بھٹو، صدام، قذافی کے بعد اب کون؟ – اوریا مقبول جان
جمہوریت کے مزاج میں شروع دن سے اُکتاہٹ، بے چینی اور اضطراب رکھ دیا گیا ہے۔ دُنیا بھر میں سیاسی پارٹیوں کا وجود، الیکشنوں کا انعقاد اور ان کی گہما گہمی ایک ایسا فریبِ نظر ہے جس کی چکا چوند میں انسان فیصلے کرنے والی بینائی سے محروم ہو جاتا ہے۔ آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک، آپ تمام جمہوریتوں کا جائزہ لیں، آپ حیران رہ جائیں گے کہ یہ موجودہ انسانی، تہذیبی، معاشی اور اخلاقی ڈھانچے کو بدلنے پر قادر ہی نہیں ہیں جو آج سے ایک سو سال پہلے اس جدید نظام کو عالمی سطح پر منظم کرنے والوں نے بنایا تھا۔ اس عالمی جمہوری سرمایہ دارانہ سُودی نظام کے ممبر ممالک کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ یادش بخیر کیمونزم کو رُخصت ہوئے 30 سال ہو گئے، اس لئے اب دُنیا پر موجود بادشاہت ہو، فوجی آمریت یا جمہوری سلطنت سب کے سب اس نظام کا حصہ ہیں اور کوئی اس سے بغاوت کی جرأت نہیں کر سکتا۔ دُنیا کا یہ پورا نظام ایک معاشی بنیاد پر استوار ہے، جسے عالمی مالیاتی (Monetary) سسٹم کہتے ہیں۔ دُنیا کی کوئی بادشاہت یا جمہوریت اس سے بغاوت کا حوصلہ نہیں رکھتی۔
کوئی سیاسی پارٹی خواہ برطانیہ میں الیکشن لڑ رہی ہو یا پاکستان جیسے ’’نازک اندام‘‘ جمہوریت والے ملک میں، کسی طور پر بھی مصنوعی کاغذی کرنسی، سنٹرل بینک اور عالمی تجارت میں معیارِ تبادلہ (Exchange) کے لئے ڈالر سے بغاوت نہیں کر سکتی۔ اسی طرح پہلی جنگِ عظیم کے بعد قومی ریاستوں کی جو حدود و قیود یعنی عالمی سرحدیں طے کر دی گئیں تھیں، سیاسی پارٹیاں ان کی تبدیلی کے نعرے تو بلند کر سکتی ہیں، الیکشن میں ووٹ بھی مانگ سکتی ہیں لیکن عالمی اسٹیبلشمنٹ جو اس نظام کی ضامن ہے اس کی مرضی کے بغیر انہیں تبدیل نہیں کر سکتیں۔ اسی طرح انسانی حقوق، آزادیٔ اظہار، حقوقِ نسواں، جیسے اہم موضوعات کے تحت بنائے گئے عالمی پروٹوکولز (Protocols) ایک وسیع دائرۂ اختیار رکھتے ہیں۔ اس کے تحت بنائے گئے آئیڈیلز کے حصول کے لئے کسی بھی ملک کو مجبور کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ ملک ایسا نہ کرے تو اس کا ناطقہ بھی بند کیا جا سکتا ہے۔
دُنیا کے کسی ملک کی کوئی سیاسی پارٹی اس عالمی ڈھانچے سے باہر رہ کر کسی مختلف نظامِ حکومت کی تشکیل کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس کی مثال اپریل 1995ء سے اکتوبر 2001ء تک افغانستان میں قائم مُلّا محمد عمرؒ کی طالبان حکومت تھی جس کے خاتمے کے لئے پہلے گیارہ ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کا تھیٹر آباد کیا گیا، پھر پوری دُنیا اس ملک پر حملہ آور ہو گئی اور بیس سال اس کے در و بام کو خاک و خون میں نہلایا گیا، بدترین شکست کے بعد یہ عالمی قوتیں وہاں سے نکل تو گئیں لیکن طالبان نے جب دُنیا سے مختلف اپنے نظام کو ازسر نو جاری کرنے کی کوشش کی تو آج سات ماہ گزرنے کے باوجود ان کی حکومت تسلیم کی جا سکی ہے اور نہ ہی اسے عالمی تجارتی و مالیاتی زندگی میں سانس لینے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اس عالمی جمہوری سُودی و مالیاتی نظام کے خلاف جس نے بھی بغاوت کی کوشش کی اسے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ یکم نومبر 2000ء کو صدام حسین نے اعلان کیا کہ وہ اگلے ماہ سے اپنا تیل ڈالر کی بجائے یورو میں فروخت کرے گا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے ملک میں ڈالر کی حکمرانی ختم ہو جائے۔ عراق پر اس وقت پہلی عراقی جنگ کے نتیجے میں عالمی پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔
