میں القاعدہ میں برطانوی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ تھا میں نے اسامہ بن لادن پر بیعت کی اور دیکھا کہ ۔۔۔‘سابق خفیہ ایجنٹ نے پہلی مرتبہ ایسی تفصیلات بتا دیں کہ ہر کوئی دنگ رہ گیا
یوں تو خفیہ ایجنسیوں کا ہر پہلو ہی ایک عجب گورکھ دھندہ ہوتا ہے لیکن خاص طور پر حیرتناک اور پراسرار وہ لوگ ہوتے ہیں جو ڈبل ایجنٹ کہلاتے ہیں۔ یہ بظاہر ایک ایجنسی کے لئے کام کرتے ہیں لیکن دراصل کسی اور ایجنسی کے وفادار ہوتے ہیں۔ ایک ایسا ہی ڈبل ایجنٹ برطانوی ایجنسی ایم آئی 6 کے لئے کام کرنے والا ایمن ڈین ہے جو کئی سال تک شدت پسند تنظیم القاعدہ کا حصہ بھی رہا۔ دی مرر کے مطابق ایمن ڈین دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران برطانیہ کا ٹاپ جاسوس رہا ہے جبکہ اسی وقت وہ القاعدہ میں بھی انتہائی خاص مقام و مرتبہ رکھتا تھا۔
ایمن کا کہنا ہے کہ اس نے القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کی اور القاعدہ میں اسے بم بنانے والا سب سے بڑا ماہر ہونے کی وجہ سے ہر کوئی عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔ امریکہ پر 9/11حملے کرنے والے دہشت گردوں کے ساتھ بھی ایمن کا قریبی میل جول رہا ۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ القاعدہ کے کیمیکل ہتھیاروں کے پروگرام سے وابستہ تھا اور کئی مواقع پر اس نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر جاسوسی کی اور سینکڑوں افراد کی جانیں بچائیں ۔
ایمن نے القاعدہ میں گزرے اپنے وقت کے بارے میں ’’Nine lives: My time as MI 6 Top Spy inside Alqaida‘‘کے نام سے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ روس کے ڈبل ایجنٹ سرگئی سکریپال کو زہر دیے جانے کے باوجود وہ اس بات سے خوفزدہ نہیں ہے کہ اس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوسکتاہے۔ اس نے اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے بارے میں
بات کرتے ہوئے کہا ’’میرے متعدد سابقہ ساتھی یا تو ہلاک کردیے گئے ہیں یا جیلوں میں ہیں ۔میں احتیاط کر تاہوں لیکن حد سے زیادہ پریشان نہیں ہوتا۔ میں ایسی جگہوں پر جانے سے پرہیز کرتا ہوں جہاں میرے سابقہ ساتھیوں کی موجودگی کا احتمال ہو سکتاہے۔ القاعدہ میں کام کے دوران میں برطانیہ میں اپنے رابطہ کاروں کو القاعدہ کے خفیہ کیمپوں کے بارے میں اطلاعات بھیجا کرتا تھا ۔القاعدہ کی ٹریننگ پروگرام اور نئے ہتھیاروں کے متعلق بھی میں نے متعدد راز برطانوی خفیہ ایجنسی کو پہنچائے ۔ 9/11دہشت گردی کرنے والے کچھ لوگوں سے بھی میری ملاقات ہوئی لیکن اس وقت
ایم آئی 6کے پاس اتنی اینٹلی جنس معلومات نہیں تھیں کہ اس حملے کو روکا جا سکتا۔ اگر اس وقت القاعدہ کے 12شعبوں میں سے ہر ایک میں ہمارا ایک جاسوس ہوتا تو شاید ان حملوں کو روکا جا سکتا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ القاعدہ میں ہمارے کتنے جاسوس تھے لیکن شاید ان کی تعداد دو یا تین سے زیادہ نہیں رہی ہوگی ۔
نیویارک سب وے پر حملہ کرنے کیلئے ایک کیمیکل ہتھیار افغانستان کی ایک لیبارٹری میں بنایا گیا تھا ۔ اس حملے کے متعلق میں نے برطانوی خفیہ ایجنسی کو خبر دار کیا جنہوں نے امریکہ کو اطلاع
دی اور عین موقع پر اس حملے کو ناکام بنا دیا گیا ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں میری رائے ہے کہ یہ عنقریب ختم نہیں ہورہی دراصل مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ سے آنے والے پناگزینوں کے ساتھ بے پناہ خطرات بھی آرہے ہیں ۔ یہ برطانیہ اور پورے یورپ کیلئے ایک ایسا خطرہ ہے جس کا سامنا ہمیں آنے والے کئی سالوں تک رہے گا۔ ‘‘