2018 کےعام انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں ؟ بی بی سی کی تازہ ترین رپورٹ ملاحظہ کیجیے

رواں سال ہونیوالے عام انتخابات سے قبل عمران خان نے ’’نیا پاکستان‘‘ کا نعرہ دیا ہے ۔ سابق کرکٹر کی کامیابی کے کیا امکانات ہیں؟ اور وہ کون سے الیکٹ ایبلز ہیں، جن سے عمران خان کو امید ہے کہ اس کی مدد کرینگے ؟ عمران خان نے لاہور میں ہزاروں کے جلسے

سے خطاب کیا، اور اپنی پارٹی کی انتخابی مہم شروع کی۔ عام انتخابات کی تاریخ کا ابھی اعلان نہیں ہوا، تاہم امکان ہے کہ جولائی یا اگست میں ہونگے ۔ اپنے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ وہ ایک نیا پاکستان بنائیں گے جس میں ہر شخص جواب دہ بنایا جائے گا۔ وہ تعلیم اور صحت کے نظام میں بہتری کے علاوہ ٹیکس وصولیوں میں اضافہ اور کرپشن میں کمی لانا چاہتے ہیں۔ حکمران مسلم لیگ ن کی 186کے مقابلے عمران خان کی پی ٹی آئی کی پارلیمنٹ میں 32نشستیں ہیں ۔ حالیہ پول سروے کے مطابق پی ٹی آئی کی مقبولیت ن لیگ سے کم ہے ، حالانکہ 2013کے الیکشن کے مقابلے

میں مارجن کم ہے ۔ بی بی سی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ پول سروے انتہائی گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔ عمران خان نے کرپشن کے خلاف لڑائی کو اپنی پارٹی کا مرکزی نکتہ بنا رکھا ہے ۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ کرپشن اور گورننس پاکستان کے بڑے مسائل ہیں، انہیں یقین ہے کہ ان کی انتخابی مہم کی وجہ سے غیر فیصلہ کن ووٹروں کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف ہو جائے گا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اس وقت احتساب عدالت میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

امکان ہے کہ چندہفتے تک ان کا فیصلہ ہو جائیگا ، جس کے نتیجے میں جیل جا سکتے ہیں۔ انہیں گزشتہ سال نااہل قرار دیا گیا، جس کے بعد ان کے خاندان کے خلاف انکوائری شروع ہو گئی۔ یہ سب عمران خان کی مہم کے نتیجے میں ہوا۔ اس کے باوجود نواز شریف ایک مقبول رہنما ہیں، نااہلی کے بعد وہ کئی بڑے جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ نواز شریف کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی برطرفی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے ،کیونکہ کئی اہم امور جس میں پاک بھارت تعلقات شامل ہیں، پر دونوں کے اختلافات تھے ۔ پاک فوج اور عمران خان اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ عمران

خان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کو 1990کی دہائی میں فوج نے ہی پروان چڑھایا تھا۔ ان کے مطابق موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ سب سے زیادہ جمہوریت کے حامی شخص ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے اس پر نصف سے زائد عرصہ فوج نے حکومت کی ہے ، ملکی زندگی کے ہر شعبے میں فوج کا گہرا اثرورسوخ ہے ، پاکستان میں سیاست کو عام طور پر سول ملٹری تعلقات کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے ۔ عمران خان نے بی بی سی سے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں فوج کے کردار سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔

انتہاپسندی پر عمران خان کا موقف؟ عمران خان پر الزام ہے کہ وہ انتہاپسندوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں اکثر طالبان خان کہا جاتا ہے ۔ وہ اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہیں، ان کے مطابق انہوں نے صرف باغی گروپوں کے ساتھ امن مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے پاکستان کو ’’لبرل‘‘ ملک بنانے سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ لبرل ازم یا بنیاد پرستی نہیں، بلکہ گورننس ہے ۔ ڈھائی کروڑ بچے سکولوں میں نہیں جاتے ، پاکستان میں بچوں کی شرح اموات دنیا میں بلند ترین ہے ۔ مغرب پاکستان کو لبرل ازم یا

بنیاد پرستی کے حوالے سے دیکھتا ہے ۔ حالانکہ یہ کوئی مسئلہ نہیں، ہر انسانی معاشرے کے اپنے انتہاپسند اور لبرل ہوتے ہیں۔پاکستان کے دیگر سیاستدانوں کی طرح عمران خان بھی امریکی الزام کی تردید کرتے ہیں کہ پاکستان اٖفغان طالبان اور ان کے اتحادیوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کر رہا ہے ۔ لاہور کے جلسے میں عمران خان کے پارٹی کے بعض سینئر رہنماؤں نے نعرے لگائے ، ’’جو امریکہ کا یار ہے ، غدار ہے ، غدار ہے ‘‘۔ عمران خان نے بی بی سی سے کہا کہ امریکہ بدترین افغان پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔

وہ 16سال سے فوجی حل کی کوشش کر رہا ہے جس میں وہ ناکام ہے ۔ پاکستان میں محفوظ ٹھکانے کہاں ہیں؟ وہ نشاندہی کریں۔ ستر ہزار پاکستانی امریکہ کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں۔ الیکٹ ایبلز کون ہیں؟ منتخب ہو نے کی صلاحیت کے حامل ان سیاستدانوں کا اپنا ذاتی ووٹ بینک ہوتا ہے ،وہ کسی سیاسی جماعت کی آئیڈیالوجی سے جڑے نہیں ہوتے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں کہ کرپشن کے مقدمات میں نواز شریف کی سزا کا مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک پر کیا اثر پڑے گا۔ بعض مبصرین کو یقین ہے کہ سزا سے نواز شریف کی بطور شہید حمایت بڑھ سکتی ہے ۔ بعض کے مطابق اس صورت میں اپنے زور پر منتخب ہونیوالے وفاداری تبدیل کرکے پی ٹی آئی میں جا سکتے ہیں۔ عمران خان کے مطابق الیکٹ ایبلز ارکان کا اپنے علاقوں میں ٹریک ریکارڈ بہت

اچھا ہے ، بعض نے انتخابی کامیابی کیلئے موثر نیٹ ورک بنا رکھا ہے ۔ تاہم کسی داغدار سیاسی ریکارڈ رکھنے والے کو اپنی پارٹی میں شامل نہیں کرینگے ۔ سینئر صحافی افتخار احمد کے مطابق پنجاب کے 60حلقوں میں ایسے الیکٹ ایبلز امیدوار ہیں جنہیں اگر اپنا مفاد محسوس ہوا تو وہ وفاداری تبدیل کرکے پی ٹی آئی میں جا سکتے ہیں۔ عمران خان اور مسلم لیگ ن کے درمیان اصل میدان پنجاب میں لگے گا، جس کی 272کے ایوان میں نصف سے زائد نشستیں ہیں ۔(ع،ع)

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.