یہ ہے پاک فوج کا بدلہ : ابھینندن کو تو گِرا کر واپس بھارت بھجوا دیا گیا مگر دوسرے طیارے کااسرائیلی پائلٹ اس وقت کہاں اور کس حال میں ہے؟ دھماکہ خیز بریکنگ نیوز

مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی فضائی حملے کے فوراً بعد بدھ کی صبح کنٹرول لائن کے اوپر ہونے والی فضائی جھڑپ میں دو بھارتی طیارے تباہ ہوئے جس کے بعد پاکستان نے پہلے بھارت کے دو پائلٹ گرفتار کرنے کا اعلان کیا تاہم بعد ازاں بتایا گیا کہ

ایک ہی پائلٹ حراست میں ہے،اب تجزیہ نگار ظفرہلالی نے دعویٰ کیا ہے کہ دوسرا پائلٹ جو گرفتار ہوا وہ اسرائیلی ہے اسی وجہ سے اس معاملے پر خاموشی اختیار کرلی گئی ہے۔ تاہم ظفر ہلالی یہ انکشاف کرنے والے واحد شخص نہیں ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور اور پھر وزیراعظم عمران خان نے دو پائلٹوں کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا جن میں سے ایک سی ایم ایچ میں داخل بتایا گیا تھا۔ لیکن رات کو فوجی ترجمان نے ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ صرف ایک ہی پائلٹ پاکستان کے پاس ہے۔ظفر ہلالی نے بدھ کی شب نجی ٹی وی 92 نیوز پر بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ابھی نندن کو بھول جائیں۔ وہ تو بڑے لوگوں کے کہنے پر ہم نے چھورا۔ ہمارے پاس ایک اسرائیلی پائلٹ ہے۔ ہم نے ایک اسرائیلی پائلٹ کو گرایا ہے اور اس کو پکڑا ہے۔ اور وہ ہمارے قبضے میں ہے۔ جتنا میرا انفارمیشن ہے وہ یہ بتا رہا ہے۔‘‘ظفر ہلالی نے کہا کہ اس پائلٹ کے لیے اسرائیل نے امریکہ سے اپیل کی تھی اور امریکہ اسرائیل کے ساتھ ہے، اس نے پاکستان سے بات کی۔ ظفر ہلالی کا کہنا تھاکہ ’’میرا خیال ہے ہم نے کوئی اچھا جواب دیا ہوگا۔ اسی وجہ سے کوئی کشیدگی نہیں ہوئی اور بہت جلد کشیدگی کم ہوگئی۔‘‘ظفر ہلالی کا کہنا تھا کہ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کافی چیزیں سامنے آجاتی ہیں۔پاکستان میں اسرائیلی پائلٹ کے پکڑے جانے سے متعلق اطلاعات گذشتہ چند روز سے گردش کر رہی ہیں جن کی تصدیق نہیں

ہو رہی تھی۔ دفاعی تجزیہ کار زید حامد نے بھی منگل کو اسرائیلی پائلٹ پکڑے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے علاوہ دفاعی فورمز میں بھی یہ دعوے کیے گئے تھے۔بظاہر ان اطلاعات کا نقطہ آغاز 28 فروری کو ایک اسرائیلی انٹرنیٹ کارکن ہاننیا نفتالی کی جانب سے شیئر کی گئی ایک تصویر بنی جس میں اسرائیلی اور بھارتی پائلٹ ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارتی طیارے مار گرائے جانے کے اگلے ہی روز یہ تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی گئی۔ ہاننیا اسرائیل کا بہت سرگرم سوشل میڈیا کارکن ہے اور حکومتی حلقوں میں بھی قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ وہ خود کو انسانی حقوق کا کارکن کہتا ہے تاہم حقیقت میں مسلمانوں بالخصوص فلسطینیوں کا کٹر دشمن ہے۔ہاننیا کی جانب سے 28 فروری کو شیئر کی گئی تصویر۔ اسرائیلی پائلٹوں کے چہرے پہلے سے ہی چھپائے گئے تھےجہاں انٹرنیٹ پر اسرائیلی پائلٹ کے حوالے سے یہ اطلاعات زیر گردش رہیں وہیں روزنامہ ’’امت‘‘ کو اسرائیل کے حوالے سے کئی دیگر اہم اطلاعات بھی موصول ہوئیں جن پر مبنی بدھ کی صبح شائع ہونے والی خبر میں بتایا گیا تھا کہ نئی دہلی میں جب بھارت کی فوجی اور سیاسی قیادت نے پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنایا تو اس کی اطلاع دو گھنٹے پاکستان کی آئی ایس آئی کے پاس پہنچ چکی تھی۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی جنگی منصوبے کے افشا ہونے کا شبہ امریکہ یا اسرائیل پر کیا جا رہا تھا کیونکہ انہی دو ممالک کے پاس ایسی ٹیکنالوجی تھی جس کے ذریعے ایک محفوظ ترین اجلاس کی بات سنی

