4 سال قبل زندہ بچے کی جگہ مردہ بچہ وصول کرنیوالی ماں آج بھی دربدر
سندھ ہائی کورٹ نے سرکاری اسپتالوں میں نومولود بچے بدل دیے جانے سے متعلق پولیس کو آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
دو رکنی بینچ کے روبرو سرکاری اسپتالوں میں نومولود بچوں کی تبدیلی سے متعلق سماعت ہوئی جس میں درخواست گزار حنا اشتیاق نے اپنا بچہ واپس لینے کے لیے عدالت میں دہائیاں دیں۔ حنا اشتیاق نے کہا کہ مجھے ثابت کردیں کہ میرا بچہ زندہ نہیں مر چکا ہے تو مجھے صبر آجائے گا، ڈی این اے ایسی لیبارٹری سے کروایا جو شراب کو شربت ثابت کرتی ہے۔
حنا اشتیاق نے اصرار کیا کہ سوشل میڈیا پر ایک سال کے بچے کی تصویر دیکھی، یہ میرا بیٹا ہے، عدالت بس ایک مرتبہ میرا اور اس بچے کا ڈی این اے کروا دیں۔
حنا اشتیاق نے مزید کہا کہ میں نے 5 جنوری 2016ء کو سول اسپتال میں بچے کو جنم دیا اور پھر میرا بیٹا اچانک غائب کر دیا گیا، ہنگامہ کرنے پر 17 دن بعد مردہ بچے کی لاش حوالے کر دی گئی، یقین ہے کہ میرا بیٹا زندہ ہے اور کسی کے پاس ہے، دن کو سکون ہے نہ رات کو سو سکتی ہوں عدالت انصاف کرے۔
جج نے حکم دیا کہ سوشل میڈیا پر نظر آنے والے بچے کے والدین کو تلاش کیا جائے، معلومات کریں پھر کوئی کارروائی کی جائے۔ عدالت نے سیکرٹری صحت کو بچے کے تبادلے کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ ایسے انتظامات کیے جائیں کہ نومولود کسی صورت بدلے نہ جاسکیں۔ عدالت نے پولیس کو آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