نفرت بُرائی سے، لوگوں سے نہیں – انصار عباسی
جنید جمشید مرحوم کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں۔ آمین! اُنہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز گانے بجانے سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب سے آگے نکل گئے۔ جب میوزک کے میدان میں اپنے عروج کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب فرمائی اور وہ سب چھوڑ چھاڑ کر تبلیغ ِ اسلام کے عظیم کام سے جڑ گئے اور اپنی آخری سانس تک اسی سے منسلک رہے۔ میوزک جو پہلے اُن کی زندگی کا اہم مقصد تھا، اس لیے چھوڑ دیا کہ وہ گناہ کا کام تھا۔
نعیم بٹ ٹی وی اور اسٹیج کے آرٹسٹ رہے۔ ایک عرصہ تک ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں میں ادکاری کرنے کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اداکار وسیم عباس کے ساتھ مل کر کئی اسٹیج ڈرامے بھی پروڈیوس کیے۔ اللہ تعالیٰ نے بٹ صاحب پر بھی اپنا کرم کیا، اُنہوں نے اسٹیج اور ٹی وی کو چھوڑ کر اپنے آپ کو تبلیغ کے ساتھ جوڑ لیا اور آج کل اکثر اُن کے درس و تبلیغ کی وڈیوز وٹس ایپ کے ذریعے ملتی رہتی ہیں۔ میں نے ایک بار بٹ صاحب سے پوچھا کہ کیا ڈرامہ اور اسٹیج اس لیے چھوڑا کہ اُسے گناہ سمجھتے تھے؟ جواب ملا کہ اگر گناہ نہ سمجھتا تو کیوں چھوڑتا۔ ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں جہاں فلم، میوزک، ٹی وی اور اسٹیج سے تعلق رکھنے والے افراد کو اللہ نے ہدایت نصیب فرمائی اور وہ اسلام سے ایسے جڑے کہ دوسروں کے لیے مثال بن گئے۔
میرے گزشتہ کالم ’’ریاستِ مدینہ کا نام لینے والوں سے یہ توقع نہ تھی‘‘ کے ردعمل میں ایک ایسی سوچ سامنے آئی جو فلم اور میوزک وغیرہ سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں بہت بُری بات کرتے ہوئے یہ بنیادی نکتہ بھول جاتی ہے کہ نفرت بُرائی اور گناہ کے عمل سے کی جانی چاہئے، افراد سے نہیں۔ افراد اور معاشرے کی اصلاح اور اُن کی ہدایت کے لیے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اور ہمارے اردگرد اَنگنت ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ بُرائی اور گناہ کے کاموں کی وجہ سے مشہور لوگوں کے دل کو اللہ نے بدلا اور وہ افراد بعد میں بہت اچھے مسلمان بن گئے۔ اسلام کے بدترین دشمنوں کو اللہ نے ہدایت دی اور اُنہوں نے اسلام کے لیے وہ خدمات انجام دیں جو کم لوگوں کو نصیب ہوئیں۔ ہمارا دین بحیثیتِ مسلمان ہم پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو نیکی کی ترغیت دیں اور برائی و گناہ کے کاموں سے روکیں۔ کسی غلط عمل پر سزا اور زور زبردستی کا اختیار صرف ریاست کو حاصل ہے۔ اسی لیے حکومت و ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ فلم، اسٹیج، میوزک اور ٹی وی کے ذریعے غیر اخلاقی اور فحش کام کرنے والوں اور اسے پھیلانے والوں کے خلاف
کارروائی کرے نہ کہ اُنہیں نوازے اور رول ماڈل بنا کر پیش کرے۔ہمارے ہاں ایک اور بات یہ دیکھی جاتی ہے کہ فلم سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد اگر کسی معاشرتی معاملے میں اچھی بات کرے تو بھی ایک طبقہ اُس کو ٹوکتے اور اس کا ماضی یاد دلاتے ہوئے کہتا ہے کہ تم یہ بات کرنے کے قابل کہاں ہو۔ حالانکہ انسان بدلتا رہتا ہے اور لوگ گناہ چھوڑ کر اچھائی کی طرف آتے ہیں جو بہت قابلِ تعریف بات ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے چند شہروں میں عورت آزادی مارچ کے موقع پر انتہائی قابلِ اعتراض پوسٹرز کے خلاف بہت احتجاج ہوا۔ احتجاج کرنے والوں میں چند ایک فلمی اداکاروں نے بھی ٹویٹر پر اپنی رائے دی اور کہا کہ یہ عمل ہماری اقدار کے خلاف ہے۔ ان اداکاروں کے عورت مارچ مخالف ٹویٹس پر کئی لوگوں نے انہی اداکاروں کی پرانی فلموں وغیرہ کی فحش تصویریں ٹویٹ کیں اور اُنہیں اُن کاماضی یاد دلاتے ہوئے طعنے دیئے کہ دیکھیں اقدار کی بات کر کون رہا ہے۔ یعنی ہم کسی کے سدھرنے پر بھی اُسے معاف کرنے کے لیے تیار نہیں جبکہ ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ بُرے سے بُرے اعمال کرنے والے کے لیے بھی توبہ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیتِ مسلمان ہم بُرائی سے ضرور نفرت کریں اور اس کے خلاف کھڑے بھی ہوں لیکن اپنے سمیت دوسروں کے لیے ہمیشہ دعاگو رہیں کہ وہ ہدایت یاب ہوں۔
Source: Jung News