یہ سب صرف چند سیکنڈز میں ہوا ، اور میں نے دیکھا کہ میں پاکستانی طیاروں کے سامنے تھا ۔۔۔۔۔ فضا میں مجھ پر کیا بیتی ؟ انڈین پائلٹ ابھی نندن کی آپ بیتی ملاحظہ کریں

نامور کالم نگار محمد عرفان صدیقی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ صرف چند سیکنڈ میں ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں زندگی کی بہت بڑی غلطی کرچکا ہوں اور آنے والے اگلے چند سیکنڈ شاید میری زندگی کے آخری سیکنڈ بھی ہو سکتے ہیں۔ میں اُس وقت اپنے مگ 21کے کاک پٹ میں موجود تھا اور پاکستانی جے ایف تھنڈر کو

نشانہ بنانے کی کوشش میں اب خود اُس کے نشانے پر آچکا تھا۔ صرف چند سیکنڈ قبل جو پاک فضائیہ کا جہاز میرے بالکل سامنے تھا اچانک ہی دائیں بائیں ہوتے ہوئے نو ے درجے کے زاویے سے ہوا میں بلند ہوا اور اگلے چند سیکنڈ میں وہ میرے پیچھے آچکا تھا۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ پیچھے سے جے ایف تھنڈر کی جانب سے ہٹ کیا جانے والا میزائل میرے مگ 21سے ٹکرایا اور میرا جہاز بری طرح تباہ ہو گیا اور اس وقت میرے پاس ایجیکٹ کرنے کے سوا دوسرا کوئی چارہ نہ تھا، مجھے نشانہ بنانے کے بعد پاکستانی جہاز اپنے اگلے مشن پر روانہ ہو گیا تھا۔ ہوا میں بلند ہوتے ہی چند دن پہلے کے واقعات فلم کی طرح میرے ذہن میں چلنے لگے، اِس سے قبل ہماری فضائیہ نے پاکستان میں جو سرجیکل اسٹرائیکس کی تھیں، اُس سے ہماری قوم کا ہر فرد ایک نشے سے سرشار تھا۔ ہماری ایئرفورس کو احکامات ملے تھے کہ رات کے اندھیرے میں سرحد پار شہری آبادی پر حملہ کرنا ہے، جہاں ہلاک ہونے والوں کو بھارتی میڈیا کے ذریعے دہشت گرد ثابت کیا جانا تھا لیکن ہوا یہ کہ پاکستانی سرحدوں میں داخل ہوتے ہی پاکستانی طیاروں نے ہمارے طیاروں کو گھیرنے کی کوشش کی جس کے بعد جہاں جگہ ملی ہمارے طیاروں نے بم گرائے اور سلامتی کے ساتھ واپس اپنے ہوائی اڈوں پر پہنچ گئے، جس کے بعد ہمارے میڈیا نے طے شدہ منصوبے کے تحت تین سو سے زائد دہشت گردوں کی ہلاکت کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔

