ناکام حسرتوں کے امین – اوریا مقبول جان
جس دن سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں، یہ جشن منا رہے تھے۔ یہ نعرے بلند کرتے تھے کہ، دیکھو انقلاب نے ہمارے دروازے پر دستک دے دی ہے۔ اسلام پسندو! اپنی خیر مناؤ، مولویو! تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے علاقوں کی تاریخ پڑھو،عبرت حاصل کرو اور اپنا انجام سوچ لو۔ یہ روس ہے امریکہ نہیں جو ویتنام کی طرح بھاگ جائے گا۔ یہ ایک نظریاتی ملک سوویت یونین ہے۔ یہ جہاں گیا ہے، وہاں سے کبھی نکلا نہیں، بلکہ آگے ہی بڑھا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی باقیات، ادباء اسی طرح کے تبصرے تحریر کرتے۔ خان عبدالغفار خان زندہ تھے۔ عبدالولی خان کی سیاست بھی گرم تھی، محمود خان اچکزئی بھی پشتون قومیت کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ سوویت افواج کے حملے کے بعد جو افغان پاکستان میں پناہ لینے کے لیے اولین قافلوں کی صورت پشاور اور کوئٹہ کے علاقوں میں آئے، ان ”عظیم ”پشتون سیاسی جماعتوں نے ان سے نفرت کی اور ہر دیوار پر ”افغان بھگوڑے” تحریر کر دیا۔ پاکستان کا ملحد، ذات خداوندی کا منکر، اس دور میں کارل مارکس کے کیمونسٹ انقلاب کا پرچم اٹھائے ہوئے تھا اور سوویت یونین تو ان کے خوابوں کی تعبیر تھا، مرکز ہدایت تھا۔ یہ تمام اسی لئے ان ”سوویت زدہ” پشتون رہنماؤں کے ساتھ ہو گئے۔ انہوں نے انقلاب کی نوید افغانستان میں نور محمد ترکئی کے بر سرِ اقتدار آنے سے ہی دینا شروع کر دی تھی۔پورا خطہ ہی انتشار کا شکار تھا۔ ایران میں بھی شاہ ایران کے خلاف ہنگامہ پھوٹ چکے تھے۔ ان کیمونسٹوں کی خوشی دوبالا تھی۔ ہر کوئی ہمارا منہ چڑاتا، یہ دیکھو! تمہارے اسلام کی اب اس علاقے سے چھٹی ہونے والی ہے۔ لیکن میرے اللہ کی اپنی تدبیریں ہوتی ہیں۔ ایران کی کیمونسٹ ”تودہ” پارٹی جو 1941 سے ایران میں انقلاب کی جدوجہد کر رہی تھی اور اس نے مازندران کے پہاڑی علاقے میں گوریلا کارروائیاں بھی شروع کی ہوئی تھیں، انہوں نے بھی شاہ کے خلاف انقلابی تحریک میں بھرپور حصہ لیا، مگر انکی بدقسمتی کہ اس تحریک کا پرچم امام خمینی کے ہاتھ میں آگیا اور پورے ایران میں اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوگئیں۔کیمونسٹ نواز بنی صدر کو صدارت کی کرسی پر بٹھایا گیا تو اس نے ایران کے حکومتی معاملات میں علماء اور مذہبی طبقے کی مداخلت کے خلاف آواز بلند کردی۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایرانی عوام نے آیت اللہ بہشتی کی پارٹی کے ارکان کو مجلس میں منتخب کرکے بھیجا ہوا ہے۔ انہوں نے بنی صدر کو کان سے پکڑ کرصدارت سے نکال دیا۔ ایرانی اسلامی انقلاب کے ہراول دستے ”پاسداران” نے ہزاروں قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کو گرفتار کرلیا۔