مجھے سانس نہیں آ رہا – علی معین نوازش
دنیا اس وقت جہاں ایک طرف کورونا وائرس سے مقابلہ کر رہی ہے اور سماجی فاصلہ اور احتیاطی تدابیر پر زور دیا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف دنیا بھر میں ایک کے بعد ایک بڑی مصیبت سامنے آتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں جہاز کا کریش ہونا، بھارت اور چین کی بڑھتی کشیدگی، اسی طرح مختلف جگہوں پر مختلف مشکلات جنم لے رہی ہیں۔ لیکن امریکہ میں جہاں کورونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض ہیں، اور وہیں کورونا کے سبب سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں( تادمِ تحریر صرف امریکہ میں 18لاکھ سے زائد کورونا کے کیسز رپورٹ اور 1لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں)اِس وقت وہاں کورونا سے بھی ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور وہ ہے پُرتشدد مظاہرے۔ امریکہ میں گزشتہ ہفتے سے پُر تشدد مظاہرے ہو رہے ہیں۔ جہاں پر توڑ پھوڑ کیساتھ ساتھ عمارتوں، گاڑیوں، دکانوں کو آگ بھی لگائی جا رہی ہے۔ 25شہروں اور 16امریکی ریاستوں میں اِس وقت کرفیو نافذ ہے لیکن مسلسل اتنے دنوں سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔ کچھ ریاستوں اور علاقوں میں فوج اور نیشنل گارڈ (جو رینجرز کی طرح وہاں کا ایک قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے) کو بھیج دیا گیا ہے اور کچھ میں انہیں تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے لیے شاید یہ نارمل بات ہو مگر امریکہ میں یہ بہت غیر معمولی بات ہے۔ اس وقت وہاں کورونا یا سماجی فاصلہ نہیں بلکہ مظاہرین کا مقصد اہم ہے۔
اِس سب کی بنیاد تو شاید کافی صدیوں پہلے رکھی گئی جب افریقہ سے سیاہ فام لوگوں کو غلام بنا کر امریکہ اور یورپ لیجایا گیا اور ان کو بدترین غلامی میں رکھا گیا۔ لیکن حالیہ چنگاری منی اپپلس (Minneapolis) کے شہر میں ہونے والے ایک واقعہ سے بھڑکی۔ جارج فلویڈ ایک سیاہ فام امریکی تھا جس پر ایک دکان والے نے الزام لگایا کہ اِس نے 20ڈالر کا جعلی نوٹ دیا ہے۔ اس پر پولیس آئی اور اسے گرفتار کر لیا۔ ایک پولیس والے نے اس کو ہتھکڑیاں لگا کر زمین پر گرا دیا اور اس کی گردن پر گھٹنا ٹکا دیا۔ وہ کہتا رہا کہ مجھے سانس نہیں آرہا لیکن پولیس والے نے اپنا گھٹنا نہیں اٹھایا اور پھر جب ایمبولینس آئی تو وہ اپنی جان کی بازی ہار چکا تھا۔ پولیس کا یہ موقف سامنے آیا کہ وہ اپنی گرفتاری کے خلاف مزاحمت کر رہا تھا لیکن موبائل فون سے بنی وڈیوز نے اِس بیان کو غلط ثابت کر دیا۔ اگر یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہوتا تو شاید امریکہ میں اتنا انتشار اور غصہ نہ پھیلتا لیکن سیاہ فام امریکی، جن کو اپنے پورے حقوق محض 55سال پہلے ملے ہیں، کو پولیس جو زیادہ تر گوروں پر مشتمل ہے، کی حراست میں اسی طرح بدترین سلوک کے بعد مار دیا جاتا رہا ہے۔ اِس سلوک کے خلاف ایک پوری مہم چلی جس کو Black Lives Matter(سیاہ فام لوگوں کی جان کی بھی قدر ہے) کا نام دیا گیا۔ یہ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ پولیس کے غلط برتاؤ کے خلاف ایک مضبوط آواز تھی۔
حالیہ عرصے میں رائٹ ونگ، فار رائٹ، کنزرویٹو اور وائٹ سپرمیسٹ سوچ کو زیادہ تقویت ملی ہے جس کے نتیجے میں دنیا کو ڈونلڈ ٹرمپ جیسے امریکی صدر کے طور پر نصیب ہوئے ہیں تو اِس نسل پرستی نے زیادہ بری شکل اختیار کر لی ہے۔ اور آج اِس کی مزید بدترین شکل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پولیس نے پہلے اس پولیس آفیسر اور اس کے تین ساتھیوں کو صرف معطل کیا اور بعد ازاں نوکری سے نکال دیا اور معاملے کو دبانے کی کوشش کی۔ لیکن عوام کا اِس قدر ردعمل آیا کہ آخرکار گھٹنا گردن پر رکھنے والے پولیس افسر کو قتل کے جرم میں گرفتار کرنا پڑا۔ لیکن باقی تین جو یہ سب دیکھ رہے تھے، انہیں کچھ نہیں کہا گیا۔ اِس پر مظاہرین اپنے احتجاج میں اور پختہ ہو گئے لیکن اب شاید معاملہ صرف جارج فلویڈ تک محدود نہیں رہ گیا، یہ ایک بڑی انقلاب پذیر تحریک بنتی جا رہی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اِس احتجاج میں صرف سیاہ فام نہیں بلکہ تمام نسلوں کے لوگ شامل ہیں جو انسانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ تاہم پولیس کا مظاہرین کے ساتھ رویہ اب بھی غلط ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں جہاں صحافتی آزادی کی مثالیں دی جاتی ہیں سی این این کے رپورٹر اور ٹیم کو پولیس نے مظاہرے کی لائیو کوریج کرنے پر حراست میں لے لیا۔ اب دیکھنا ہے کہ اِس سب کا اختتام کہاں جا کر ہوتا ہے۔
یہ واقعہ اور مسئلہ صرف امریکہ کا نہیں ہے۔ اِس میں دنیا کے تمام ممالک کے لیے اہم سبق ہے۔ جب بھی کوئی ایک طبقہ یا مخصوص نسل کے لوگ دبائے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ناانصافیاں بڑھتی جاتی ہیں تو ایک نہ ایک دن نہ صرف وہ بلکہ دیگر افراد بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر آواز بلند کرتے ہیں اور اس طرح کے احتجاج میں امن کم ہی برقرار رہتا ہے۔ کوئی کتنا بھی آج کمزور کیوں نہ ہو ایک نہ ایک دن اس کا بھی دن آ ہی جاتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن دو چیزوں کے لیے انسان ضرور لڑا اور قربانیاں دیں وہ اس کی آزادی اور اس کے حقوق ہیں۔ دنیا کی تمام ریاستوں، طاقتور طبقات، گروہوں اور اداروں کو اِس سے سیکھنا چاہیے کہ وہ اگر کہیں بھی اپنے لوگوں کے حقوق سلب کر رہے ہیں، ان کے ساتھ ناانصافیاں کر رہے ہیں تو کسی نہ کسی دن کہیں سے ’’مجھے سانس نہیں آ رہا‘‘ جیسی آواز ایک نہ روکی جانے والے تبدیلی کی لہر کو جنم دے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998
Must Read Urdu column Muje Sans nahin a rahi By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang