مائنڈ گیم – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

میرا ایک غیرملکی دوست جب کچھ عرصے کے لئے پاکستان آیا تھا تو اُس نے کچھ روز یہاں خود ڈرائیونگ کی۔ واپس جانے سے پہلے اس نے پاکستان میں گاڑی چلانے کے طریقے پر اپنی ایک تھیوری بتائی۔ اُس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈرائیونگ اصولوں اور مہارت کا کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مائنڈ گیم ہے۔ آپ نے اِس مائند گیم میں آگے اور برابر گاڑی چلانے والے ڈرائیوروں کویہ باور کراناہوتا ہے کہ آپ اُن کی گاڑی میں اپنی گاڑی ٹکرانے کے لئے اُن سے زیادہ تیار ہیں۔ یہ مائنڈ گیم جو جیت جاتا ہے، اس کو پہلے راستہ مل جاتا ہے۔

جب ملک میں بڑے بڑے مسٔلوں کی بات ہو رہی ہو جیسا کہ سینیٹ الیکشن، معیشت، کورونا وغیرہ تو ایسے میں ٹریفک کی صورتحال پر بات کرنا عجیب سا لگتا ہے لیکن یہ ایک اہم اور شاید اہم ترین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ ٹریفک حادثات میں ہر سال بہت سی جانیں جاتی ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 2018میں پاکستان میں 30ہزار 46لوگ ٹریفک حادثات کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور یاد رکھیں کہ یہ صرف وہ اموات ہیں جو رپورٹ ہوئی ہیں۔

تقریباً اب ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی خبر آتی ہے کہ کوئی بڑا ٹریفک حادثہ ہو گیا ہے جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر مختلف شہروں کے ٹریفک گروپس بنے ہوئے ہیں جہاں روز کی بنا پر ہونے والے ٹریفک حادثات کی تصاویر لگائی جاتی ہیں اور اگر آپ گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے ہیں تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ہمارا ٹریفک کا نظام بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے حالانکہ اسلام آباد میں بھی، جہاں یہ معاملہ قدرے بہتر سمجھا جاتا تھا، میں حالات خراب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن آخر کیوں؟

میرے ایک اور دوست، جو جرمنی میں ٹریفک مینجمنٹ کے ماہر ہیں اور اُن کا تعلق بھی پاکستان سے ہے، سے اِس معاملہ پر تفصیلاً بات ہوئی۔ اُن کے مطابق پاکستان میں پہلا مسئلہ تو ڈرائیونگ لائسنس دینے کا ناقص نظام ہے۔ جن ممالک میں لائسنس ملنا آسان نہیں ہوتا بلکہ اُس کے لئے تھیوری اور ڈرائیونگ ٹیسٹ دونوں پاس کرنا لازمی ہوتے ہیں، وہاں ٹریفک حادثات کی شرح قدرے کم ہے۔ اُن ممالک میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کسی ایک مخصوص جگہ پر بھی نہیں ہوتا بلکہ عام روڈ پر ہوتا ہے جس میں تمام عادتیں اور حرکتیں نوٹ کی جاتی ہیں، اُس کے لئے باقاعدہ کلاسیں بھی لینا پڑتی ہیں اور اس طرح اچھی عادات ڈرائیوروں کو ازبر کرا دی جاتی ہیں اور لائسنس بھی صرف اُن کو دیا جاتا ہے۔ کئی ممالک میں مثلاً کینیڈا اور جرمنی میں تو ڈرائیونگ لائسنس کے روڈ ٹیسٹ ایک سے زیادہ ہوتے ہیں جن کا دورانیہ کم از کم دو سال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن ممالک میں ٹریفک اور بھی زیادہ محفوظ ہوتی ہے۔ہمارے ہاں تو گھر بیٹھے بھی لائسنس بن جاتا ہے اور اگر بڑے شہروں میں نظام بہتر بھی ہو تو چھوٹے شہروں سے لوگ لائسنس بنوا لیتے ہیں۔

دوسرا مسئلہ اُن کے مطابق ٹریفک قوانین کی پاسداری نہ کرنے کا ہے۔ ہمارے ہاں ٹریفک قوانین توڑنے پر چالان کاٹنے کے علاوہ کوئی اور سزا نہیں ملتی۔ جن ممالک میں ٹریفک کا نظام بہتر ہے وہاں پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان کے ساتھ پوائنٹس بھی لگائے جاتے ہیں اور جب کسی مخصوص عرصے میں، مخصوص پوائنٹس اکٹھے ہو جائیں تو لائسنس کینسل کر دیا جاتا ہے۔ خطرناک ڈرائیونگ یا لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ وغیرہ پر جیل بھی بھیجا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں صرف چالان ہو تا ہے اور جرمانہکی رقم بھی اتنی نہیں ہوتی کہ کوئی شخص دوبارہ کوئی خلاف ورزی کرنے سے پہلے بار بار سوچے۔

مسئلہ صرف چالان، سزا یا لائسنس کا بھی نہیں ہے بلکہ ہمارے رویّے کا بھی اِس میں بہت عمل دخل ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو قانون توڑتا ہے، اسے بڑی چیز سمجھا جاتا ہے اور جو قانون پر عمل کرتا ہے اس کو کمزور اور بزدل کہا جاتا ہے۔ یہ رویہ بالخصوص ڈرائیونگ کے لحاظ سے بھی دیکھا جاتا ہے اور ہمارے نوجوانوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کا خاتمہ صرف سختی سے قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے سے ممکن ہے۔ وہی لوگ جو عام طور پر سیٹ بیلٹ بھی نہیں لگاتے، جب موٹروے پر آتے ہیں تو ان کا رویہ بالکل بدل جاتا ہے کیونکہ موٹر ویز پر نہ صرف اُن کی پکڑ ہوتی ہے بلکہ اُنہیں نسبتاً بھاری چالان بھی دیا جاتا ہے۔

اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ آئے روز حادثات میں قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اِن میں بہت سے حادثات ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں اور ان تمام حادثات کا ایک معاشی منفی اثر بھی ہوتا ہےکیونکہ ایسے ٹریفک حادثات 1سے2 فیصد جی ڈی پی تک کا نقصان قومی معیشت کو پہنچاتے ہیں ۔ یہمعاملہ روز بروز بگڑتا جا رہا ہے اور اس پر سنجیدگی سے حکومتی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ معاملہ بگڑتا چلا جائے اور بات وہاں تک آ پہنچے کہ اِس مائنڈ گیم میں سب ہی ہارنا شروع ہو جائیں اور سب ہی ایک دوسرے سے ٹکرانے کے لئے آخری حد تک تیار ہو جائیں۔

Must Read Urdu column Mind Game By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.