مستقل مکان برابر ہوتے ہیں – جاوید چوہدری
میری ڈاکٹر امجد ثاقب سے پہلی ملاقات 1999 میں ہوئی تھی‘ یہ اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے پرسنل سیکریٹری ہوتے تھے‘ میں میاں صاحب سے ملاقات کے لیے وزیراعظم ہاؤس گیا‘ ڈاکٹر امجد ثاقب نے مجھ ریسیو کیا اور وزیراعلیٰ تک پہنچا دیا‘ یہ واپسی پر مجھے باہر تک چھوڑنے بھی آئے‘ میں رخصت ہونے لگا تو انھوں نے میرے کان میں سرگوشی کی ’’میں بھی جرمن ہو‘‘ میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا اور گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔
’’جرمن‘‘ ایک کوڈ ورڈ ہے‘ ہمارے ملک کے لاکھوں لوگ اس کوڈ ورڈ سے واقف ہیں لہٰذا میں تفصیل بتا کر آپ کو بور نہیں کرنا چاہتااور اسٹوری کی طرف آتا ہوں‘ ڈاکٹر صاحب ڈی ایم جی افسر تھے۔
میاں شہباز شریف ہر دور میں جوان افسروں کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں لہٰذا یہ بھی ان کے ’’قابو‘‘ آ گئے‘ جنرل پرویز مشرف کا دور آیااور یہ مختلف دفتروں اور پوزیشنز پر کام کرتے رہے‘میں انھیں بھول گیا‘ مجھے غالباً 2002 میں ان کا فون آیا‘ یہ اسلام آباد آئے اور میں نے ان کے ساتھ راول ڈیم کے کنارے واک کی‘ ڈاکٹر صاحب نے واک کے دوران بتایا‘ میں نے گرامین بینک کی طرز پر ایک ادارہ بنایا ہے اور میں اسے فل ٹائم جوائن کرنے کے لیے نوکری چھوڑ رہا ہوں‘ مجھے ان کی بات عجیب لگی‘ کیوں؟ کیوں کہ ڈی ایم جی پاکستان کے تمام نوجوانوں کا خواب ہوتی ہے۔
مائیں پوری زندگی اپنے بیٹوں کو اے سی اور ڈی سی دیکھنے کے خواب بنتی رہتی ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب یہ نوکری چھوڑنا چاہتے تھے‘ دوسرا پاکستان کا ہر ملازمت پیشہ شخص زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں عبدالستار ایدھی یا بل گیٹس بننے کی کوشش ضرور کرتا ہے‘یہ شوق زیادہ تر لوگ چھٹی لے کر پورا کرتے ہیں‘ فیل ہوتے ہیں اور پھر دوبارہ پرانی تنخواہ پر کام شروع کر دیتے ہیں جب کہ چند سرپھرے استعفیٰ دے کر یہ حماقت کرتے ہیں اور پھر عمر بھر خود کو کوستے اور دیواروں کو ٹکریں مارتے رہتے ہیں‘ میں نے زندگی میں آج تک چند ایک کے سوا کسی کو نوکری چھوڑ کر کام یاب ہوتے نہیں دیکھا لہٰذا میں زیادہ تر لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں آپ نیک اور اچھی بیٹیوں کی طرح چپ چاپ خاوند کے گھر بس جائیں‘ باہر کے حالات بہت خراب ہیں‘ بڑا پھینٹا پڑے گا وغیرہ وغیرہ‘ میں نے ڈاکٹر صاحب کو بھی یہی مشورہ دیا‘ میں نے ان سے عرض کیا عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر یونس جیسے لوگ ہم سے مختلف ہوتے ہیں۔
ہم عام لوگ ہیں‘ ہم ایک خاص حد تک خاص ہو سکتے ہیں‘ ہم اس حد سے آگے نہیں جا سکتے چناں چہ آپ چپ چاپ کام کریں‘ میں نے ان کو عبدالستار ایدھی کا ایک واقعہ بھی سنایا‘ ایدھی صاحب سے کسی پولیس افسر نے کہا تھا ’’میں بھی آپ کی طرح ویلفیئر کا کام کرنا چاہتا ہوں‘ میں کہاں سے شروع کروں‘‘ ایدھی صاحب نے اس سے کہا’’ آپ کو کسی جگہ جا کر ویلفیئر شروع کرنے کی ضرورت نہیں‘ آپ آج سے اپنے دفتر کو ایدھی ہوم‘ اپنی کرسی کو ایدھی سینٹر اور اپنے قلم کو ایدھی ایمبولینس سمجھ لیں‘ آپ اپنے عہدے کو ویلفیئر اور اپنے ہرملاقاتی کو ایدھی سینٹر کا ضرورت مند بنا لیں‘ آپ مجھ سے بہت آگے نکل جائیں گے‘‘۔
