ملک کا واحد سیاست دان – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

میاں نواز شریف 2018 کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ گئے تھے‘ 11ستمبر 2018کو بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہو گیا‘ میاں صاحب تین دن کے لیے پیرول پر رہا ہوئے‘ مولانا فضل الرحمن تعزیت کے لیے جاتی عمرہ گئے‘ ملاقات کے دوران مولانا نے میاں صاحب کو مشورہ دیا‘ آپ جیل میں ہیں لیکن آپ کی پارٹی باہر ہے‘ آپ اپنے لوگوں کو متحرک کریں اور عمران خان کی حکومت کے خلاف کوئی تگڑی تحریک شروع کریں ورنہ عمران خان آپ کو سیاسی قبر میں دھکیل دے گا‘ مولانا نے اپنے دلائل کے آخر میں کشمیریوں سے متعلق یہ لطیفہ بھی سنا دیا‘ مہاراجہ پرتاب سنگھ نے کشمیریوں کی فوج بنائی تھی‘ اس نے اپنے سپاہیوں کو رائفلیں بھی دیں اور ٹریننگ بھی لیکن جب لڑائی کا وقت آیا تو مہاراجہ نے دیکھا سپاہی اپنی رائفلیں دھوپ میں رکھ کر خود سائیڈ پر بیٹھے ہیں۔

مہاراجہ نے سپاہیوں سے پوچھا ’’تم رائفلیں کیوں نہیں چلا رہے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’تپسی تے ٹھس کرسی‘‘ (گرم ہو گی تو خود ہی چل جائے گی) مولانا کا میاں صاحب سے کہنا تھا آپ بھی رائفل دھوپ میں رکھ کر بیٹھ گئے ہیں جب کہ یہ لڑنے کا وقت ہے‘ خود بھی باہر نکلیں اور اپنے کارکنوں کو بھی نکالیں‘ یہ وقت خاموش بیٹھنے کا نہیں‘ میاں صاحب کا جواب تھا‘ مولانا صبر کریں‘ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے جب آندھی چلے تو انسان کو خاموش ہو کر بیٹھ جانا چاہیے اور اپنے وقت کا انتظار کرنا چاہیے‘ آپ بھی خاموش بیٹھ جائیں ہمارا وقت ان شاء اللہ ضرور آئے گا‘ مولانا نے میاں صاحب سے اتفاق نہیں کیا لیکن بہرحال یہ میٹنگ ختم ہو گئی‘ میاں نواز شریف بعدازاں لندن میں جلا وطن ہو گئے جب کہ مولانا نے اکتوبر2019 میں اسلام آباد کی طرف مارچ کیا‘ مولانا شور کرتے رہے اور میاں نواز شریف خاموشی سے بیٹھے رہے‘ یہ لندن میں اپنے گھر میں روزانہ یوتھیوں سے گالیاں بھی کھاتے تھے۔

شریف فیملی کے فلیٹس کے سامنے پی ٹی آئی کے ورکرز روزانہ نعرے لگاتے تھے‘ گالیاں دیتے تھے اور بدتمیزی کرتے تھے‘ یہ لوگ جہاں بھی جاتے تھے یوتھیے ان کا گھیراؤ کر لیتے تھے‘ وہ وقت خوف ناک تھا مگر میاں نواز شریف نے اسے خاموشی اور صبر کے ساتھ برداشت کیا اور پھر وقت پلٹ گیا‘ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے پیچھے سے ہٹ گئی جس کے بعد پی ڈی ایم بنی‘ عدم اعتماد ہوئی اور میاں شہباز شریف جیل اور عدالتوں سے نکل کر وزیراعظم بن گئے اور یہ آج دوسری مرتبہ وزیراعظم ہیں جب کہ مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے اس سارے قضیے کے دوران ایک چیز سیکھی‘ خاموش بیٹھیں اور اپنے وقت کا انتظار کریں‘ پی ڈی ایم مولانا نے بنائی تھی‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو بھی انھوں نے عمران خان کے خلاف اکٹھا کیا تھا اور اقتدار کے نئے کھیل کے کوچ بھی یہی تھے مگر پھر زرداری صاحب اور میاں صاحب ڈائریکٹ ہو گئے‘ انھوں نے ڈیل کر لی اور مولانا کو ان کے حصے کے مطابق حصہ نہ ملا‘ مولانا کو توقع تھی اسٹیبلشمنٹ کے پی ان کے حوالے کر دے گی‘ نگران دور میں انھیں کے پی ملا بھی‘ مولانا کے سمدھی حاجی غلام علی گورنر بنا دیے گئے اور نگران حکومت کی اہم ترین وزارتیں جے یو آئی کو دے دی گئیں لیکن مولانا اس ’’فیور‘‘ کو الیکشن میں تبدیل نہ کر سکے‘ مولانا صدر بھی بننا چاہتے تھے۔

پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی قیادت باتوں باتوں میں انھیں صدارت کا اشارہ بھی دیتی رہتی تھی ‘ مولانا یہ بھی چاہتے تھے دونوں بڑی پارٹیاں جے یو آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹ منٹ کرلیں تاکہ ان کے ارکان بھی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں اورمولانا آخر میں الیکشن بھی ملتوی کرانا چاہتے تھے مگر دونوں بڑی جماعتیں مولانا کی ان خواہشات کے ساتھ کھیلتی رہیں لیکن ان کی یہ خواہشات پوری نہیں کیں‘دونوں جماعتوں نے الیکشن سے قبل مولانا سے رابطے منقطع کر دیے اور یہ عملاً اکیلے ہو گئے‘ الیکشن کے نتائج نکلے تو قومی اسمبلی میں مولانا کے ہاتھ میں صرف سات سیٹیں آئیں‘ کے پی اسمبلی میں انھیں صرف 9سیٹیں ملیں تاہم بلوچستان اسمبلی میں ان کی 14سیٹیں تھیں‘دوسری طرف کے پی میں پی ٹی آئی نے دو تہائی اکثریت لے لی اور عمران خان نے ان کے حریف علی امین گنڈا پور کو وزیراعلیٰ بنا دیا‘ الیکشن کے بعد آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے بھی مولانا کو اگنور کر دیا چناں چہ مولانا سیاسی لحاظ سے شدید زخمی ہو گئے اور ان کے پاس میاں نواز شریف کی طرح خاموش بیٹھنے اور وقت کے انتظار کے سوا کوئی چارہ نہ رہا لہٰذا مولانا نے بھی اپنی رائفل دھوپ میں رکھ دی۔

یہ بھی برداشت اور صبر کرنے لگے اور پھر اس کا نتیجہ نکل آیا‘ مولانا کا گھر ایک بار پھر آباد ہو گیا اور پی ٹی آئی کی قیادت بھی ان کے گھر کا طواف کرنے لگی اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی یوں مولانا پورے سسٹم کے لیے ناگزیر ہو گئے‘ مولانا نے اس وقت کو مکمل استعمال کیا‘ یہ زرداری صاحب کو بھی کھینچ کر اپنے دروازے پر لے کر آئے‘ وزیراعظم شہباز شریف کو بھی اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی جب کہ پی ٹی آئی نے تو مولانا کے گھر کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا تھا‘ بلاول بھٹو نے مولانا سے اٹھارہ ملاقاتیں کیں‘ وہ میاں نواز شریف جو مولانا کا فون نہیں سنتے تھے وہ انھیں اپنے گھر کھانے کی دعوت دینے پر مجبور ہو گئے‘ ستمبرمیں ایک ایسا وقت بھی آیا جب وزیراعظم نے مولانا کے گھر آنے کی خواہش ظاہر کی اور مولانا نے انکار کر دیالہٰذا آپ مولانا کا کمال دیکھیے‘ یہ صرف 12 سیٹوں (پانچ سینیٹرز اور سات ایم این ایز) کے ساتھ پورے سسٹم کو کھینچ کر اپنی دہلیز پر لے آئے۔

یہ ترامیم کو بھی 20 اکتوبر تک کھینچ لائے اور سب سے باقاعدہ ناک سے لکیریں نکلوائیں اور آخر میں سب کو اپنی تعریف پر بھی مجبور کر دیا‘ آج اسٹیبلشمنٹ بھی ان کی ممنون ہے‘ عمران خان بھی جیل میں ان کی تعریف کر رہے ہیں‘ پی ٹی آئی کی قیادت بھی مولانا زندہ باد کے نعرے لگا رہی ہے‘ بلاول بھٹو نے بھی قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کرا ن کی تعریف کی‘ میاں نواز شریف نے بھی بار بار مولانا کا شکریہ ادا کیا‘ وزیراعظم اور صدر بھی ان کے ممنون ہیں اور ان سب کے ساتھ ملک بھر کے علماء کرام بھی مولانا کا ماتھا چوم رہے ہیں‘ یہ انھیں پاکستان میں اسلام کا محسن قرار دے رہے ہیں لہٰذا پھر کام یاب کون ہوا اور سیاست دان پھر کون ہوا؟ مولانا یا پھر باقی تمام سیاسی لیڈرز!۔

