نہ ہیرو نہ ولن – حسن نثار
سنا ہے سوشل میڈیا پر محمد بن قاسم اور راجہ داہر کے درمیان ’’میچ‘‘ جاری کہ دونوں میں سے ’’ہیرو‘‘ کون ہے اور ’’ولن‘‘ کون؟ دوسری طرف بے چارے ارطغرل کو بھی فٹ بال بنایا جا رہا ہے۔
سندھ سے اک بی بی کا کہنا ہے کہ مقامی ہیروز کو اہمیت دی جانی چاہیے، جس کا ایک مطلب یہ نکلتا ہے کہ بھٹو، نواز شریف، بے نظیر، آصف زرداری وغیرہ پر ڈرامہ سیریلز بننے چاہئیں، تو انہیں کون سمجھائے کہ جب ’’ڈرامہ‘‘ کا لفظ استعمال ہو تو اس کا مطلب ہی مبالغہ کی انتہا اور ڈرامہ کی ضرورتوں کے مطابق حقائق کو مسخ کرنا ہوتا ہے۔
اگلی بات یہ کہ عمر مختار سے لے کر ٹیپو سلطان تک ’’شاہین‘‘ سے لے کر ’’حیدر علی‘‘ تک بے شمار مقامی و غیر مقامی ہیروز تک پر بننے والی فلموں اور ڈراموں نے کون سی توپ چلا لی تھی جو اب چل جائے گی۔ اور تو اور صلاح الدین ایوبی، تیمور لنگ جیسے فاتحین پر بننے والی اعلیٰ ترین فلمیں بھی ماضی پرستی میں تھوڑے بہت اضافہ کے علاوہ اور کیا دے گئیں؟ بنیادی بات ’’انٹرٹینمنٹ‘‘ اور ’’کمرشل ایکٹویٹی‘‘ کی ہے۔
مقبول ترین نعتوں میں سے ایک ہے’’شاہ مدینہ، شاہ مدینہ، یثرب کے والی سارے نبی تیرے در کے سوالی‘‘یہ ایک بہت پرانی فلم کے لئے لکھی گئی جس کا نام ہی ’’نور اسلام‘‘ تھا۔
اس کے ہیرو درپن مرحوم اور ہیروئین سورن لتا مرحومہ تھیں جبکہ اصل بات یہ کہ اس کے پروڈیوسر اک مشہور ہندو ڈسٹری بیوٹر اور فلم پروڈیوسر تھے۔
مختصراً یہ کہ ایسے وینچرز کا ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ورنہ جتنی فلمیں رومن گلوری پر بنیں، روم آج پھر سے سپر پاور ہوتا لیکن تاریخ سرگوشیوں میں ہمیں بتاتی ہے کہ:’’جتھے گئیاں بیڑیاں اودھر گئے ملاح‘‘پدرم سلطان بود سے سلطانی نہیں حیرانی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
رہ گئے ہیرو اور ولن تو اللہ سے لے کر اس کی مخلوق تک کسی کا ہیرو کسی کا ولن اور کس کا ولن کسی کا ہیرو ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے ابلیس کو جو ڈھیل دی اس کے نتیجہ میں اللہ کے ہیروز اور، ابلیس کے ہیروز اور– رحمٰن کے لاڈلے چہیتے پسندیدہ اور، شیطان کے فیورٹ اور– یہی سلسلہ روزِ قیامت تک جاری رہے گا۔
کئی سال پہلے میں اس وقت سوچ میں پڑ گیا جب میں نے اپنے اخباروں میں پڑھا کہ پاکستان کے وزیراعظم نے بنگلہ دیش کے سرکاری دورے کے دوران بنگلہ دیش کی ’’جنگ آزادی‘‘ کے ’’ہیروز‘‘ کی قبرو ں پر پھولوں کی چادریں چڑھا کر انہیں خراج تحسین و عقیدت پیش کیا۔
