نااہل، بدنیت، بلیک میلر – انصار عباسی

ansar-abbasi

نیب کتنے پانی میں ہے یا کتنا اچھا کام کر رہا ہے، اس پر کسی بڑی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ صرف آج (بروز بدھ) کے اخبارات پڑھ لیں سب کچھ سمجھ آ جائے گا۔ اس پر بھی غور نہ کریں کہ کوئی صحافی یا سیاستدان نیب کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے، بس جو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے اس ادارے کے بارے میں ایک دن میں کہا اور جو میڈیا میں رپورٹ ہوا صرف اُسے ہی پڑھ لیں۔

خواجہ سعد رفیق اور سلیمان رفیق کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ نیب بدنیت ہے یا نااہل‘ دونوں ہی صورتوں میں معاملہ سنگین ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ نیب کے پاس ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں خارج کروانے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

آج (بدھ) ہی کے اخبارات میں رپورٹ خبر کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے نیب کی طرف سے سرکاری گھروں کی الاٹمنٹ کی فہرست عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے اسے خفیہ رکھنے کی درخواست پر کافی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ نیب ججوں کو بلیک میل اور اسکینڈلائز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

جے یو آئی کے اکرم درانی کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں، غیر قانونی بھرتیوں اور الاٹمنٹ کے نیب کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نیب کی الاٹمنٹ لسٹ کو پڑھنے کے بعد نیب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹس ججز اور سپریم کورٹ کے ملازمین کے نام بھی اس لسٹ میں شامل کرکے اس لسٹ کو خفیہ رکھنے کی استدعا کی ہے۔

اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیب نے یہ لسٹ عدالت کو خفیہ انداز میں کیوں دی، اسے پبلک کیوں نہ کیا؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ نیب عدالت سے درخواست کر رہا ہے کہ اس لسٹ کو خفیہ رکھا جائے جبکہ اُن کے نوٹس میں یہ اطلاعات بھی ہیں کہ نیب یہ لسٹیں لوگوں کو خفیہ طور پر فراہم کر رہا ہے (تاکہ ججوں کو بلیک میل کیا جا سکے)۔

اُنہوں نے کہا کہ اس عدالت کا کوئی جج بلیک میل نہیں ہوگا۔ اُنہوں نے نیب سے کہا کہ پوری لسٹ عدالت کو مہیا کریں اور بتائیں کہ کہاں غیر قانونی کام کیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ نیب نے عدالت سے الاٹمنٹ لسٹ اس لیے خفیہ رکھنے کی درخواست کی تاکہ عدالت ملزم کی ضمانت مسترد کر دے۔ اُنہوں نے کہا کہ عدالت اس لسٹ کو پبلک کرے گی، اس سے کوئی ہائیکورٹ کا جج نیب کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوگا۔

اُنہوں نے وہاں موجود نیب کے افسر سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ گھر قانون کے مطابق الاٹ ہوئے لیکن اس کے باوجود ان ناموں کو لسٹ میں کیوں شامل کیا گیا؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ بھی کہا کہ نیب کے ایکشن سے لوگوں کی بدنامی ہوتی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ اس طرح تو ریاست نہیں چل سکتی۔ یعنی ایک ہی روز سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے قابلِ احترام ججوں نے نیب کے بارے میں ریمارکس دیے کہ وہ نااہل ہے یا بدنیت، وہ ججوں کو بلیک میل اور انہیں اسکینڈلائز کر نے کو کوشش کر رہا ہے اور ایک لسٹ جسے وہ عدالت کے سامنے خفیہ رکھنے کی درخواست کر رہا ہے، خود خفیہ طور پر لوگوں (میڈیا سے تعلق رکھنے والوں) کو فراہم کر رہا ہے۔

جج حضرات نے سچ کہا اور نیب کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ یہ ادارہ احتساب کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے، یہ نہ صرف بدنیت ہے اور بدنیتی کی بنیاد پر سچے جھوٹے کیس بنا کر لوگوں کو بند کرتا ہے بلکہ انتہائی نالائق اور نااہل بھی ہے اور اس کی نااہلی کا ثبوت ایک دو نہیں بلکہ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے درجنوں فیصلے ہیں جن میں جج حضرات نے بار بار لکھا کہ کیسز بدنیتی کے بنیاد پر بنائے جاتے ہیں، لوگوں کو بغیر ثبوت کے مہینوں، سالوں تک جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔

یہاں تو ایسے بھی واقعات سامنے آ چکے ہیں کہ جہاں نیب کے ملزمان جیلوں میں فوت ہو گئے، کچھ نے نیب کی بلیک میلنگ کے ڈر سے خودکشیاں بھی کرلیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں میں چیئرمین نیب کے اختیارات خصوصاً ملزمان کو گرفتار کرنے کے اختیار کے استعمال پر بھی سوال اٹھائے گئے۔

یہ بھی کہا گیا کہ جو ملزم تعاون کرے اُسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا لیکن نیب کی بدنیتی دیکھیں کہ اُس نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اُس فیصلے کہ جس میں نیب چیئرمین کے کسی فرد کو گرفتار کرنے کے اختیار کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ہدایات دی گئی تھیں، کو مکمل پامال کرتے ہوئے جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو ایک جھوٹے کیس میں اُس ابتدائی مرحلے میں گرفتار کیا جہاں متعلقہ فرد کو نیب میں بلایا تک نہیں جاتا۔

ایل این جی ٹرمینل کیس میں دیے گئے ہائیکورٹ کے فیصلوں کو پڑھیں تو اعلیٰ عدلیہ نے بڑے کھلے انداز میں لکھا کہ ایل این جی جیسے ٹیکنیکل معاملے کو سمجھنے کے لیے نیب کے پاس قابلیت ہی نہیں۔ ذرا سوچئے کہ بدنیت اور نااہل نیب جو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں تک کو بلیک میل کرنے سے نہیں رُکتا، وہ اپنے ملزمان کے ساتھ کیا کچھ نہیں کرتا ہوگا۔

میری اعلیٰ عدلیہ کے محترم جج صاحبان سے درخواست ہے کہ بار ہا وہ نیب کی نااہلی، نالائقی، بدنیتی، بلیک میلنگ اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے بارے اپنے ریمارکس اور فیصلوں میں لکھ چکے جس سے نیب نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نیب کی بلیک میلنگ، بدنیتی، نالائقی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکا جائے۔

جس کے لیے نہ صرف کوئی میکنزم اعلیٰ عدلیہ کو بنایا چاہیے بلکہ غلط کیس بنانے پر اور جھوٹے کیس بناکر لوگوں کو گرفتار کرنے پر نیب چیئرمین اور اس کے افسران کو جرمانے کے ساتھ ساتھ قید کی سزائیں بھی دی جائیں تاکہ احتساب کے نام پر جاری اس ظلم کو ہمیشہ کے لیے بند کیا جائے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Na ahal,Budniat,Black Mailer By Ansar Abbasi

Leave A Reply

Your email address will not be published.