200 پاکستانیوں کی بیویاں لاپتہ ، مگر یہ کہاں اور کس کی تحویل میں ہیں ؟ جان کر آپ کو یقین نہیں آئے گا
پاکستانی شہری چوہدری جاوید عطا نے آخری بار اپنی بیوی کو ایک سال پہلے دیکھا تھا۔ تب یہ پاکستانی تاجر چین کے شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ سے اس لیے واپس پاکستان جا رہے تھے کہ اپنے ویزے کی تجدید کروا سکیں۔چوہدری جاوید عطا خشک اور تازہ پھلوں کے ایک ایسے پاکستانی تاجر ہیں،
جو سنکیانگ میں ایغور مسلم نسل کی اپنی چینی بیوی کے ساتھ اپنے گھر میں خوشی سے رہ رہے تھے۔ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ ان کی چینی اہلیہ نے ان سے آخری بات یہ کہی تھی، ’’جیسے ہی تم جاؤ گے، وہ (چینی حکام) مجھے کسی کیمپ میں لے جائیں گے اور پھر میں کبھی واپس نہ لوٹ سکوں گی۔‘‘یہ اگست 2017ء کی بات ہے۔ تب جاوید عطا اور چین میں ایغور مسلم نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والی ان کی اہلیہ امینہ ماناجی کی شادی کو 14 برس ہو چکے تھے۔
چوہدری جاوید عطا پاکستان کے ان قریب 200 کاروباری افراد میں سے ایک ہیں، جن کی چینی بیویاں لاپتہ ہو چکی ہیں۔ ان چینی خواتین کو ملکی حکام ’تعلیمی تربیتی مراکز‘ کہلانے والے کیمپوں میں پہنچا چکے ہیں۔بیجنگ حکومت پر الزام ہے کہ اس نے ملک میں مسلم اقلیتی آبادی کے قریب ایک ملین تک افراد کو نظربندی کیمپوں میں بند کر رکھا ہے۔ جہاں ان مسلم شہریوں کی انہیں ان کے مذہب سے دور کرنے کے لیے ’نئے سرے سے تربیت‘ کی جا رہی ہے۔ بیجنگ حکومت نے یہ قدم سنکیانگ میں ہونے والے ان مظاہروں اور بدامنی کے واقعات کے ردعمل میں اٹھایا، جن کے لیے سرکاری طور پر ایغور علیحدگی پسندوں کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے۔