غلط ٹریک – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

عمران خان اور اُن کی حکومت اگر بہتر طور پر پرفارم کرتے اور بیانات سے بڑھ کر حقیقی طور پر پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرتے، اپنے بڑے بڑے وعدے اور 100دِن میں تبدیلی کے پلان پر عمل کرتے، تو آج نواز شریف اور آصف علی زرداری ہی کیاباقی تمام جماعتوں کی سیاست بھی ختم ہونے کے قریب ہوتی۔لیکن عمران خان کو یہ بات سمجھ ہی نہ آئی اور جب اُنہیں احساس ہوا کہ اُن کی انوکھی ٹیم نہ تو قابل ہے اور نہ ہی کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہےتو وہ پرفارمنس کی بجائے دوسرے ٹریک(پٹڑی) پر چل پڑے۔ یہ ٹریک پیکا ترامیم کے ذریعے میڈیا اور آزادیٔ اظہار پر پابندی کیساتھ ساتھ مخالفین کو جیل میں ڈال کر یا کسی بھی طرح نااہل کروا کے اُنہیں اگلے الیکشن سے پہلے ہی سیاست سے آؤٹ کرنے کا ٹریک تھا، جس کے بعد خان صاحب پِچ پر سارے میچز اکیلے ہی کھیلنا چاہتے تھے۔یقیناً یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی کہ باقی تمام سیاسی جماعتوں نے اتنا بڑا رِسک لے کر خان صاحب کی حکومت کو ایسے وقت میں ہٹایا جب اُن کی مقبولیت کو شدید دھچکا پہنچ رہا تھا یا پہنچنے والا تھامگر یہ مشکل کام اِس لیے کرنا ضروری تھا کہ دوسری طرف صرف تباہی نظر آ رہی تھی۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان کی اُس مقبولیت میں مزید اضافہ ہواہے جس میں اُن کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی ، اُنہوں نے امریکہ مخالف جذبات کو بھی اِسی مقصد کیلئے استعمال کیا ۔ اُن کی مقبولیت کے حجم اور شدت پر تو بحث کی جا سکتی ہے کہ کہاں کہاں، کس طرح اور کن حلقوں میں اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا؟عمران خان صاحب اور اُن کے حامی تو کہیں گے کہ یہ اضافہ پورے پاکستان میں ہوا ہے اور اگلے الیکشن میں وہ دو تہائی اکثریت کیساتھ کامیاب ہوں گے لیکن لطیفہ یہ ہے کہ اپنی مقبولیت کی انتہا اور خلائی مخلوق کی مدد کیساتھ تو وہ 2018کے الیکشن میں سادہ اکثریت لے نہ سکے،اب کیسے لے پائیں گے۔اب مشکل یہ ہے کہ سوا3 سال حکومت میں رہتے ہوئے عوام کو صرف مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر مسائل دینے کے بعد شفاف الیکشن کی صورت میں کیا وہ اکثریت حاصل کر سکیںگے؟

اِس وقت جو طبقہ خان صاحب کی بہت بڑھ چڑھ کر حمایت کر رہا ہے، اُس میں دو خصوصیات ہیں، ایک تو یہ کہ وہ بہت ووکل(اپنی رائے کا اظہار بڑھ چڑھ کر کرتا ہے) ہے اور دوسرا یہ کہ ہمارے معاشرے میں کہیں نہ کہیں اُسےیہ استحقاق حاصل رہا کہ وہ خان صاحب کی ناقص معاشی کارکردگی سے متاثر نہیں ہوا، یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی اُن کی حمایت کر رہا ہے۔ اِس میں زیادہ تعداد شہری آبادی کی ہے اور اُس میں بھی اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہے جن کی ملکی تاریخ اور سیاست کے حوالے سے معلومات کا واحد ذریعہ عمران خان اور اُن کی تقاریر ہیں ،اِس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے علاوہ پاکستان کے مسائل کوئی دوسرا شخص حل نہیں کر سکتا۔اِس میں اوورسیز پاکستانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے، اُن پر بھی یہ دونوں عوامل لاگو ہوتے ہیں، اُنہیں خان صاحب کی حکومت کا براہِ راست فائدہبھی پہنچا ہے وہ یہ کہ اُن کے بھیجے گئے ڈالرز کے متبادل اُنہیں اب پاکستانی روپے بڑی مقدار میں مل جاتے ہیں اور ’’نیا پاکستان اکاؤنٹ‘‘ میں نیا پاکستان سرٹیفکیٹ کی صورت میں اُنہیں وہ ’’شرح سود‘‘ بھی ملتا ہے جس کا وہاں وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بلکہ بعض پاکستانی تو ایک یا دو فیصد مارک اپ پر قرضہ لے کر ’’نیا پاکستان اکاؤنٹ‘‘ میں ڈالتے ہیں جس کے بدلے میں اُنہیں چھ سے سات فیصد منافع ملتا ہے۔ گیلپ سروے بھی اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جس کے مطابق عوام کی اکثریت یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان کو امریکی سازش نہیں بلکہ مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر معاشی مسائل کی وجہ سے ہٹایا گیا ہے۔اُن کے نزدیک خان صاحب کی حکومت کا خاتمہ ایک مثبت امر تھا۔

