افغانستان میں مدرسے پر بمباری، لوگ جب موقعہ پر پہنچے تو شہید بچوں کے ہاتھ میں کیا چیز تھی؟؟ ہر آنکھ اشکبار

افغان صوبے قندوز کے ضلع دشت ارچی میں مسجد و مدرسہ دارالعلوم الہاشمیہ العمریہ پر افغان ائیرفورس کی وحشیانہ بمباری میں شہید حفاظ میں سے بیشتر کے ہاتھوں میں شہادت کے بعد بھی قرآن پاک کے نسخے موجود تھے۔ حفظ القرآن کی خوشی میں دئیے جانے والے تحائف ننھے شہدا کی نعشوں کے درمیان بکھرے پائے گئے۔ یہ مناظر دیکھ کر امدادی کارروائیوں کیلئے پہنچنے والے مقامی افراد کی آنکھیں اشک بار ہوگئی تھیں۔ دل دوز سانحے پر مقامی عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ عوام نے امریکی کٹھ پتلی کا بل حکومت کے خلاف مظاہروں کا انعقاد بھی کیا۔ دوسری

جانب افغان وزارت دفاع کے حکام اور گورنر قندوز عبدالجبار ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وحشیانہ کارروائی طالبان جنگجوﺅں ہی کے خلاف قرار دینے پر مصر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد و مدرسہ میں حفاظ کرام کی دستار بندی کی تقریب نہیں ہورہی تھی، بلکہ وہاں طالبان جنگجوﺅں کی کوئٹہ شوریٰ کا ایک اہم عسکری اجتماع منعقد کیا جارہا تھا تاہم دشت ارچی کے علمائے کرام اور عوام نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔ سانحے کے بعد جاری کی جانے والی تصاویر میں واضح طور پر علمائے دین اور ننھے حفاظ کی بڑی تعداد کو سفید لباس میں پھولوں کے ہار پہنے مدرسے سے متصل صحن میں بیٹھا دیکھا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ مشن کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2017ءمیں بتایاگیا ہے کہ ایک سال میں شہید و زخمی ہونے والے

افغان سویلین کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ ان میں 3 ہزار 438 شہری شہید اور 7 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ سویلین پروٹیکشن ایڈوکیسی گروپ برائے افغانستان نے بتایا ہے کہ 2018ءکے ابتدائی تین ماہ میں افغان سویلین شہادتوں کی تعداد 3222 ہوچکی ہے۔

روزنامہ امت کے مطابق نیویارک ٹائمز سمیت دیگر عالمی میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ دشت ارچی میں جس مسجد و مدرسے پر افغان ائیرفورس کے گن شپ ہیلی کاپٹروں سے بمباری اور شیلنگ کی گئی، اس میں علمائے دین، حفاظ اور طلباسمیت بچوں کے والدین بھی جان سے گئے جبکہ درجنوں ننھے حفاظ بمباری سے ہاتھ پیر الگ ہوجانے کے سبب عمر بھر کیلئے معذور ہوچکے ہیں۔ دوسری

جانب افغان وزارت دفاع کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ایم رومانش نے کا الزام ہے کہ دارالعلوم الہاشمیہ العمریہ میں حفاظ کی دستار بندی کی تقریب منعقد نہیں ہورہی تھی، بلکہ یہ مسلح طالبان جنگجوﺅں کا اجتماع تھا، جسے افغان ائیرفورسز کی جانب سے نشانہ بنایا گیا اور ایک جنگجو کمانڈر سمیت 21 طالبان کو ہلاک کیا گیا۔ جبکہ چینل نیوز ایشیا سے گفتگو میں گورنر قندوز نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان گن شپ ہیلی کاپٹروں نے طالبان کے ٹریننگ سنٹر کو نشانہ بنایا ہے۔ واضح رہے کہ حملے کی اطلاعات پر امریکی افواج نے میڈیا میں وضاحت جاری کردی تھی کہ قندوز کی مسجد و مدرسے پر انہوں نے حملہ نہیں کیا، بلکہ یہ آپریشن افغان فضائیہ کا تھا۔

ادھر تازہ اطلاعات کے مطابق گورنر عبدالجبار نے قندوز ہسپتال کا دورہ کرکے تمام زخموں پر دباﺅ ڈالا ہے کہ اگر انہوں نے علاج کرانا ہے تو اپنا بیان تبدیل کرنا ہوگا اور یہ کہنا پڑے گا کہ مدرسے میں طالبان کمانڈرز اور جنگجو بھی موجود تھے۔ اگر ان کا بیان حکومت کے خلاف ہوا تو ٹریٹمنٹ روک دی جائے گی۔ اس حوالے سے قندوز میں موجود فضل خان نامی نوجوان نے ٹویٹر پر بتایا ہے کہ دارالعلوم الہاشمیہ العمریہ میں 300 کے قریب شہادتیں ہوئی ہیں، لیکن افغان حکومت حقائق کو چھارہی ہے۔ ایک افغان نوجوان اسفند یار بھٹانی نے موبائل فون سے بنائی جانے والی ویڈیو

اپ لوڈ کی ہے، جس میں مدرسے کے احاطے میں زمین پر پڑے شہیدوں کے جسد خاکی دیکھے جاسکتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے سانحے کے ایک عینی شاہد ”ایم“ کے حوالے سے لکھا ہے کہ شہدامیں بڑی تعداد ننھے حفاظ کی ہے، جو دستار بندی کیلئے جمع تھے۔ ”ایم“ نے نیویارک ٹائمز کو بتایا ہے کہ گن شپ ہیلی کاپٹروں نے سب سے پہلے حفاظ بچوں کی صفوں پر راکٹ داغے۔ عالمی جریدے چینل نیوز ایشیا نے ایک عینی شاہد عبدالغنی خان کے حوالے سے بتایا ہے کہ بمباری کے نتیجے میں ننھے حفاظ کے جسم کے پرخچے اُڑگئے اور زخمیوں کی چیخ و پکار سے آسمان

لرز اُٹھا۔ عبدالغنی کے مطابق انہوں نے اپنی نگرانی میں درجنوں زخمی بچوں کو ہسپتال پہنچایا، جہاں بستر کم پڑگئے تو ان زخمیوں کو راہداریوں میں فرش پر لٹادیا گیا۔ واضح ر ہے کہ مدرسے پر وحشیانہ بمباری کی سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی شدید مذمت کی ہے۔
دوسری جانب بمباری سے تباہ ہونے والی مسجدو مدرسے کے ملبے سے اب تک لاشیں نکالنے کا کام جاری ہے۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ دارالعلوم الہاشمیہ العمریہ میں بخاری شریف کا دورہ حدیث

اور حفظ قرآن کے ختم کے حوالے سے تقریب جاری تھی، جس کیلئے حکومت سے باقاعدہ اجازت لی گئی تھی اور اس تقریب کے پوسٹرز بھی چھاپے گئے تھے۔ تقریب میں شریک علمائے کرام میں مولانا عبدالمالک (کابل)، شیخ عبدالحکیم (قندوز)، مولانا محمد عمر (قندوز)، مولانا ممتاز اللہ (غزنی)، محمد نعیم، غلام سرور، مولوی عبدالستار، مولوی عبدالمنان، قاری نور اللہ اور قاری دین محمد شامل تھے جبکہ تقریب سے خطاب کرنے والوں میں مولانا عبدالرحمان، مولانا محمد غوث، مولانا عبدالوارث، مولانا نظیف اللہ، مولانا محمد نعیم، مولوی اسماعیل راشد، اسد اللہ، مفتی امان اللہ، شیر محمد حق یار، مولانا امیر اللہ اور مالانا فضل الرحمان شامل تھے۔ تقریب میں قرآن حفظ کرنے والے بچوں کے والدین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.