اللہ کی تدبیر دیکھیں۔سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کا ایران میں نمائندہ ولادی میر کوزچکن (Viladimir Kuzichhin) باغی ہو گیا اور اس نے یہ راز کھول دیا کہ کس طرح سوویت یونین ”تودہ” پارٹی کے ذریعے ایران کے اسلامی انقلاب کے خلاف سازش کررہا تھا۔ تودہ پارٹی پر پابندی لگائی گئی اور اٹھارہ روسی سفارت کاروں کو ایران سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد ایران میں کیمونسٹ انقلاب کے علمبرداروں اور ”مذہب کو افیون” کہنے
والوں کا ایسا خاتمہ ہوا کہ کوئی نام لیوا نظر نہ آتا تھا۔ اصغر خان کے بیٹے عمر اصغر خان جیسے بے شمار پاکستانی جو ایران میں کیمونسٹ انقلاب کی امید لے کر گئے تھے، ناکام ونامراد لوٹے اور اب ان سب کی امیدیں افغانستان سے وابستہ ہوگئیں۔یہ کہتے تھے کہ ایک دن سوویت یونین کی افواج پاکستان میں داخل ہوں گی اور ہر طرف ”لال لال لہرائے گا”۔وقت گزرا، ان کی امیدوں پر پانی پھرنے لگا۔ یہ غصے میں کبھی ضیاء الحق کو گالی دیتے اور کبھی امریکا کو بے نقط سناتے۔ پشتون سیاستدان اپنے ہی پشتوں بھائیوں کے قاتلوں کے گن گاتے اور ان افغانوں کا ساتھ دیتے جو روسی ایجنسی کے جی بی اور خاد کے کہنے پر پاکستان میں دھماکے کیا کرتے تھے۔ ان کی تمام امیدوں پر اس دن پانی پھر گیا جب سوویت یونین ذلت و رسوائی سمیٹے، افغانستان سے رخصت ہوا۔ یہی نہیں بلکہ دنیا کے نقشے سے بھی کیمونسٹ انقلاب کی کہانی تمام ہوئی۔ پورے سوویت یونین میں نو ہزار کے قریب لینن کے مجسمے 1990 ء میں انتہائی نفرت اور حقارت سے گرا دیے گئے۔ اسلام سے دشمنی، مذہب سے نفرت اور ذات خداوندی سے انکار ان ”عظیم دانشوروں” کو اس امریکہ کی چوکھٹ پر لے آیا جسے یہ گذشتہ ایک سو سال سے سامراج، انکل سام اور انقلاب دشمن کہہ کر گالیاں دیا کرتے تھے۔ سارے کیمونسٹ این جی اوز میں تبدیل ہوکر ڈونرز پر پلنے والی سول سوسائٹی بن گئے۔ روس کے جانے کے بعد ان کی آنکھوں میں ایک بار پھر امید کے دیے روشن ہوگئے۔ اس لئے کہ افغان مجاہدین کے مختلف گروہوں کو امریکی سازش کے تحت لڑوا دیا گیا تھا اور پورا افغانستان کھنڈر بنتا جا رہا تھا۔ یہ طنزیہ طور پر مسکراتے، تجزیہ کرتے، افغان امور کے ماہر کہلاتے اور کہتے کہ افغان کبھی صلح پسند نہیں ہوسکتے۔ ان کی تان اس بات پر ٹوٹتی کہ افغانوں کو ملاؤں نے تباہ کر دیا ہے۔ لیکن میرا اللہ بھی خوب تدبیر کرتا ہے۔ یہ سب اسی سرخوشی میں مست تھے کہ 24 جون 1994ء مطابق 15 محروم الحرام 1415ھ کو ملامحمدعمرؒمجاہد کی سربراہی میں ایک گروہ تشکیل پایا۔ ان جانثاروں کی تعداد پچاس سے کم تھی۔ انہوں نے اپنا نام ”طالبان” رکھا۔ یعنی وہ حق کے راستے کے راہی ہیں۔