بیانیے کی جنگ میں عمران خان صاحب کو جو تجربہ حاصل ہے، بالخصوص سوشل میڈیا کے حوالے سے جو اُن کی قابلیت ہے اُس کا خالی بیانیے سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ اُس کیلئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے، اگرچہ سوشل میڈیا کے ذریعے اُن شواہد کو بھی جھٹلایا جا سکتا ہے لیکن کم از کم حکومت کے پاس ایسے شواہد موجود ہونا ضروری ہے۔اب کہیں نہ کہیں یہ خدشہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ نئی حکومت بھی کہیں اُسی غلط ٹریک کی طرف تو راغب نہیں ہونے لگی جس پر عمران خان اور تحریک انصاف چل پڑی تھی؟اگر پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتیں جو اب حکومت میں ہیں، خان صاحب کو دھچکا پہنچانا چاہتی ہیں تو اِس کا واحد حل صرف اور صرف عمدہ کارکردگی ہے۔ اگر اِس حکومت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے اور اُنہیں ریلیف دینے میں کامیاب رہی تو اُس کی مقبولیت میں امریکہ مخالف جذبات کے برعکس زیادہ اضافہ ہوگا۔ایک مسئلہ شاید وقت کی کمی کا بھی ہے اور اِس حکومت کو بہت بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف سے جن مشکل شرائط پر معاملات طے کیے اوراپنی حکومت کے آخری دِنوں میں سارا کچھ اُن شرائط کے برعکس کرکے جیسےاُس معاہدے سے نکلے، جس طرح معیشت کا دیوالیہ نکالا ، اُسے سنبھالنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔اِس محدود مدت میں مگر موجودہ حکومت کواہم چیزوں پر خان صاحب جیسے لمبے چوڑے نہ سہی لیکن واضح وعدے کر کے اُنہیں پورا کرنا ہوگا، اپنی صلاحیت اور قابلیت دکھانا ہوگی۔حکومت کا سارے کا سارا زور بہتر کارکردگی پر ہونا چاہئے۔حکومت اگر احتساب کا عمل ساتھ ساتھ چلانا چاہتی ہے تو چلائے لیکن اولین ترجیح کارکردگی اور ڈیلیوری ہی ہونی چاہیےلیکن خدشہ ہے کہ یہ حکومت بھی اُسی ٹریک کی طرف چل پڑے گی جس نے آج خان صاحب اور ملک کو اِس نہج پر پہنچا دیا ہے۔ خان صاحب نے اقتدار سے محرومی کے بعد جیسا ردِ عمل دکھایا ہے اُس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آج ، کل یا پرسوں جب بھی وہ اقتدار سے باہر ہوتے، اُنہوں نے اِسی طرح کا ردِ عمل دکھانا تھا جو ملک اور ریاست کیلئے نقصان دہ ہے،اِس لیے اگر یہ حکومت اپنی بہتر کارکردگی سے عوام اور اُن حلقوں کو جن پر خان صاحب پریشر ڈال رہے ہیں یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئی کہ یہی حکومت ملک اور قوم کی ترقی کیلئے بہتر ہے تو اگلے انتخابات کی شفافیت مزید یقینی ہو جائے گی۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ صرف انتقام اور سیاست پر زور نہ دیا جائے اور اِس غلط ٹریک سے بچا جائے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی یہ بھرپور کوشش ہو گی کہ موجودہ حکومت کو اِس ٹریک پر لا کر پھنسایا جائے اور اپنی مقبولیت میں جتنا اضافہ ہو سکتا ہے وہ کیا جائے، اپنے آپ کو مظلوم ثابت کیا جائے، اپنے خلاف انتقام دکھایا جائےتاکہ یہی بیانیہ وہ الیکشن میں استعمال کر سکے۔

کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Must Read Urdu column Galt Track By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.