’اغوا کے بعد 15 ماہ تک میرا مسلسل ریپ کیا گیا، ایک دفعہ بلیڈسے خود کشی کرنے لگی لیکن پھر یہ چیز نظر آئی تو رک گئی‘ بیرون ملک اغوا ہونے والی خاتون صحافی نے انتہائی دردناک تفصیل بتادی
کینیڈین خاتون صحافی امینڈا لنڈہوٹ کو 2008ءمیں اس کے فوٹوگرافر بوائے فرینڈ سمیت صومالیہ میں شدت پسند تنظیم بوکوحرام نے اغواءکر لیا اور اس کے بعد اسے مسلسل 15ماہ تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ میل آن لائن کے مطابق امینڈا نے اپنے اس کٹھن دور کے بارے میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ”میں اور میرا بوائے فرینڈ نیگل برینن، جو میرے ساتھ بطور فوٹوگرافر کام کرتا تھا،
صومالیہ میں بوکوحرام کے خلاف جاری جنگ کی کوریج کے لیے وہاں گئے لیکن صومالیہ جانے کے تین دن بعد ہی ہمیں اغواءکر لیا گیا۔ شدت پسندوں نے ہمیں الگ الگ کر دیا اور مجھے ایک تاریک عمارت میں قید کر دیا جہاں مجھ پر جنسی و جسمانی تشدد روزکا معمول بن گیا۔“
امینڈا کا کہنا تھا کہ ”میں نے یہ 15ماہ موت کی آغوش میں گزارے۔وہ مجھ پر اس قدر تشدد کرتے کہ میں نے کئی بار خودکشی کرکے اس تشدد سے نجات حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ ایک بار میں بلیڈ سے خودکشی کرنے ہی والی تھی کہ مجھے ایک چڑیا نظر آئی۔ یہ صبح کا وقت تھا اور جس کمرے میں مجھے بند کیا گیا تھا اس میں معمولی روشنی آ رہی تھی۔ چڑیا اس روشنی میں میرے اردگرد پھدکتی پھر رہی تھی۔
میں ہمیشہ سے ایسی نشانیوں پر یقین رکھتی ہوں۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے یہ میرے لیے کوئی پیغام ہو جس میں مجھے کہا جا رہا ہو کہ صبر کرو۔ چنانچہ اس چڑیا کو بھی میں نے پیغام رساں سمجھا اور خودکشی کا ارادہ ترک کر دیا۔“ رپورٹ کے مطابق اغواءکاروں نے امینڈا اور نیگل کی رہائی کے عوض 30لاکھ ڈالر تاوان طلب کیا تھا۔ 2009ءمیں ان کے رشتہ داروں نے شدت پسندوں کو تاوان ادا کرکے رہا کروا لیا۔ جس شخص نے امینڈا اور نیگل کے اغواءکی منصوبہ بندی کی تھی اس کا نام علی عمر ایدر تھا، جو کینیڈا ہی کا رہائشی تھا۔ اسے گرفتار کرکے مقدمہ چلایا گیاجس میں اسے 15سال قید کی سزا سنا کر جیل بھجوایا جا چکا ہے۔