میں بھی اپنے وزیراعظم اور پوری قوم کی طرح پاکستان پر سرجیکل ایئر اسٹرائکس کے بعد خود کو بہت طاقت ور محسوس کر رہا تھا، میں بھارتی فلموں سے بہت متاثر تھا اور معروف بھارتی بالی وڈ ڈائریکٹر منی رتنم کی انڈین ایئرفورس پر بنائی جانے والی فلم میں بطور ٹیکنیکل ایڈوائزر خدمات بھی انجام دے چکا تھا اور اس وقت پاک بھارت کشیدگی میں پاکستان کے قریبی ایئربیس پر تعینات معرکے کے انتظار میں تھا۔ پاکستان میں ایئراسٹرائکس اور پھر بھارتی میڈیا کے خطرناک پروپیگنڈے اور وزیراعظم صاحب کی جانب سے ہماری سرحدی خلاف ورزی کو جنگی فتح قرار دینے اور اس کے ذریعے اگلے الیکشن میں کامیابی کے دعوئوں سے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ پاکستان اس وقت زخمی شیر کی طرح کسی بھی وقت حساب برابر کرنے کی کوشش کرے گا اور پھر اگلی ہی صبح ہمیں اطلاع ملی کہ پاکستانی ایئرفورس نے ہماری طرف والے کشمیر میں حملہ کیا ہے ہمیں فوری طور پر ان کا مقابلہ کرنے کے احکامات ملے ہم نےپاکستان ایئرفورس کے دو جہازوں کو دیکھا جو حملہ کر کے واپس روانہ ہو رہے تھے، ہم ان کا پیچھا کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں داخلہ ہو گئے لیکن کچھ ہی دیر میں احساس ہو گیا کہ ایک منصوبہ بندی کے ذریعے پاکستان ایئرفورس کے جہاز ہمیں آزاد کشمیر میں لے آئے ہیں تاکہ ان پر یہ الزام نہ لگ سکے کہ اُنہوں نے ہمیں ہمارے ہی دیش میں آکر مارا ہے۔ اِسی ادھیر بُن میں، مَیں ایک نالے میں لینڈ کر گیا، ابھی میں سنبھل بھی نہ سکا تھا کہ مقامی لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے۔

اتنے میں مجھے پاک فوج کے جوان نظر آئے جو مجمع کو چیرتے ہوئے مجھ تک پہنچے اور مشتعل ہجوم سے بچاتے ہوئے مجھے گاڑی میں بٹھایا۔ ایک نامعلوم مقام پر لے گئے آنکھوں پر پٹی بندھی تھی سوال جواب ہوئے، ہر طرح سے میرا خیال رکھا، بہترین کھانا فراہم کیا گیا، شاندار چائے بھی پیش کی گئی۔ جس نے مجھے مودی صاحب کی یاد دلادی، میں نے تو یہی سمجھ لیا تھا کہ شاید اب زندگی کے بقایا دن پاکستان میں گزارنا پڑیں گے لیکن یہاں کی حکومت کی ہر ممکن کوشش تھی کہ خطے کے ڈیڑھ سو کروڑ افراد کو جنگ کی نہیں بلکہ امن اور ترقی کی ضرورت ہے لہٰذا کسی بھی طرح کی جنگ سے گریز کیا جائے، یہاں میں نے اپنی زندگی کے بہترین دن گزارے، میں نے فیصلہ کیا میں ہر سوال کا سچ جوابات دوں گا۔ میر ا انٹرویو ہوا، جس کے بعد مجھے ایک کمرے میں بھارتی نیوز چینل بھی دکھایا گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اب میں بھارت میں ایک بھگوان کی صورت اختیار کر چکا ہوں، کئی جگہ میری پوجا شروع ہو چکی تھی، میری بہادری کے چرچے ہر سو تھے، میں ایک ہارے ہوئے قیدی کے بجائے خود کو ایک فاتح جنرل تصور کر رہا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ کل مجھے رہا کیا جا رہا ہے میں خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ مجھے نیا برانڈڈ سوٹ بطور تحفہ پاک فوج کی جانب سے دیا گیا اگلی شام کو چھ گاڑیوں کے پروٹوکول میں واہگہ بارڈر تک پہنچایا گیا۔ مجھے یقین تھا کہ سامنے سے ایک سلیوٹ مجھے میری بہادری کے انعام کے طور پر دیا جائے گا لیکن میری کمر پر ہاتھ رکھ کر ایک قیدی کی طرح مجھے لے جایا گیا اور ایک گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ مجھے ایئرفورس سے ریٹائر کردیا گیا، بیوی بچوں سے تاحال نہیں ملنے دیا گیا، غرض لگ رہا ہے میں اصل قید میں اب آیا ہوں آگے کیا ہو گا بھگوان جانے لیکن پاکستان میں گزارے گئے وہ چھپن گھنٹے زندگی کے یادگار ترین گھنٹوں میں سے تھے، دل سے کہتا ہوں پاکستان زندہ باد۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.