نیب اور اٹھارویں ترمیم کے عیب – سیّد طلعت حسین
مقتدر حلقوں کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی چند ایک معاملات پر عمران خان پس و پیش سے کام لے رہے تھے مگر بالآخر ان کو ایک پیج پر ہونے کے فوائد سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد ان کی رائے یکسر تبدیل ہو گئی۔
اطلاعات و نشریات کے نئے وزیر شبلی فراز نے حلف اٹھانے کے پہلے 48 گھنٹوں میں ہی یہ ثابت کر دیا کہ وہ اس وزارت کے اہل ہیں اور اس کی بھاری بھرکم ذمہ داریوں کو نبھانے کی صلاحیت سے مالا مال بھی ہیں۔
ان سے منسوب پہلے بیان کا ایک حصہ اٹھارویں ترمیم سے متعلق بھی تھا۔ اس میں ایک اخباری اطلاع کے مطابق انہوں نے اٹھارویں ترمیم کے بارے میں بحث کو بےوقت کی راگنی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ابھی اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چونکہ اس بیان کی تردید نہیں آئی لہذا ہم اس کو سچ ہی سمجھیں گے۔
لیکن پھر تردید کی ضرورت باقی نہیں رہی جب وزیر صاحب نے اگلے ہی دن اس ترمیم کو (کرونا) کورونا وائرس کے خلاف کارروائیوں میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے اس کے دوسرے نقائص پر طویل نوحہ خوانی کی۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ اس ترمیم نے صوبائی تعاون میں مشکلات پیدا کی ہیں اور اس کے بعد مرکز کے پاس محض ہدایات جاری کرنے کا اختیار رہ گیا ہے جس پر اکثر عمل درآمد کروانا اس لیے ممکن نہیں ہوتا کیوں کہ یہ صوبوں کی مرضی پر منحصر ہے۔ جب کوئی وزیر کسی اہم قومی معاملے پر اپنے بیانات میں 180 ڈگری کی متوازی تبدیلی لے آئے تو آپ سمجھ جائیں کہ وہ موصوف موزوں تو ہیں لیکن ان پر اعتماد صرف اشد ضرورت کے تحت ہی کرنا مناسب ہے۔
مسئلہ شبلی فراز کے عہدے کی ان ضروریات یا مجبوریوں کا نہیں ہے جس کے تحت پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہونا پڑتا ہے۔ اس وقت مسئلہ اٹھارویں ترمیم کا ہے جو کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کی اہمیت کو بھی پیچھے چھوڑ چکی ہے – اندر خانے اس ترمیم کو نرم کرنے یا ختم کرنے پر اصرار اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ نیب جیسے مقدم ادارے کو چلانے والے مقدس آرڈیننس میں تبدیلی پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے سنجیدہ بات چیت بھی جاری ہے۔
تو اس حد تک شیخ رشید نے سچ ہی کہا کہ دونوں جماعتیں نیب قانون میں ترمیم اور تبدیلی کے عوض اٹھارویں ترمیم پر راضی ہونے کو تیار ہیں لیکن شیخ صاحب شیخ ہونے کے ناطے مکمل سچ بتانے میں روایتی کنجوسی سے کام لے گئے۔ انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ یہ بات چیت ہو کن فریقین کے درمیان رہی ہے؟ اور کون ہے جو اس لین دین سے خوش نہیں ہے؟
اگر آپ اس ان کہے سچ کو جان لیں تو آپ کو شبلی فراز کی 18ویں ترمیم پر الٹی چھلانگ اور شیخ صاحب کی مضطرب مگر نامکمل رپورٹنگ بھی سمجھ میں آ جائے گی۔ قصہ یہ ہے کہ 18ویں ترمیم شروع دن سے پنڈی اور آبپارہ میں غیرمقبول تھی مگر یہ اس وقت ایک قابل نفرت دشمن میں تبدیل ہوگئی کہ جب اسحاق ڈار سے لے کر ڈاکٹر حفیظ شیخ تک ہر وزیر خزانہ نے ہاتھ باندھ کر معاشی تنگی کو وجہ بناتے ہوئے یا تو مضبوط دفاع کے ضروری چیکوں پر دستخط کرنے سے معذرت کی اور یا پھر مانگی ہوئی رقوم سے کہیں کم کو مودبانہ و معذرت خوانہ انداز سے مختص کیا۔
اس کے بعد اس ترمیم کی دوسری وحشتیں بھی آشکارہ ہونا شروع ہو گئیں جن میں سے قومی وحدت و یگانگت کو نقصان، مختلف تعلیمی نظاموں کے باعث نظریہ پاکستان کو نقصان اور قومی پلاننگ میں مرکز کی جانب سے جاری کی جانے والی مختلف قسم کی اہم سکیموں کو لاگو کرنے میں پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں [ ان میں سے چند ایک کا شبلی فراز نے بھی ذکر کیا اور ساری قوم پر واضح کر دیا کہ وہ کس پیج پر ہیں]۔
