’میری شادی اس 60 سالہ بوڑھے سے کرادی گئی، سہاگ رات پر اس کی توقع کے مطابق یہ کام نہ ہوا تو۔۔۔‘
رقم کے لالچ میں امیر ہوس پرست بوڑھوں کو کم سن بیٹیاں فروخت کر دینا ہم سے پسماندہ معاشروں میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ایسی ہی ایک نوعمر لڑکی کی عمررسیدہ وڈیرے کے ساتھ شادی کی ایک کہانی ویب سائٹ ’پڑھ لو‘ نے بیان کی ہے۔یہ بدنصیب لڑکی 14سال کی تھی جب اس پر گاﺅں کے چوہدری کا دل آ گیا، جو کنواری لڑکیاں بیاہنے کا رسیا تھا۔ لڑکی کی ماں نے اس وڈیرے کے ساتھ اپنی بیٹی کا سودا کر لیا اور اسے یقین دلایا کہ اس کی بیٹی کنواری ہے۔ بیٹی، جسے اس کے ماں باپ نے پیدائش کے بعد قبول ہی نہیں کیا تھا اور اس کے ساتھ ہمیشہ سے جانوروں جیسا سلوک کرتے آ رہے تھے، وڈیرے کے ساتھ اس سودے پر اچانک اس پر محبت نچھاور کرنے لگے۔
لڑکی اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ ”جب میری ماں نے میرا سودا کر لیا تو شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ دولہا کی طرف سے عروسی جوڑا اور دیگر تحائف آنے لگے تھے۔ شادی سے ایک رات قبل مجھے مہندی لگائی گئی۔ ان تمام دنوں میں میرے گھر کے تمام فرد، جو تمام عمر مجھ پر بدترین تشدد کرتے آئے تھے، مجھے کھانے کو انتہائی کم دیتے تھے بلکہ اکثر فاقے سے رکھتے تھے، اچانک تبدیل ہو گئے۔ میں ان کے اس سودے سے آگاہ تھی چنانچہ ان کے روئیے میں آنے والی اس تبدیلی پر دل ہی دل میں ہنسی تھی۔ میں نے بھی ان سے انتقام لینے کی ٹھان لی تھی۔ شادی کا دن آ پہنچا اور میں بہت خوش تھی، شادی پر نہیں بلکہ اس بات پر کہ میرے انتقام لینے کی گھڑیاں نزدیک آ رہی تھیں۔ بارات آئی، مجھے سجا سنوار کر آنگن میں بیٹھے میرے دولہا کے ساتھ لیجا کر بٹھا دیا گیا۔ مجھے نہیں معلوم وہاں کتنا وقت گزرا، کیونکہ مجھے وقت کا کچھ احساس ہی نہیں رہا تھا۔ پھر رخصتی کا وقت آ گیا۔ میری ماں مجھے گلے لگا کر رو رہی تھی اور میں اندر ہی اندر ہنس رہی تھی۔“
لڑکی مزید لکھتی ہے کہ ”دولہا کے گھر پہنچ کر میں گاڑی سے اتری تو سامنے اس کی بہت بڑی حویلی تھی۔ مجھے ایک بہت بڑے گلاب کے پھولوں سے سجے ہوئے کمرے میں لیجا کر بیڈ پر بٹھا دیا گیا۔ کچھ وقت گزرا اور میرا دولہا اندر آ گیا۔ میں نے اسے دیکھا۔ اس کی عمر 60سال سے زیادہ تھی، اس وقت میری عمر صرف 14سال تھی۔ اس نے شراب پی رکھی تھی۔ مجھے دیکھ کر اس نے کہا کہ’تمہاری ماں نے ٹھیک کہا تھا کہ تم بہت خوبصورت ہو، وہ مجھ سے زیادہ رقم بھی مانگتی تو میں دے دیتا، تم مجھے بہت سستی مل گئی ہو۔“ وہ میرے قریب آیا ، میرے سر سے دوپٹہ اتارا، میرے زیورات اتارے اور پھر مجھے مکمل برہنہ کر دیا۔ میں نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس کے بعداس نے مجھے اٹھ کر کھڑے ہونے کو کہا۔ وہ میرے ایک ایک عضو کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا، وہ مجھے
نہیں بلکہ اپنی خریدی ہوئی چیز کو دیکھ رہا تھا کہ کہیں اس کی رقم ضائع تو نہیں گئی۔ پھر اس نے ایک جھٹکے سے مجھے کھینچ کر بستر پر گرا دیا اور میرے اوپر لیٹ گیا۔ جیسے ہی اس نے میرے ساتھ مباشرت شروع کی، اسے معلوم ہو گیا کہ وہ جو چیز چاہ رہا تھا وہ مجھ میں نہیں ہے۔ میرا پردہ¿ بکارت پھٹنے سے نکلنے والا خون نہیں نکلا تھا۔ اس پر وہ غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ کیوں نہ ہوتا، اس کی ساری سرمایہ کاری ضائع ہو رہی تھی۔ اسے یہی ایک چیز تو چاہیے تھی جو اس سودے کا سننے کے بعد میں نے اپنے گھر والوں سے انتقام لینے کے لیے اپنے ہاتھوں سے ختم کر دی تھی۔میں جانتی تھی کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔ یہ وڈیرا جھوٹ بولنے پر میری ماں کو سرعام تشدد کا نشانہ بنائے گا، اسے سودے کی رقم بھی نہیں دے گا اور پھر خاندان سمیت اسے گاﺅں سے بھی نکال باہر
کرے گا۔ یہی تو میں چاہتی تھی۔ مجھے اپنی کوئی پروا نہیں تھی۔ میں تو بچپن ہی سے تشدد سہنے کی عادی تھی اور اب بھی چہرے پر ایک مسکراہٹ لیے اپنی سہاگ رات میں اپنے دولہا کے گھونسے اور لاتیں سہہ رہی تھی۔مجھے یہ سوچ کر ہی بے حدخوشی مل رہی تھی، کہ اگلی صبح مجھ پر تمام عمر تشدد کرنے اور بالآخر ایک بوڑھے کے ہاتھوں فروخت کرنے والے ماں باپ اور 4بھائیوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔“