اڈیالہ جیل کی چار دیواریوں اور قید خانے میں بھی نواز شریف پر زمین تنگ ۔۔۔۔سابق وزیراعظم کے خلاف عدالتوں نے اور کون کون سے کیس کھولنے کا اعلان کر دیا ؟ خبر آ گئی
نواز شریف کے خلاف مقدمے پھر شروع، پیر کو احتساب عدالت نے طلب کرلیا،احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز، فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنسز کی سماعت 13 اگست کو مقررکردی گئی، واجد ضیا کو بھی طلبی کا نوٹس جاری کردیا گیا، تفصیلات کے مطابق احتساب کورٹ نمبر 2 نےالعزیزیہ اسٹیل ملز
اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنسز کی سماعت 13 اگست کو مقرر کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو پیش کرنیکا حکم دیا ہے جبکہ استغاثہ کے مرکزی گواہ پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو بھی طلبی کا نوٹس جاری کردیا ہے، جمعرات کو احتساب عدالت نمبر 2 کے جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نواز شریف کیخلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کی، فاضل جج نے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی سے استفسار کیا زیرسماعت ریفرنسز میں کارروائی کہاں تک پہنچی؟ مظفر عباسی نے آگاہ کیا العزیزیہ اسٹیل ملز میں واجد ضیاء کے بعد صرف ایک گواہ کا بیان باقی ہے دونوں ریفرنسز میں تین ملزمان ہیں، نوازشریف کیخلاف کارروائی چل رہی ہےجبکہ انکے صاحبزادوں حسین اور حسن نواز کو احتساب عدالت عدم حاضری پر اشتہاری قرار دے چکی ہے،فاضل جج نے اڈیالہ جیل میں قید نواز شریف کو آئندہ سماعت پر پیش کرنیکا حکم دیدیا دوسری جانب استغاثہ کے مرکزی گواہ واجد ضیاء کو بھی پیر کو پیش ہونیکا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔جبکہ دوسری جانب ایک اور خبر کے مطابق سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ شہباز شریف اپوزیشن احتجاج میں اسلام آباد پہنچنا نہیں چاہتے تھے، شہباز شریف اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں لیڈر اچھے نہیں ،ن لیگ کے سیاسی گورکن ثابت ہوں گے،
شہباز شریف اگر اپوزیشن لیڈر بنے تو بہت خوفناک بات ہوگی، احتجاج میں بلاول، آصف زرداری، اسفند یار ولی بھی نہیں تھے تو شہبازشریف کی غیرموجودگی پر سوال کیوں اٹھایا جارہا ہے، ن لیگ پنجاب میں اور پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی جگہ خراب کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں،عمران خان خیبرپختونخوا میں وزارت اعلیٰ کیلئے عاطف خان کو لانے میں ناکام رہے، محمود خان کی نامزدگی میرٹ پر کی ہے،یہ نامزدگی سمجھوتہ ہے،یہ فیصلہ صوبے میں پی ٹی آئی کے اندر سیاست کا مظہر ہے،نواز شریف کو جیل جانے سے انتخابات کے بعد بہت فائدہ ہوا ہے، نواز شریف واپس نہ آتے تو ن لیگ کی پوری سیاست بکھر جاتی۔ان خیالات کا اظہار حفیظ اللہ نیازی، مظہر عباس، امتیاز عالم، شہزاد چوہدری، ریما عمر اور ارشاد بھٹی نے جیو نیوز کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں میزبان عائشہ بخش سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔میزبان کے پہلے سوال اپوزیشن احتجاج سے شہباز شریف غائب کیوں؟ کا جواب دیتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ شہباز شریف غیرمعمولی ایڈمنسٹریٹر ہیں لیکن ضروری نہیں کہ اچھا ایڈمنسٹریٹر ایک لیڈر بھی ہو، شہباز شریف کو اندازہ نہیں کہ نواز شریف کتنا بڑا بیانیہ دے کر جیل گئے ہیں،شہباز شریف کو نواز شریف کے بیانیہ کو چلتے رہنے دینا چاہئے،
تیرہ جولائی کو نواز شریف جس طمطراق سے جیل گئے اس کا نتیجہ پچیس جولائی کو اس لئے نہیں نکلا کہ شہباز شریف کی انتخابی مہم میں نرمی بہت زیادہ تھی۔ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اپوزیشن احتجاج میں پہنچنا نہیں چاہتے تھے ورنہ کل لاہور سے چار فلائٹس اسلام آباد آئیں، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بلاول، آصف زرداری اور سراج الحق کس خراب موسم کی وجہ سے احتجاج میں نہیں پہنچ پائے،شہباز شریف نے ہمیشہ گڈ کوپ کا کردار ادا کیا اس لئے ریلی کبھی ایئرپورٹ نہیں پہنچے گی ، شہباز شریف کی اپنی مجبوریاں بھی ہیں کیونکہ ان کا داماد بھی اشتہاری ہے اورخود ان پر ماڈل ٹائون اور 56کمپنیوں کی تلوار لٹک رہی ہے۔امتیاز عالم نے کہا کہ شہباز شریف اپوزیشن احتجاج میں اسلام آباد پہنچنا نہیں چاہتے تھے، شہباز شریف دودھ پینے والے مجنوں ہیں جو ہمیشہ حکمرانی میں یہ گرجتے برستے رہے ہیں، شہباز شریف اگر اپوزیشن لیڈر بنے تو بہت خوفناک بات ہوگی، شہباز شریف نے عمران خان کو مکمل واک اوور دیا اور انتخابی مہم کا ٹیمپو توڑ دیا،ن لیگ تاریخی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں پھلتی پھولتی رہی ہے، شہباز شریف ن لیگ کی قیادت ملنے کے باوجود اسے کیش کرانے میں ناکام رہے،
شہباز شریف ن لیگ کے سیاسی گورکن ثابت ہوں گے۔شہزاد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کے بعد پارلیمانی سیاست شروع ہونے والی ہے، ن لیگ پنجاب میں اور پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی جگہ خراب کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، شہباز شریف احتجاج میں پہنچنا نہیں چاہتے تھے اس لئے اسلام آباد نہیں آئے۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے باہر اپوزیشن کا احتجاج آخری مظاہرہ نہیں تھا، یہ کیوں سمجھا جارہا ہے کہ شہباز شریف آئندہ بھی کسی مظاہرے میں نہیں آئیں گے،احتجاج میں بلاول، آصف زرداری، اسفند یار ولی بھی نہیں تھے تو شہبازشریف کی غیرموجودگی پر سوال کیوں اٹھایا جارہا ہے، ممکن ہے اپوزیشن کے اندر اختلافات کی وجہ سے یہ لیڈرز احتجاج میں شامل نہیں ہوئے، شہباز شریف ابھی تک اقتدار کے نشے سے باہر نہیں نکلے ہیں اسی لئے انہیں اپوزیشن لیڈر بننے میں مشکل ہورہی ہے۔ریما عمر نے کہا کہ شہباز شریف کا بیانیہ کنفیوژن کا شکار نظرا ٓتا ہے، وہ احتجاج کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کررہے، شہباز شریف اپنے لیے بہتر ڈیل کرنا چاہتے ہیں، وہ نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ آگے لے کر نہیں چل سکتے، شہباز شریف کی قیادت کی کمزوریاںن لیگ کیلئے بہت نقصان دہ ہوں گی،
اپوزیشن کے احتجاج میں اداروں سے متعلق جو تقاریر ہوئیں شہباز شریف اس طرح کے تنازعات سے دور رہتے ہیں۔دوسرے سوال کیا نئے پاکستان میں میرٹ کی بنیاد پرنامزدگیاں کی جارہی ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے ارشاد بھٹی نے کہا کہ ق لیگ ، ایم کیو ایم سے اتحاد اور سعد رفیق کیخلاف سپریم کورٹ میں جانے سے لگتا ہے کہ عمران خان کو اقتداری سیاست کی مجبوریوں کا اندازہ ہورہا ہے، عمران خان نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کیلئے محمود خان کی نامزدگی میرٹ پر کی ہے۔ امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ عمران خان خیبرپختونخوا میں وزارت اعلیٰ کیلئے عاطف خان کو لانے میں ناکام رہے، اس سے ثابت ہوتا ہے آپ کتنے ہی مقبول لیڈر کیوں نہ ہو پارٹی لابنگ سے ماورا ہو کر فیصلے نہیں کیے جاسکتے ہیں، عمران خان نے محمود خان کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نامزد کر کے سمجھوتہ کیا ہے۔حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ محمود
خان کی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کیلئے نامزدگی میرٹ پر نہیں بلکہ سمجھوتہ ہے۔شہزاد چوہدری نے کہا کہ پرویز خٹک کا خیبرپختونخوا میں جتنا اثر ہے ان کے دبائو کو جھیل جانا ہی عمران خان کا ہی کمال ہے، پرویز خٹک کے دور میں پی ٹی آئی میں بہت زیادہ دھڑے بندی دیکھنے میں آئی، خیبرپختونخوا میں پچھلے پانچ سال میں پرویز خٹک کی قیادت بہت کمزور رہی، عمران خان نے پرویز خٹک کو دوبارہ وزیراعلیٰ نہ بنا کر درست فیصلہ کیا۔ریما عمر کا کہنا تھا کہ محمود خان کو میرٹ پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نہیں بنایا گیا ہے، اگر اقتدار کیلئے سمجھوتہ کیا جائے تو پھر دورانِ حکومت بھی سمجھوتے ہی کرنے پڑتے ہیں، امید ہے عمران خان قومی معاملات پر سمجھوتے نہیں کریں گے۔(ز،ط)
Comments are closed.