ابھی کل کی بات ہے جب طویل ایران عراق جنگ میں دونوں مسلمان ملکوں کے اپنے اپنے ہیروز تھے اور صدیوں پیچھے بنو امیہ کی ملوکیت اور پھر اس کے بعد بنو عباس کی آمد اور قبروں کی بے حرمتی کو بھول کر آج دیکھ لو، مڈل ایسٹ میں کیا ہو رہا ہے اور جب ’’ارطغرل غازی‘‘ کے وارثوں میں سے ایک بایزید یلدرم سے تیموری طوفان ٹکرایا تو آگ اور خون کے اس سونامی کے ہیرو کون تھے؟ ولن کون تھے؟ میں تو آج تک فیصلہ نہیں کر سکا۔
کوئی نابغہ مجھے سمجھا سکے تو اس کا شکریہ ادا کروں گا۔ پانی پت ہمارے بالکل ہی پڑوس میں ہے اور میں نے خود وہ مقام دیکھا جس میں ایک طرف ظہیر الدین بابر تو دوسری طرف تہجد گزار ابراہیم لودھی تھا۔ بابر مجھے بہت پسند ہے لیکن نہ میں جانتا ہوں نہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس معرکہ کا ہیرو کون تھا؟
ولن کون تھا؟ رہ گیا ’’فاتح‘‘ تو کچھ مورخ فتح کا فیصلہ یوں لکھتے ہیں کہ دلیری میں ابراہیم لودھی بھی بے مثال تھا جس نے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے جان دے دی لیکن بابر کا ’’توپ خانہ‘‘ جیت گیا یعنی ’’فتح‘‘ تب بھی ٹیکنالوجی کی ہوئی تھی۔
تاریخ میں ’’فتح‘‘ عموماً ’’ٹیکنالوجی‘‘ کی ہی ہوتی ہے۔ سنجیدہ مورخ متفق ہیں کہ پیدل جنگجوئوں پر وہ لوگ غالب آئے جنہوں نے پہلی بار گھوڑے کو ’’وار مشین‘‘ کے طور پر استعمال کیا۔ پھر پانسہ ان کے حق میں الٹ گیا جنہوں نے گھوڑے کو لگام ڈال کر اس ’’زندہ مشین‘‘ یعنی گھوڑے کی کارکردگی میں کئی گنا اضافہ کر لیا تھا۔
مختصراً یہ کہ فلمیں ڈرامے پولیو کے شکار ناظرین میں وقتی ہیجان، جوش و خروش تو پیدا کرتے ہیں لیکن بالآخر پولیو زدہ یہ ’’ہیروز‘‘ مٹھیاں بھینچتے بھینچتے دودھ میں پانی کی ملاوٹ کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں یا کسی چور کو ووٹ دیتے پائے جاتے ہیں۔کسی سیانے نے کہا تھا کہ ’’مجھے اس بات کی قطعاً کوئی پروا نہیں کہ میرا دادا اور پڑدادا کیا کرتے رہے۔
میرا اصل مسئلہ یہ ہے کہ میرے پڑدادا کا پڑپوتا اور میرے دادا کا پوتا یعنی میں کم بخت کیا جھک مار رہا ہوں‘‘۔ماضی کے قیدیوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔سو بہتر ہے فلموں، ڈراموں، ناولوں کی ہیروئن پینے اور افیون چاٹنے کے بجائے ’’حاضر سروس‘‘ ہیروز پیدا کرنے کاسوچا جائے اور یاد رکھا جائے کہ یہ ہیروز سڑے بسے سیاستدان یا جنگجو نہیں– صرف اور صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں کے شہسوار ہوں گے اور ایسے ہی بنجر موسموں کے لئے ہمیں سمجھایا گیا تھا کہ…’’علم تمہاری کھوئی ہوئی میراث ہے‘‘۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Na hero Na villan By Hassan Nisar