جا سکتی تھی۔بھارت نے منگل کو بالاکوٹ کے قریب حملے میں اسرائیلی ساختہ اسپائس 2000 بم استعمال کیے تھے۔ فی الوقت یہ بم صرف میراج طیاروں پر ہی نصب کیے جا سکتے ہیں تاہم اسرائیل ان بموں کو روسی ساختہ سخوئی 30طیاروں پر نصب کرنے میں بھارت کی معاونت کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان قریبی فوجی تعاون کئی برسوں سے چل رہا ہے۔پاکستان نے بھارت کے جو طیارے تباہ کیے ان میں سے ایک مگ 21 تھا جس کا ملبہ پاکستانی حدود میں گرا جب کہ دوسرا سخوئی 30 بتایا جاتا ہے جس کا ملبہ مقبوضہ کشمیر میں گرا ہے تاہم بھارت اپنے دوسرے طیارے کی تباہی سے انکاری ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ دوسرا پائلٹ اسرائیلی ہے اس لیے بھارت کے لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ اس کا ایک اور پائلٹ پاکستان کی تحویل میں ہے۔ دوسری جانب اسرائیل بھی سرعام یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ اس کا پائلٹ پاکستان پر حملہ کرنے گیا تھا۔اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر تباہ ہونے والا طیارہ سخوئی 30 تھا تو اسرائیلی فضائیہ یہ طیارہ استعمال نہیں کرتی لہٰذا سخوئی 30 میں اسرائیلی پائلٹ موجود ہونے کا امکان بعض لوگوں کے خیال میں کم ہے۔ تاہم پاک فضائیہ کے پائلٹوں نے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں شامی مگ 21 طیارے اڑائے تھے جب کہ بھارت کی جانب سے اسپائس 2000 اسمارٹ بم سخوئی پر نصب کرنے کے پروگرام کو مد نظر رکھا جائے تو اسرائیلی پائلٹوں کی جانب سے سخوئی 30 اڑانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔اس کے علاوہ بھارتی میڈیا یہ بھی کہہ چکا ہے کہ پاکستانی طیاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے جو بھارتی جہاز اڑے تھے ان میں میراج بھی شامل تھے۔ اسرائیلی فضائیہ کے پاس میراج طیارے ہیں اور اس کے پائلٹ ان طیاروں کو اڑانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔اسرائیلی پائلٹوں کیخلاف پاکستان کی پہلی فتح نہیں۔اگر اسرائیلی پائلٹ کی گرفتاری کی خبر کی تصدیق ہوجاتی ہے تو اسرائیلی فضائیہ کے خلاف یہ پاکستان کی پہلی فتح نہیں ہوگی۔ 1974 میں پاک فضائیہ کے اس وقت کے فلائیٹ لیفٹیننٹ عبدالستار علوی نے شامی فضائیہ کا مگ 21 طیارہ اڑاتے ہوئے اسرائیلی میراج مار گرایا تھا۔ مار گرائے گئے اسرائیلی پائلٹ کیپٹن ایم لٹز کی وردی آج بھی پی اے ایف میوزیم کراچی میں موجود ہے۔پاکستانی فضائیہ کے پائلٹوں نے 1967 اور 1973 کی دونوں عرب اسرائیل جنگوں میں عرب ممالک کی طرف سے حصہ لیا تھا۔1998ءمیں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے پہلے اسرائیلی طیارے سرینگر پہنچنے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ یہ طیارے پاکستانی ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے کیلئے وہاں پہنچے تھے تاہم حملے کا ارادہ ترک کردیا گیا۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.