نیلسن مینڈیلا کے پاس – جاوید چوہدری
نیلسن مینڈیلا2004 میں ریٹائرمنٹ کے بعد علیل ہو گئے‘ پراسٹیٹ کینسرسے لے کر دل کے امراض تک بے شمار عارضوں نے انھیں گھیر لیا‘ حکومت نے ان کے گھر کو اسپتال اور درجنوں ڈاکٹرز کو ان کا معالج بنا دیا۔
ڈاکٹروں کی اس ٹیم میں ایک نوجوان کارڈیالوجسٹ بھی تھا‘ اس کا نام ڈاکٹر کاشف مصطفی ہے‘ راولپنڈی سے تعلق تھا‘ لندن میں تعلیم حاصل کی اور آخر میں ساؤتھ افریقہ پہنچ گیا‘ دل کی سرجری شروع کی اور اﷲ تعالیٰ نے اسے شفاء کی نعمت سے نواز دیا‘ ڈاکٹر کاشف دائمی سیاح ہیں‘ آدھی سے زائد دنیا دیکھ چکے ہیں اور باقی دیکھنا چاہتے ہیں‘ میں نے سات سال قبل ان کی کتاب ’’دیوار گریہ کے آس پاس‘‘ پڑھی‘ ان کا نمبر تلاش کیا اور یوں ان کے ساتھ رابطہ پیدا ہو گیا‘ دیوار گریہ کے آس پاس فلسطین اور اسرائیل کا سفرنامہ ہے اور یہ کمال کتاب ہے۔
بہرحال قصہ مختصر مجھے کاشف مصطفی کے ساتھ سفر کرنے کا موقع بھی ملا اور پانچ سات مرتبہ ملاقات کا اتفاق بھی ہوا‘ میں نے انھیں ہر بار نفیس‘ شائستہ‘ پڑھا لکھا اور متجسس پایا اور ہر ملاقات کے بعد ان کا مزید گرویدہ ہو گیا‘ یہ ساؤتھ افریقہ کے شہر جوہانس برگ میں رہتے ہیں‘ میں نے ان کی دعوت پر کئی مرتبہ ساؤتھ افریقہ آنے کا فیصلہ کیا لیکن ہر بار ارادہ کسی نہ کسی وجہ سے ٹوٹ جاتا تھا‘ سال بھر سے ویزا بھی لگوا رکھا تھا لیکن اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں اور کبھی ہم نہیں‘ بہرحال اگست کے آخر میں ڈاکٹر صاحب سے رابطہ ہوا اور میں 8 ستمبر کو جوہانس برگ پہنچ گیا۔
ڈاکٹر کاشف مصطفی نے نیلسن مینڈیلا سے متعلق بے شمار واقعات سنائے لیکن ایک واقعے نے دل ہلا کر رکھ دیا‘ ڈاکٹر صاحب کے بقول میں نیلسن مینڈیلا کے گھر نائٹ ڈیوٹی پر تھا‘ وہ اتوار کی رات تھی‘ مینڈیلا دیسی اسٹائل کی چکن کری بڑے شوق سے کھاتے تھے‘ ہم نے ان کے ساتھ کھانا کھایا اور وہ اس کے بعد بیڈروم میں چلے گئے‘ میں رات بھر ان کے کمرے میں رہتا تھا‘ مینڈیلا بیڈروم میں ایزی چیئر پر لیٹ گئے اور انھوں نے آنکھیں بند کر لیں‘ میں ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔
لیٹے لیٹے انھوں نے اچانک آنکھیں کھولیں اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولے ’’سن میں فروری 1990 میں جب 27سال اور دس ماہ بعد جیل سے رہا ہوا تو وہ میری زندگی کا شان دار ترین دن تھا‘ میں نے نئے کپڑے پہنے‘ اپنا سامان لیا‘ اپنے ریلیز آرڈر پر دستخط کیے اور جیل سے باہر آ گیا‘ میں نے طویل عرصے بعد آزاد ہوائیں‘ کھلا آسمان اور اڑتے ہوئے خودمختار پرندے دیکھے‘ میں کبھی اِدھر دوڑتا تھا اور کبھی اُدھر‘ کبھی آسمان کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی سڑک پر ٹہل کر قہقہے لگاتا تھا‘ میں یوں ہی ہنستا ہوا جیل کے احاطے سے باہر آ گیا‘ باہر ڈرائیور گاڑی لے کر کھڑا تھا۔
میں اس کے ساتھ بغل گیر ہوا اور گاڑی میں بیٹھ گیا‘ گاڑی چل پڑی تو میں نے ڈرائیور کو روکا‘ کار سے باہر آیا اور جیل میں واپس چلا گیا اور میں وہاں موجود اُس ایک‘ ایک جیل وارڈن کے پاس گیا جس نے قید کے دوران میرے ساتھ بے تحاشا ظلم اور زیادتی کی تھی‘ میں ان تمام گورے وارڈنز سے ملا اور انھیں بڑے جذبے کے ساتھ کہا ’’میں تمہیں اپنے دل کی انتہائی گہرائی سے معاف کرتا ہوں (آئی فارگیو یو فرام دی باٹم آف مائی ہارٹ)‘‘ وہ سب حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے‘ میں ان سے مل کر واپس آیا‘ گاڑی میں بیٹھا اور گھر آ گیا۔
