18 سال قبل بھی نوازشریف 14 سال قید اور21 سال کیلئے سیاست سے الگ کیا گیا تھا لیکن وہ پھر واپس کیسے آگئے اور کس ادارے نے کیا کردار نبھایا؟ انتہائی دلچسپ تفصیلات منظرعام پر
جمعہ کے روز احتساب عدالت نمبر 1 کے جج محمد بشیر کی جانب سے دیا گیا فیصلہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے لئےنیا نہیں جنہیں اٹک قلعہ میں ٹرائل کے بعد جولائی 2000 میں احتساب عدالت کی جانب سے کرپشن کے الزامات پر 14 سال قید کی اور 21 سال سیاست سے الگ رہنے کی سزا دی گئی تھی۔
روزنامہ جنگ کے مطابق گزشتہ روز نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر ایون فیلڈ کیس میں 10 سال جیل کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جیل اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال جیل کی سزا سنائی گئی ہے۔ 2000 کی احتساب عدالت سابق فوجی آمر پرویز مشرف کی جانب سے بنائی گئی تھی جس نے فیصلہ دیا تھا کہ نواز شریف ایم آئی 8 ہیلی کاپٹر کی خریداری، اس کی دیکھ بھال اور آپریشن کے اخراجات کو صحیح ثابت کرنے میں
ناکام رہے اور ان پر 2 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ اس وقت کی احتساب عدالت نے فیصلہ دیا کہ نواز شریف سیکشن 10 کے تحت اور نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 کے تحت مجرم پائے گئے اور انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ یہ کیس ایک سویلین ہیلی کاپٹر کے گرد گھومتا ہے جو نواز شریف کے مطابق 1990 کے وسط سے ان کی ملکیت رہا ہے۔ جج فرخ لطیف کا کہنا تھا کہ سرکاری عہدہ رکھنے والے اور رہنماﺅں کو دیانتدار اور ظاہر و باہر ہونا چاہئے۔
مشرف دور کی احتساب عدالت نے تحریری فیصلے میں لکھا کہ قوم توقع کرتی ہے کہ ان کے رہنماﺅں کو ہر شک و شبہ سے بالاتر ہونا چاہئے۔ لیکن تقریباً 9 سال بعد 26 جون 2009 کے دن جو اتفاقاً جمعہ کا ہی دن تھا، لاہور ہائی کورٹ کے ڈویڑن بنچ، راولپنڈی بنچ نے ایم آئی 8 ، روسی ہیلی کاپٹر کی خریداری کے ریفرنس میں بتائے گئے ذرائع آمدن سے متجاوز ہونے پر نواز شریف کی سزا یابی کو منسوخ کردیا۔ مختصر فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کے بنچ نے کہا کہ انصاف کے خاتمے کو محفوظ بنانے کیلئے ہم اپیل دائر کرنے میں التوا کو درگزر کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ٹرائل کورٹ کے فیصلہ جو 22 جولائی 2000 کو دیا گیا تھا جس میں میاں نواز شریف کو مجرم قرار دیا گیا تھا اور سزا سنائی گئی تھی وہ ان وجوہات کی بنیاد پر منسوخ کیا گیا؛1) درخواست گزار پر لگے الزامات سے متعلق ناکافی شواہد۔2) ٹرائل کورٹ کی جانب سے کی کارروائیوں کے دوران کی گئیں بے قاعدگیاں اور ناقابل قبول بے ضابطگیاں۔ 3) استغاثہ کی جانب سے نمایاں غلطیاں ، درخواست گزار کو تمام الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔ 23 اپریل 2009 کو نواز
شریف نے اپنی سزایابی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ جولائی 2000 کے فیصلے کے چند ماہ بعد مشرف نے نواز شریف اور ان کے خاندان کو سعودی عرب کی جانب سے ایک مبینہ ڈیل میں پاکستان چھوڑجانے کی اجازت دی تھی۔ 25 نومبر 2007 کو پاکستان واپس آنے کے بعد نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ کے دھڑے سے 2008 کے انتخابات میں حصہ لیا اور ان کی جماعت پارلیمنٹ میں دوسری بڑی جماعت بن گئی اور چند ماہ تک حکومتی اتحاد کا حصہ رہی۔ وطن واپسی کے بعد اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے نواز شریف کے خلاف مبینہ کرپشن کے تمام الزامات ختم کرئیے گئے۔ 7 جون 2013 کو نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا جوکہ ایک ریکارڈ ہے۔