اقوام متحدہ نے ’’تیل برائے خوراک‘‘ کے پروگرام کے تحت اسے محدود اجازت بھی دے دی، لیکن اس کی اس گستاخی کی سزاء 2003ء میں عراق پر حملہ اور پھر صدام حسین کی پھانسی کے طور پر دی گئی۔ لیبیا کا کرنل معمر قذافی افریقی ممالک کی تنظیم ’’افریقن یونین‘‘ کا 2009ء میں سربراہ بنا۔ ایک مدت سے افریقہ کے تیل برآمد کرنے والے ممالک خود کو ڈالر سے علیحدہ کر کے اپنی کرنسی بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ قذافی نے عالمی سُودی نظام کے بالکل برعکس اپنے ملک کی معیشت کو پہلے ہی سے ڈھال کر دکھا دیا تھا کہ ایسا بالکل ممکن ہے۔ اس کا بہت بڑا انفراسٹرکچر کا منصوبہ ’’انسانوں کا بنایا ہوا دریا‘‘ (Man Make River) تھا، جس پر 133 ارب ڈالر خرچ ہوئے اور اس نے یہ تمام سرمایہ لیبیاء کے سنٹرل بینک سے بغیر سُود کے قرضے کے طور پر فراہم کیا، جس نے خشک علاقوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ یہ دُنیا کا واحد منصوبہ تھا جو کسی عالمی سُودی قرضے کے بغیر مکمل ہوا۔ لیبیاء کے پاس 143 ٹن سونے کے ذخائر تھے اور اتنی ہی مقدار میں اس کے پاس چاندی کے ذخائر بھی موجود تھے۔ اس نے افریقن یونین کے 2009ء کے سربراہی اجلاس میں یہ پیشکش کی کہ اس کے سونے اور چاندی کے ذخائر سے افریقہ ایک کرنسی کا آغاز کرے اور اس مصنوعی اور جعلی کاغذی کرنسی سے نجات حاصل کرے۔ قذافی کا لیبیاء عالمی مالیاتی نظام سے معاشی آزادی کی ایک مثال تھا۔ وہ خوراک، پانی، سرمائے، تیل غرض ہر چیز میں کسی عالمی طاقت کا محتاج نہیں تھا۔ قذافی کی اس گستاخی پرسب سے پہلے فرانس کے صدر سرکوزئی نے 2011ء کے آغاز میں اسے فون کر کے دھمکی دی کہ ’’تم دُنیا بھر کی معاشی سکیورٹی کے لئے ایک خطرہ بن رہے ہو اور تم نے افریقہ میں ایک معاشی بغاوت برپا کر دی ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ صرف ساٹھ لاکھ کی آبادی کا چھوٹا سا ملک پوری دُنیا کے مالیاتی نظام کو چیلنج کرے۔
ہم تمہیں نشانِ عبرت بنا دیں گے‘‘۔ اس کے بعد جو ہوا وہ عالمی تاریخ کے بدترین اور عبرتناک ڈرامے کا خونیں باب ہے۔ نیٹو کے طیاروں نے سب سے پہلے اس بڑے اریگیشن سسٹم کو بمباری کر کے تباہ کیا جو ستر فیصد عوام کے لئے خوراک اور پانی فراہم کرتا تھا۔ اس کے بعد جس طرح اپنے پالتو کرائے کے قاتلوں کو اس ملک میں گُھسا کر وہاں طیاروں کے ذریعے اندھا دھند بمباری کی گئی اور پھر آخر میں قذافی کو سڑکوں پر گھسیٹ کر قتل کیا گیا۔ وہ غالب کے اس شعر کی تصویر تھا گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں جاندادۂ ہوائے سرِ رہ گزار تھا صدام اور قذافی آزاد اور خود مختار معیشتوں کے مالک تھے۔ پاکستان جیسی غلام اور مقروض معیشتوں میں تو کبھی کسی حکمران کی جنبشِ ابرو اور زبان کی لغزش بھی برداشت نہیں کی جاتی۔ عالمی سُودی نظام کے بھیڑیئے پاکستانی بکری کو اپنے خلاف ممیانے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔ بھٹو نشانِ عبرت بنایا گیا اور اب عمران خان کے خلاف جو کھیل برپا ہے، اس کو سمجھنے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے اس کے خلاف اتحاد میں شامل تمام سیاسی و مذہبی قیادت، امریکہ سے اجازت لے کر سانس لیتی ہے۔ ان لیڈروں نے وقت سے پہلے عمران خان کو فارغ کر کے اسے ہیرو بنانے کے عمل میں جس بے وقوفی کا ثبوت دیا ہے اور جو سیاسی خود کشی کی ہے، وہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک کیسے ہو گیا۔ عالمی مالیاتی نظام کے باغیوں کے انجام کے تناظر میں یہ سمجھنے میں بالکل دِقت نہیں کہ ان تمام لیڈروں کا ہدف کون ہے۔ کیا عمران خان بھٹو، صدام اور قذافی جیسے انجام سے بچ پائے گا؟ یہ آج کا اہم ترین سوال ہے
Source: 92 news
Must Read Urdu column Bhutto, Sadam, Qadafi k bad ab kon By Orya Maqbool jan