہ جاتی اور سیاسی مفادات کے لئے جس حد تک جانا چاہتے ہیں چلے جائیں لیکن تمہیں تمہاری مائوں کا واسطہ کہ مائوں کو نہ رلائو۔ اس ملک پر اور بالخصوص اس کی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں پر رحم کرو۔
Source: Jung News
Read Urdu column Meri maa ko kis nay rulaya By Saleem safi