میں نے ڈاکٹر امجد ثاقب کو مشورہ دیا‘ آپ کا فیوچر بہت برائٹ ہے‘ آپ اپنے قلم اور عہدے سے ڈاکٹر یونس سے زیادہ خدمت کر سکتے ہیں‘ آپ لوگوں کا مقدر بدل سکتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کا ارادہ پکا تھا‘ یہ نوکری سے مستعفی ہوئے‘ اپنی زندگی اخوت کے لیے وقف کر دی اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ڈاکٹر صاحب نے اس دوران بڑی مشکل زندگی گزاری‘ گھر چلانے کے لیے 25 ہزار روپے ماہانہ پر پرائیویٹ جاب بھی کی اور گھر کے برتن اور زیور بھی بیچے لیکن یہ ڈٹے رہے۔
میں آج اعتراف کرتا ہوں میرا مشورہ اور ڈاکٹر امجد ثاقب کے بارے میں رائے دونوں غلط تھیں‘ یہ اگر نوکری نہ چھوڑتے تو یہ آج نیب کی حراست میں ہوتے یا پھر طویل ترین ذلالت کے بعد ریٹائر ہو چکے ہوتے‘ میرے دوست نے نوکری چھوڑی اور اخوت بنا کر کمال کر دیا‘یہ بیوروکریسی بلکہ حکومت کاری کے دائرے سے بھی بہت آگے نکل گئے‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی اخوت پاکستان کی پہلی تنظیم ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہارورڈ میں کیس اسٹڈی کے طور پر پڑھایا جاتا ہے‘ یہ تنظیم دس ہزار روپے سے شروع ہوئی تھی۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے 2001 میں بشریٰ بی بی نام کی ایک خاتون کو دس ہزار روپے قرض حسنہ دیا تھا‘ خاتون نے دس ہزار روپے سے بزنس شروع کیا اور وہ چھ ماہ میں نہ صرف اپنے قدموں پر کھڑی ہو گئی بلکہ اس نے قرض بھی لوٹا دیا‘ وہ دس ہزار روپے برکت والے تھے‘ وہ اس کے بعد دوسرے ضرورت مند کو دیے گئے‘ اس کے حالات بھی بدل گئے اور پھر جب اس نے بھی وہ رقم لوٹا دی تو ڈاکٹر صاحب نے دس ہزار میں مزید دس ہزار ملا کر اخوت کی بنیاد رکھ دی اور پھر معجزہ ہو گیا‘ وہ دس ہزار روپے آج 104ارب روپے ہو چکے ہیں اور ان 104 ارب روپوں نے 30 لاکھ خاندانوں کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا اور اخوت دنیا کی سب سے بڑی تحریک بن گئی۔
یہ اس وقت قرض حسنہ کی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے اور اس تنظیم نے دنیا کو سب سے زیادہ کاروباری خواتین وحضرات دیے‘ اخوت نے 30 لاکھ خاندانوں کو زندگی کی شاہراہ پر لا کھڑا کیا‘ اخوت کا کام صرف قرض حسنہ اور بزنس تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ لوگ اب تک غریبوں کو دس ہزار گھر بھی بنا کر دے چکے ہیں‘ حکومت نے پچاس لاکھ گھروں کا منصوبہ بھی اخوت کے حوالے کر دیا ہے‘ حکومت نے پائلٹ پراجیکٹ کے لیے اخوت کو ایک ارب روپے دے دیے ہیں‘ یہ اس رقم سے جولائی تک بے گھروں کو 14 ہزار گھر بنا کر دیں گے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے 2015 میں دنیا کی پہلی فری یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ بھی کیا‘ یہ ایک ایسی یونیورسٹی کا خاکہ تھا جس میں کسی طالب علم سے ایک پیسہ فیس نہ لی جائے اور اسے تعلیم کے ساتھ ساتھ کپڑے‘ جوتے‘ کتابیں‘ کھانا اور رہائش بھی دی جائے‘ یونیورسٹی کا پہلا تخمینہ 50 کروڑ روپے تھا‘ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے میں نے یونیورسٹی کے لیے پہلا کالم لکھا اور اہل خیر سے درخواست کی‘ آپ یونیورسٹی کے لیے ہزار روپے میں ایک اینٹ خرید لیں‘ پانچ لاکھ لوگوں نے پانچ لاکھ اینٹیں خرید لیں‘ 50 کروڑ روپے پورے ہو گئے اور یوں اخوت یونیورسٹی بن گئی‘ یونیورسٹی میں اس وقت سات سو طالب علم پڑھ رہے ہیں‘ یہ تمام طالب علم کیمپس میں رہتے ہیں اور انھیں کھانا‘ کپڑے‘ جوتے‘ کتابیں اور گھر آنے جانے کا کرایہ بھی دیا جاتا ہے‘یہ ساری باتیں خواب‘ یہ ساری کہانیاں محسوس ہوتی ہیں لیکن آپ یقین کریں میں اخوت کو جتنا بڑھتا اور پھولتا دیکھ رہا ہوں‘میرا محنت پر اتنا ہی ایمان پختہ ہوتا چلا جا رہا ہے‘ مجھے یقین ہوتا چلا جا رہا ہے انسان اگر کچھ کرنا چاہے تو ایک زندگی بھی بہت ہوتی ہے‘ یہ 24گھنٹوں کے دن میں بھی کمال کر سکتا ہے اور ڈاکٹر امجد ثاقب اس حقیقت کی بہت بڑی مثال ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب اتوار کو میرے پاس تشریف لائے‘ یہ ڈیڑھ گھنٹہ میرے پاس بیٹھے رہے‘ میں ان کی باتیں سن کر کئی بار آب دیدہ ہوا‘ یہ شخص اکیلا 30 لاکھ گھروں میں برکت‘ رزق اور ترقی لے آیا ‘ ہم اگر ایک گھر میں پانچ فرد سمجھ لیں تو یہ ڈیڑھ کروڑ لوگ بنتے ہیں اور یہ لوگ اسکینڈے نیوین ملکوں کی مجموعی آبادی کے برابر ہیں‘ کیا یہ کمال نہیں اور کیا یہ پاکستان جیسے ملک میں بہت بڑا کمال نہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے بتایا‘ ہم قرضہ دیتے وقت کسی شخص سے کسی قسم کی ضمانت نہیں لیتے‘ ہم جائیداد‘ گاڑی یا موٹر سائیکل کے کاغذات بھی گروی نہیں رکھتے‘ ہم لوگوں پر اندھا ٹرسٹ کرتے ہیں اور اس اندھے ٹرسٹ کے باوجود آج تک اخوت کی ریکوری ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد ہے۔
ہم سے جو بھی شخص قرض لیتا ہے وہ وقت پر اس کی ادائیگی کرتا ہے مگر ہم اس کے باوجود پاکستان کے لوگوں کو بے ایمان کہتے ہیں‘ پتا نہیں کیوں؟ ڈاکٹر صاحب نے باتوں ہی باتوں میں بتایا‘ ہم انسان زندگی میں ہر سائز اور ہر قسم کا گھر بنا سکتے ہیں‘ ہم ایک مرلے کی جھگی سے لاکھ ایکڑ کے محل میں رہ سکتے ہیں‘ ہمارے صوفوں‘ بیڈز‘ کرسیوں اور گاڑیوں کے سائز بھی مختلف ہو سکتے ہیں لیکن مرنے کے بعد بادشاہ ہو یا فقیر دونوں کی قبر کا سائز ایک ہی ہوتا ہے۔
یہ دونوں دو بائی چھ کے گڑھے میں دفن ہوتے ہیں اور حشر تک اسی گڑھے میں رہیں گے چناں چہ آپ حقیقت دیکھ لیں‘ عارضی زندگی میں ہر شخص کا مکان اس کے عہدے‘ اس کے رتبے اور اس کی کام یابی کے مطابق ہو گا جب کہ مستقل زندگی میں شاہ ہو یا گدا دونوں برابرہوں گے‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا‘ آپ لوگوں کو یہ حقیقت بتائیں‘ یہ سونے کا چمچ لے کر پیدا ضرور ہو سکتے ہیں‘ یہ زندگی میں کام یابی کے جھنڈے بھی گاڑھ سکتے ہیں لیکن مرنے کے بعد جی ہاں زندگی کے بعد ان کی جائے رہائش اور عام‘ غریب اور بے بس شخص کے ٹھکانے میں کوئی فرق نہیں ہو گا‘ مٹی کے اوپر سارے لوگ مختلف ہوتے ہیں لیکن نیچے سارے برابر ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر امجد ثاقب کی بات سیدھی میرے دل پر لگی اور میں نے سوچا ہم کس قدر بے وقوف ہیں‘ ہم روز قبرستانوں کے قریب سے گزرتے ہیں لیکن ہمیں یہ حقیقت یاد نہیں آتی‘ ہم کتنے نالائق‘ کتنے احمق ہیں۔
Must Read urdu column Mustaqil ghar braber hote hain By Javed Chaudhry