کس قدر عجز ہے اس نام میں۔ نہ علمائ، نہ فضلاء نہ صالحین بس طالبان۔ پورے افغانستان میں مجاہدین کمندان کی بھتہ خور چیک پوسٹیں قائم تھیں۔ طالبان کے قیام کے فورا بعد قندھار کے آس پاس حکمت یار اور دیگر تنظیموں کے کمندان دارو خان، سرکاتب اور صالح کی پوسٹوں پر حملہ کیا۔ اس حملے کی سربراہی ملا عبدالسلام ضعیف کر رہے تھے۔ اس پہلے معرکے میں فتح کے بعدپھر پورے افغانستان میں طالبان کے قدم نہیں رکے اور انہوں نے صرف چند ماہ میں پچانوے فیصد افغانستان پرایک امن اسلامی ریاست قائم کردی۔ اسکے بعد کے چھ سال افغانستان میں امن و انصاف اور آشتی کے سال ہیں۔ وہ افغان مجاہدین تنظیمیں جنہوں نے پورے افغانستان کو جہنم بنا رکھا تھا ان کا وجود تک نظر نہیں آتا تھا۔ ایک بار پھر انکی امیدیں جاگیں۔ اکتوبر 2001 ء میں جب امریکہ اپنے اڑتالیس حواری ممالک کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو انکا رقص دیدنی تھا۔ یہ پرویز مشرف کی آمریت کی چھتری تلے،اللہ پر توکل رکھنے والوں کا مذاق اڑاتے، ٹیکنالوجی کی برتری کی باتیں کرتے، مذہب پسند لوگوں کو دقیانوسی اور شکست خوردہ قرار دیتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں آج تک یقین نہیں آرہا کہ امریکہ اور عالمی اتحاد بری طرح شکست کھا چکا ہے۔ طالبان
کی جیت کے بعد ان بیچاروں نے امیدیں بھی دیکھو کن رہنماؤں سے لگائی ہیں۔ اشرف غنی اور حامد کرزئی جیسے کردار،جو اگر امریکہ کے جہاز پر سوار نہ ہوتے تو افغانستان میں قدم بھی نہ رکھ پاتے۔ یہ دانشور دن رات خواب دیکھتے ہیں کہ کاش افغان آپس میں لڑ پڑیں، ایک دوسرے کا خون بہائیں، یہ دعائیں کرتے ہیں کہ طالبان پاکستان کے مخالف ہو جائیں۔ یہ بے چینی اور اضطراب میں کبھی بھارت کے سرمائے کی بات کرتے ہیں اور کبھی ایران کے اثر و رسوخ کی۔ میرے اللہ نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام اور دنوں کا چین چھین لیا ہے۔ ان کی تحریروں کا اگر نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو ان کے اذہان میں خوف ناک نفسیاتی امراض برآمد ہوں۔ میرے اللہ نے ان کو اسی آگ میں مسلسل جلانا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کے پرستار، اللہ کی طاقت کے مقابل عالمی معروضی طاقتوں کے سامنے سجدہ ریز، یوں ہی ناکام و نامراد رہیں گے۔ اس لیے کہ یہ اس سرزمین کی بربادی کا خواب دیکھتے ہیں جس کے بارے میں سید الانبیائﷺ نے فرمایا، ”خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے، انہیں کوئی چیز ردّ نہیں کر سکے گی یہاں تک کہ ان سیاہ جھنڈوں کو ایلیا (بیت المقدس) پر نصب کردیا جائے گا (مسند احمد)۔ جن جھنڈوں کی قسمت میں اللہ نے سربلندی لکھی ہے انہوں نے سربلند ہی رہنا ہے۔ ترس آتا ہے ان دانشوروں پر جن کے دل اس کامیابی پر رنجیدہ، دماغ ماؤف اورقلم زہر آلود ہیں
Source: 92 news
Must Read Urdu column Nakaam Hasraton k Ameen By Orya Maqbool jan