میں دل سے سمجھتا ہوں مولانا فضل الرحمن پاکستانی سیاست کی ایک بہت بڑی کیس اسٹڈی ہیں‘ ان کا باقاعدہ مطالعہ بھی ہونا چاہیے اور ان پر پی ایچ ڈی بھی‘ آپ مولانا کا کمال دیکھیں ریاست نے ان کے آدھے ارکان قابو کر لیے تھے‘ بلاول بھٹو اور اعظم نذیر تارڑ انھیں بار بار بتا رہے تھے حکومت نے ہر صورت ترامیم کرنی ہیں‘ ریاست کے پاس آپ اور پی ٹی آئی کے لوگ موجود ہیں‘ آپ کے ارکان آپ سے الگ ہو کر بھی ووٹ دے دیں گے اور اس سے آپ کی پارٹی ٹوٹ جائے گی لیکن مولانا اس کے باوجود پیچھے نہیں ہٹے اور حکومت کو ان کی پارٹی توڑنے کی جرات بھی نہیں ہوئی‘ پی ٹی آئی اور عمران خان دس سال مولانا کو کیا کیا کہتے رہے‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف بھی انھیں میدان میں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی انھیں فراموش کر دیا تھا لیکن مولانا ان سب کو واپس بھی لے کر آئے اور انھیں اپنی تعریف پر بھی مجبور کر دیا جب کہ ان کے مقابلے میں عمران خان ملک کے مقبول ترین لیڈر‘ کے پی میں دو تہائی کی حکومت کے مالک‘ قومی اسمبلی میں80ایم این اے اورسینیٹ میں 17سینیٹرز رکھنے کے باوجود کہاں ہیں؟ یہ‘ ان کی بیگم‘ دو بہنیں اور بھانجا جیل میں ہیں اور پارٹی کے اندر چار گروپ بن چکے ہیں۔

شاہ محمود قریشی کی قیادت میں فارورڈ بلاک بھی تیار ہے‘ پرویز الٰہی پارٹی چھوڑ کر لاہور میں بیٹھ گئے ہیں‘ سوشل میڈیا ٹیم ٹوٹ چکی ہے اور تمام فنانسرز اور سہولت کار بھی فرار ہو چکے ہیں‘ دوسری طرف میاں نواز شریف بھی وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت کے باوجود زخمی اور اداس بیٹھے ہیں‘ ان کے متھے فارم 47 لگ گیا ہے تاہم مولانا کے بعد میاں شہباز شریف بھی کام یاب سیاست دان ثابت ہوئے ہیں‘ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا ان کے ہاتھ میں وزیراعظم کی لکیر نہیں لیکن یہ لکیر کی کمی کے باوجود دوسری بار وزیراعظم بنے‘ ان کے پاس کل(اصل) 17 ایم این اے ہیں مگر یہ اس کے باوجود وزیراعظم ہیں‘ یہ ملک اور شریف فیملی کے پہلے ایسے وزیراعظم بھی ثابت ہوں گے جو پانچ سال پورے کرے گا لہٰذا پھر کام یاب کون ہوا؟ مولانااور شہباز شریف یا پھر قیدی نمبر 804۔

عمران خان کے پاس بھی اب دو آپشن تھے‘ یہ نواز شریف اور مولانا کی طرح اپنی رائفل دھوپ میں رکھ کر خاموش بیٹھ جاتے اور اپنے وقت کا انتظار کرتے‘ آپ یقین کریں ان کا وقت بہت جلد آ جانا تھا اور دوسرا یہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح شور کر کے اپنی سزا اور مسائل میں اضافہ کر لیتے‘ عمران خان بدقسمتی سے دوسرے راستے پر نکل گئے ہیں اور یہ آج اکیلے ہو چکے ہیں‘ سیاست اسپورٹس کی طرح ہوتی ہے‘ان دونوں کا مقصد جیتنا ہوتا ہے۔

آپ نے اگر اقتدار میں نہیں آنا تو پھر سیاست کی کیا ضرورت ہے؟ آپ خدمت خلق کریں اور ثواب اور عزت کمائیں‘ آپ نے اگر 80ایم این اے اور سب سے زیادہ ووٹ لے کر بھی جیل میں ہی بیٹھنا ہے اور اپنی خواتین کو بھی بٹھانا ہے تو پھر سیاست پر لعنت بھیجیں‘ اس کا پھر آپ کو کیا فائدہ ہوا؟ لہٰذا عمران خان کو اب سیاست مولانا سے سیکھنی چاہیے بلکہ نہیں رکیے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو بھی اب مولانا کو اپنا استاد مان لینا چاہیے کیوں کہ ملک میں اب سیاست دان صرف ایک ہے اور اس کا نام ہے مولانا فضل الرحمن‘ یہ حقیقتاً سب پر بھاری ہیں اور سب کو اب ان کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہیے۔

Source: Express News

Must Read Urdu column Mulk ka Wahid Siasatdan By Javed Chaudhry

Comments are closed.