موت کے سوداگر – اوریا مقبول جان
سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کی تباہی و بربادی کی ایک علامت ”وہن” کی بیماری بتائی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا یا رسول اللہﷺ ”وہن” کیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا، ”دنیا سے محبت اور موت کا خوف” (ابو داؤد:4297)۔ موت ایک ایسی چیز ہے جس کا خوف بندۂ مومن کے دل میں نہیں ہوتا؛ کیونکہ وہ جانتا ہے؛ بلکہ ایمان رکھتا ہے کہ موت اس کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ تبارک و تعالیٰ سے ملاقات کی طرف ایک قدم ہے، ایک ذریعہ ہے۔ موت سے بے خوف دل کی علامات اللہ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ بتائی ہیں اور رسولِ محترمﷺ نے بھی انہیں بیان کیا ہے۔ فرمایا، ”بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر ان فرماں بردار بندوں کے لئے مشکل نہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے” (البقرہ:46)۔ اس کیفیت کو میر تقی میر نے کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے ؎ مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر اللہ اپنے ان بندوں سے کس خوبصورتی سے خطاب فرماتا ہے جو دل میں اس سے ملاقات کی تڑپ لے کر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، انہیں لوگوں کی علامتیں بتاتے ہوئے رسول مقبولﷺ نے فرمایا، دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے (مسلم)، ایسے بندوں کی جب اس دنیا سے رخصتی ہوتی ہے تو اللہ تعالی ان کا استقبال کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ” اے وہ” جان مطمئن ”ہے، چل اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کرکہ تو (اپنے انجام سے) خوش ہو اور راضی ہو اور اللہ تجھ سے راضی۔
شامل ہو جا میرے نیک بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں ” (الفجر27تا30)۔ اللہ سے ملاقات کی خواہش اور اس کے دامن ِرحمت میں پناہ کی امید ہی تو ہے جو مومن کے دل سے موت کا خوف نکال دیتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ نے ان لوگوں کا ذکر بھی کیا ہے جو موت سے ڈرتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے ”تو پھرموت کی تمنا کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو، لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کر چکے ہیں(الجمعہ 7,6)۔ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس کے سامنے انسان کی ساری ترقی بے بس ہے۔ انسان جب سے اس دنیا میں آیا ہے؛ اس نے اسی موت پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ زندہ رہنے اور ہمیشہ رہنے کی خواہش نے ہی انسان کو بیماری، بڑھاپے، آفت، مصیبت اور ناگہانی موت سے لڑنا سکھایا لیکن یہ انسان اپنی تمام تر کوشش کے باوجودبھی بیماری سے لے کر ہر آفت پر تو قابو پا لیتا ہے؛ لیکن موت پر قابو نہیں پا سکا۔ اللہ پر ایمان کا پہلا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس کی طرف لوٹ جانے پر یقین کامل رکھیں۔ جب ہمیں اس بات پر یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ ہم ایک رحمان، رحیم اور ستر ماؤں سے زیادہ مہربان رب کے حضور جانے والے ہیں تو ہم میں اس سے ملاقات کی آرزو ہوتی ہے۔ ہم اس دن یعنی روز حشرکا تصور کرتے ہوئے ایک ایسی کیفیت کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے بیان فرمایا، ” سیدنا انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ رسولﷺ ایک نوجوان کے پاس گئے جو موت وحیات کی کشمکش میں تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا خیال کر رہے ہو، اس نے کہا اے اللہ کے رسول میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں پرامید ہوں لیکن اپنے گناہوں سے بھی ڈر رہا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، ” جس آدمی کے دل میں جان کنی کے وقت یہ دو چیزیں یعنی خوف اور امید جمع ہوجاتی ہے، اللہ وہ عطا کر دیتا ہے جس کی اُسے امید ہوتی ہے اور جس چیز کا ڈر ہوتا ہے وہ اس سے امن دلادیتا ہے (سلسلہ احادیث صحیحہ)۔ اسی لئے ایمان کو خوف اور امید کے درمیان