مگر چونکہ معاملہ آئین میں ترمیم کا ہے اس لیے اس دشمن نامراد یعنی 18ویں ترمیم کو شکست دینے کے لیے عام قسم کے داو پیچ کارگر نہیں ہو سکتے۔ مثلا آپ اس ترمیم کو پانامہ مقدمے میں ملوث نہیں کر سکتے ۔ نہ اس کے لیے 124 دنوں کا دھرنا لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو گمشدہ افراد کی فہرست میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں شامل کروا کر قصہ ختم کیا جا سکتا ہے۔
جیسا تیسا بھی ہے پارلیمانی نظام ہے، اس میں کچھ سیاسی اتفاق رائے قائم کرنا ایک مجبوری ہے۔ اس مجبوری کو پورا کیے بغیر آئین کو صرف مشرفی طریقے سے ہی ترمیم کے سجدے پر مائل کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ نہیں۔ اور چونکہ مشرفی طریقے کا ابھی وقت ہوا نہیں ہے لہذا سیاسی صفوں کو ترتیب دیا جا رہا ہے۔ یہ بھی کوئی اتنا مشکل کام نہ ہوتا۔ جو پارلیمان فوج کے سربراہ کو دوسری یا تیسری مدت ملازمت دینے کا اہتمام بہ جنبش انگشت کر سکتی ہے اس کو راہ راست پر لانے میں زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے۔
لیکن وقتی مشکل یہ ہے کہ پارلیمان میں دونوں جماعتیں حقیقی قوتوں سے بات چیت کرنے سے پہلے ہی نیب کی طرف سے ہونے والی مسلسل سنگ ریزی کو ختم کرنے کے موضوع کو چھیڑ دیتی ہیں۔ اس کو نبھانا بھی آسان ہوتا مگر نیب چیئرمین اپنے معاملات کے باعث شریف خاندان ہر ’ہتھ ہولا‘ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح وزیر اعظم اور ان کے قریبی رفقا ہر بات ماننے کو تیار ہیں مگر اس وقت کھلے عام شریف پراجیکٹ کو ترک نہیں کرنا چاہتے۔ یہاں پر آ کر مقتدر حلقوں کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں۔
18ویں ترمیم اور اس سے جڑے ہوئے دوسرے اہم معاملات پر تمام جماعتوں کا اتفاق رائے بنانے کے لیے نیب کی کارروائیوں میں نرمی درکار ہے۔ وہ میسر ہونے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کا ’احتسابی عمل‘ پر خاص اثرو رسوخ ختم کروانا ضروری ہے جس پر وزیراعظم تیار نہیں ہیں مگر جس کے بغیر نیب چیئرمین کا تعاون حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہذا اس وقت اس گرہ کو کھولنے کے لیے ایک راستہ نیب کے قانون میں ترمیم کا ہے۔ اگر یہ قانون بدل دیا جائے تو پھر ن لیگ اور پی پی پی سے بات چیت کے دروازے کھل سکتے ہیں، دوسری جماعتوں سے بھی مثبت ردعمل آ سکتا ہے۔ یہاں پر ایک پیچیدگی ضرور ہے کہ عمران خان جو نیب چیئرمین کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں کیسے نیب کے قانون کو اس حد تک تبدیل کرنے پر راضی ہو جائیں گے کہ اس کا براہ راست فائدہ ان کے دونوں اہداف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہو۔
اس پر مقتدر حلقوں کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی چند ایک معاملات پر عمران خان پس و پیش سے کام لے رہے تھے مگر بالآخر ان کو ایک پیج پر ہونے کے فوائد سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد ان کی رائے یکسر تبدیل ہو گئی۔ عین ممکن ہے کہ نیب کے قانون میں رد و بدل اگر کسی نکتہ انجام تک پہنچنے کے قریب ہوا تو وزیر اعظم کو ماضی کی طرح رام کر لیا جائے۔
لہذا اس وقت نیب کے معاملات کے فریقین اصل میں تین ہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی۔ مقتدر حلقے اور چارو ناچار حکومت وقت کے معاونین جن میں سے وزیر قانون عملا آزادانہ طور پر ایک اتفاق رائے والا مسودہ تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ اس پر ان کے آئینی باس یعنی وزیر اعظم خوش تو نہیں ہیں لیکن وزیر قانون کو کوئی خاص پریشانی نہیں کیوں کہ ان کے اصل باس اس معاملے پر ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اور اب تو عاصم بھی آ گئے ہیں۔ وزیر اعظم کو اب قومی ضروریات سمجھانے میں مزید آسانی پیدا ہو گی۔
Must Read Urdu column NAB aur Atharwen Tarmeem k AeiB By Talat Hussain
Source: Independent URDU