نیلسن مینڈیلا اس کے بعد خاموش ہو گئے‘ ساؤتھ افریقہ میں مینڈیلا کو پیار سے ماڈیبا کہا جاتا ہے‘ ماڈیبا کا مطلب بڑے ابا یا بڑے پاپا ہوتا ہے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ماڈیبا وائے ڈِڈ یو ہیو ٹو ڈو دِس‘‘ (آپ کو یہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟) وہ مسکرائے‘ میری طرف دیکھا اور کہا ’’بیٹا میں اگر یہ نہ کرتا تو میں جیل سے باہر آ کر بھی باقی پوری زندگی قیدی رہتا‘‘۔
میں نے ڈاکٹر کاشف مصطفی سے یہ واقعہ سنا تو میں بڑی دیر تک سردھنتا رہا‘ نیلسن مینڈیلا حقیقتاً ایک بڑا انسان تھا اور دنیا کے تمام بڑے انسان جانتے ہیں انسان جیل یا حوالات سے باہر نکل کر آزاد نہیں ہوتے‘ یہ اپنے دشمنوں اور ظلم کرنے والوں کو معاف کرنے کے بعد رہا ہوتے ہیں‘ ہم جب تک دوسروں کو ’’باٹم آف دی ہارٹ‘‘ سے معاف نہیں کرتے ہم اس وقت تک قیدی رہتے ہیں‘ شاید اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے بعد اپنے ان تمام دشمنوں کو معاف فرما دیا تھا جو مشکل حالات میں آپؐ کے راستے میں کانٹے بھی بچھاتے تھے‘ پتھر بھی مارتے تھے اور آپؐ پر کوڑا بھی پھینکتے تھے۔
میں نے بے شمار بائیوگرافیز میں بڑے لوگوں کے دوسروں کو معاف کر دینے کے واقعات پڑھے اور ہر بار ایسے واقعات کے بعد درود شریف کا ورد کیا اور رسول اللہ ﷺ کی بار گاہ میں عرض کیا ’’یا حبیب اللہﷺ دنیا کا کوئی بھی بڑا شخص اس وقت تک بڑا نہیں ہو سکتا جب تک وہ آپؐ کی کسی نہ کسی سنت پر عمل نہ کر لے‘‘ اور نیلسن مینڈیلا سیاسی اور سماجی لحاظ سے سنتی تھا‘ میں نے کسی جگہ ان سے متعلق ایک اور واقعہ بھی پڑھا تھا۔
نیلسن مینڈیلا صدر کی حیثیت سے اپنے اسٹاف کے ساتھ ٹریول کر رہے تھے‘ یہ راستے میں لنچ کے لیے ایک ریستوران میں رکے‘ یہ اسٹاف کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے‘ انھوں نے اچانک دیکھا ریستوران کے کونے میں ایک بوڑھا انگریز اکیلے بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا‘ نیلسن مینڈیلا نے اسے دیکھا‘ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں‘ انگریز پریشان ہو گیا‘ مینڈیلا نے اپنے اسٹاف کے کان میں کچھ کہا‘ وہ لوگ اٹھے اور انگریز کی طرف چل پڑے‘ انگریز نے گھبرا کر کانپنا شروع کر دیا‘ وہ اس کے پاس پہنچے اور نہایت شائستگی سے اس سے کہا ’’صدر چاہتے ہیں آپ ان کے ساتھ کھانا کھائیں‘‘۔
انگریز مزید پریشان ہو گیا لیکن اسٹاف اسے منا کر صدر کی ٹیبل پر لے آیا‘ مینڈیلا کے ساتھ اس وقت سینئر وزراء بھی بیٹھے تھے اور آرمی چیف اور ائیرفورس کا سربراہ بھی‘ مینڈیلا نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا‘ اسے گلے لگایا‘ اسے بڑے پیار کے ساتھ بٹھایا‘ اپنے ہاتھ سے اسے کھانا ڈال کر دیا اور گلاس میں پانی ڈال کر اس کے ہاتھ میں پکڑایا‘ وہ بے چارہ اس سلوک کی توقع نہیں کر رہا تھا لہٰذا اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے اور آنکھوں میں آنسو تھے‘ بہرحال قصہ مختصر انگریز نے کھانا کھایا اور اس دوران اس نے جب بھی گلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا‘ مینڈیلا نے گلاس اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دیا۔