بتایا گیا ہے (مفہوم حدیث)۔ موت کا خوف آج کی دنیا کا کاروبار ہے۔ یہ انسان جس قدر خوفزدہ ہو گا، اسی قدر اسے محتاج و بے نوا بنایا جا سکتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا پرکرونا سے موت کا خوف طاری کر دیا گیا ہے۔ ایک ایسی ان دیکھی موت جو ہر انسان کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ایک ایسی موت کہ جس کا کوئی چہرہ نہیں، جسے کوئی فنا نہیں، جس کے آغاز کا کسی کو علم نہیں۔ جو موت کے فرشتے کی طرح ایک اچانک غیر محسوس طریقے سے آتی ہے۔ اس موت کی تمام علامتیں ویسی ہی ہیں جیسی اچانک دبے پاؤں انسان کی جانب بڑھتی ہوئی موت کی ہوتی ہے، ایسی موت کا خوف دل سے نکالنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں ہدایات دیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں شام کے شہر ”عمواس” میں 18 ہجری میں طاعون پھیلا تو اس وقت وہاں اکابر صحابہ ابو عبیدہؓ بن جراح، معاذؓ بن جبل، یزید بن ابوسفیانؓ، حرث بن ہشامؓ، سہیل بن ہشامؓ اور دیگر ہزاروں صحابہ موجود تھے۔ انہوں نے رسول اکرم ﷺکی وہ حدیث سن رکھی تھیں جوجدید دنیا میں کوارنٹین کی بنیاد ہیں۔ آپ نے فرمایا ” جب کسی جگہ طاعون پھیل جائے تو وہاں کے لوگ اس بستی سے باہر نہ جائیں اور جو اس بستی سے باہر ہیں وہ اس میں داخل نہ ہوں (مسلم)۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تمام صحابہ کرامؓ ”عمواس” کی بستی میں ہی مقیم رہے اگرچہ موت ان پر غالب آرہی تھی۔کیوں کہ وہ موت سے خوفزدہ نہیں تھے اسی لیے انہوں نے موت کو نفس مطمئنہ کی طرح قبول کیا۔ موت کا خوف انسان سے زندہ رہنے کی تڑپ تک چھین لیتا ہے۔ یہ سب سے
پہلے انسان کے مدافعتی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے اور اسے کمزور کر دیتا ہے۔ وائرس جس کے بارے میں سب سائنسدان متفق ہیں کہ اس کے لیے کوئی دوا ایجادنہیں ہوئی بلکہ ہم صرف انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنا کر وائرس کو پسپا کرتے ہیں۔اس حقیقت کے باوجود پوری دنیا کو ایک انجانے خوف میں مبتلا کیا جا چکا ہے۔ یہ خوف بھی ان ممالک میں زیادہ ہے جو کارپوریٹ دنیا سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے زیر اثر ہیں۔ روس، چین اور افریقہ کے ممالک میں ابھی تک ویسا خوف نہیں پہنچا۔ دنیا میں کوئی وائرس نظر نہیں آتا۔ فلو بھی سانس کی بیماریوں میں سے ایک ہے جو اسی وائرس کے خاندان سے پھیلتی ہے۔ سانس کی بیماریوں سے ہرسال ایک کروڑ ستر لاکھ افراد مرتے ہیں یعنی پچاس ہزار روزانہ مرتے ہیں۔ امریکہ کی آبادی 35 کروڑ ہے، اس میں سے ہر سال دس فیصد لوگ یعنی 35 لاکھ لوگوں کو فلو ہوتا ہے جس میں سے ہر سال پینتیس ہزار مر جاتے ہیں۔ چونکہ فلو کی ویکسین ایجاد ہوچکی ہے اس لیے وہاں اس موت کا خوف نہیں بیچا جاتا۔کم ازکم فلو کے حوالے سے دنیا امن میں ہے۔ حالانکہ وائرس کے بارے میں یہ اصول ہے کہ وہ ہر دفعہ Mutate ہوتا ہے یعنی ہیت اور شکل بدل لیتا ہے اور اسے نئی ویکسین کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ہر کوئی فلو ویکسین لگوا کر اطمینان کر لیتا ہے کہ موت اس کی طرف نہیں بڑھ رہی؛ لیکن موت تو پھر بھی ہوتی ہے، مگر میڈیا ویکسین کے بعد اب لوگوں کو خوف زدہ نہیں کرتا۔ یہ خوف دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ آپ صرف دو فیصد اموات والے کرونا کا خوف مسلط کرکے پوری دنیا کو یرغمال بنا سکتے ہیں۔ دنیا تمام ظلم، زیادتی، جبر اور قتل و غارت بھول جاتی ہے اور موت کے خوف میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہی موت کا خوف ہی تو ہے جسے دل سے نکالنے کے لیے اللہ نے قرآن اور دیگر کتابیں اتاریں اور یہی موت کا خوف ہی تو ہے جسے دل سے نکالنے کے لیے اللہ نے قرآن اور دیگر کتابیں اتاریں اور رسول بھیجے۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Moute k Sodagar By Orya Maqbool jan