’’ اڈیالہ جیل میں شریف فیملی کی چیخیں اس دن ساری جیل نے سنی جب ۔ ۔ ۔‘‘ نوازشریف اور مریم نواز سے ملاقات کرکے آنیوالے صحافی نے ایسی بات بتادی کہ آپ کو بھی بے حد دکھ ہوگا

سیاسی قیدیوں کو اپنی آغوش میں پناہ دینے والی راولپنڈی میں واقع اڈیالہ جیل ان دنوں تین بار ملک کے منتخب وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز، ان کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور ان کے ساتھی حنیف عباسی کی میزبان ہے لیکن اسیری کے دوران ایک دن ایسا بھی آیا جو شریف فیملی کیلئے سب سے پریشان کن تھا اور چیخیں بھی پوری جیل نے سنی۔

روزنامہ جنگ میں ارشد وحید چوہدری نے لکھا کہ ’’ نوازشریف اور مریم وغیرہ سے ملاقات کے لیے میٹنگ روم کی طرز پر قائم ہال میں چار قطاروں میں لگی کرسیوں پر تقریباً تیس سے پینتیس افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ اس میں ایک ایئر کنڈیشن اور دو پنکھے لگائے گئے ہیں، ملاقاتیوں کی نقل و حرکت کی مانیٹرنگ کیلئے کلوز سرکٹ کیمرے بھی دکھائی دیتے ہیں جبکہ قیدیوں اور ملاقاتیوں کے

درمیان ہونے والی گفتگو سننے کیلئے متعلقہ عملہ بھی ارد گرد ہی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اونچی آواز میں صرف غیر سیاسی گفتگو ہی کی جا سکتی ہے۔ ہال میں داخل ہونے پرمیاں صاحب نے قلم کار کو خصوصی عزت دیتے ہوئے مریم نواز کی قریبی نشست پر بیٹھنے کا کہا ,نواز شریف اور مریم نواز کے وزن میں نمایاں کمی کو دیکھ کرجیل کے شب وروز کا اندازہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن باپ بیٹی استفسار کے باوجود کوئی حرف شکایت زبان پرنہ لائے۔ مروت کے قائل نواز شریف ہر ملاقاتی سے کھڑے ہو کر سلام دعا کرتے جبکہ ان کی طرف سے یک جہتی کا اظہار کرنے پر خود ان کی ہمت بندھاتے اور ملاقاتیوں سے صرف دعا کرنے کی درخواست کرتے۔

نواز شریف کے ہاتھ میں چھوٹی تسبیح تھی جبکہ وہ آسمانی رنگ کی اپنی پسندیدہ شلوار قمیص میں ملبوس تھے ،میں نے مریم سے استفسار کیا کہ کیا خود احتسابی کے دوران باور ہوا کہ اس ہونی کو روکا جا سکتا تھا توایک توقف کے بعد ٹھوس لہجے میں نفی میں جواب دیتے انہوں نے کہا کہ وہ کچھ بھی کر لیتے ہونا یہی تھا کیونکہ کرنیوالے ،طے کر چکے تھے۔ اپنی ضمانت پر رہائی کے بارے میں باپ بیٹی بدستور بے یقینی کا شکار نظر آئے لیکن اپنے مقصد کو پانے کا عزم ایسا غیرمتزلزل کہ کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں۔ بطور انسان دونوں صرف نازک رشتوں کے باعث کمزور پڑتے دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لندن میں زیر علاج اپنی اہلیہ کے ذکر پر نواز شریف متفکر اور بطور بیٹی اپنی والدہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کی آواز رندھ جاتی ہے اور وہ کوشش کرتی ہیں کہ آنسو ان کی آنکھوں سے باہرنہ چھلکنے پائیں۔

مریم نواز نے بتایا کہ ان کے دل پر صرف ایک بوجھ ہے کہ ان کی والدہ کلثوم نواز سوچتی ہیں کہ ہر روز ان سے ویڈیو کال پر بات کرنے والی ان کی بیٹی سیاسی زندگی میں اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ اب ہفتے میں صرف ایک دن چند منٹ کیلئے ان کا حال پوچھنے کیلئے کال کرتی ہے۔ میاں صاحب نے بتایا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک دن 20منٹ کیلئے جیل کے پی سی او سے ٹیلی فون کر سکتے ہیں اور براستہ لاہور لائن ملنے سے اس میں سے بھی تین چار منٹ صرف ہوجاتے ہیں۔

ان کیلئے عید الضحی پر میاں صاحب کی والدہ ( آپی جی) کی جیل میں ان سے ملاقات کو یاد کرنا بھی انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ جب وہ جیل میں بیٹے اور پوتی سے ملیں تو پوری جیل میں ان کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ بیٹے اور پوتی کو جیل میں چھوڑ کر واپس جانے کیلئے بھی تیار نہ تھیں اور بضد تھیں کہ ان کیساتھ ہی رہیں گی۔ جب روتی ہوئی والدہ کوزبردستی واپس بھیجا جا رہا تھا تو تب بیٹے کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ میاں صاحب سے معلوم ہوا کہ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اورباپ بیٹی کو ایک دوسرے سے صرف اتوار کو ملاقات کرنے کی اجازت ہے جو عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے‘‘۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.