وہ رخصت ہونے لگا تو مینڈیلا ایک بار پھر اس سے گلے ملے اور اسے اس کی گاڑی تک چھوڑ کر آئے‘ وہ چلا گیا تو مینڈیلا کے ساتھیوں نے کہا ’’ہمیں انگریز ابھی تک اپنا حکمران نہیں مان رہے لہٰذا یہ جب بھی آپ کو دیکھتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں‘‘ نیلسن مینڈیلا نے ہنس کر پوچھا ’’کیا آپ یہ سمجھتے ہیں وہ شخص اپنے سامنے ایک کالے صدر کو دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا؟‘‘ ساتھیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ہنس کر ہاں میں سر ہلا دیا‘ نیلسن مینڈیلا ایک بار پھر مسکرائے اور پھر آہستہ سے کہا ’’میرے دوستو یہ وجہ نہیں ہے‘ یہ شخص دراصل جیل میں میرا نگران تھا‘ یہ دس سال میرے اوپر ظلم کرتا رہا۔
میں جب پیاس سے بے حال ہو کراس سے پانی مانگتا تھا تو یہ جیل کی سلاخوں سے دوسری طرف کھڑے ہو کر میرے اوپر پیشاب کر دیتا تھا‘ میرا آج اس سے اچانک ٹاکرا ہوا تو یہ گھبرا گیا اور میں نے محسوس کیا میں نے اگر اس کا خوف ختم نہ کیا تو یہ شاید شرمندگی سے فوت ہی نہ ہو جائے چناں چہ میں نے اسے اپنے پاس بٹھایا‘ اپنے ہاتھ سے اسے کھانا کھلایا اور یہ کھانے کے دوران جب بھی پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا تو میں اسے فوراً پانی کا گلاس پکڑاتا تھا‘‘ سننے والوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انھوں نے مینڈیلا سے پوچھا ’’ماڈیبا کیا آپ کو اسے دیکھ کر غصہ نہیں آیا تھا‘‘۔
مینڈیلا نے ہنس کر جواب دیا ’’آیا تھا بلکہ بہت زیادہ آیا تھا لیکن مجھے پھر اچانک محسوس ہوا میں نے اگر آج اس کی توہین کی یا اپنی بے عزتی کا بدلہ لیا تو میں اس سے کہیں زیادہ بدتر ہو جائوں گا کیوں کہ میں آج اس سے کئی گنا زیادہ مضبوط پوزیشن پر ہوں‘‘ مینڈیلا کا کہنا تھا ’’معاف کر دینا کائنات کا سب سے بڑا انتقام ہوتا ہے اور میں نے اسے معاف کر کے اس سے اس کی روح چھین لی‘ یہ اب نسلوں تک مجھے بھلا نہیں سکے گا‘‘۔
نیلسن مینڈیلا کی قید کا زیادہ عرصہ رابن آئی لینڈ میں گزرا ‘ یہ 18سال یہاں محبوس رہے‘ رابن آئی لینڈ کیا اور کیسا ہے اور مینڈیلا نے وہاں کس عالم میں زندگی گزاری؟ یہ میں آپ کو اگلے کالموں میں بتائوں گا لیکن سردست میں برطانوی شاعر ولیم ارنسٹ ہینلے (William Ernest Henley) کی نظم انوکٹس (Invictus) کا ذکر کروں گا‘ نیلسن مینڈیلا قید کے سارے عرصے میں یہ نظم پڑھتے رہے‘ نظم کے آخری دو مصرعے ان کی زندگی کا نصب العین بن گئے
نیلسن مینڈیلا پوری زندگی یہ دو مصرعے گنگناتے رہے اور وہ مصرعے تھے ’’آئی ایم دی ماسٹر آف مائی فیٹ… آئی ایم دی کیپٹن آف مائی سول‘‘ ارنسٹ ہینلے اور انوکٹس دونوں غیرمعروف تھے لیکن نیلسن مینڈیلا نے انھیں عالمی اور ملکوتی شہرت دے دی‘ وہ ہمیشہ یہ شعر سنا کر سننے والوں سے کہتے تھے‘ انسان کو اپنی قسمت (Fate) کا معمار اور اپنی روح کا کپتان خود ہونا چاہیے اور آپ جب غصے اور انتقام کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں تو آپ ماسٹر رہتے ہیں اور نہ کپتان‘ آپ ظالموں کے قبیلے میں شامل ہو کر خود بھی ظلم کے غلام بن جاتے ہیں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Nelson Mandela kay Pass By Javed Chaudhry