ہم یہاں سے ایسے نکلے تھے آؤ تمہیں راستہ دکھاتے ہیں ۔۔۔۔ امریکہ کو افغانستان سے نکالنے کے لئے روس نے بڑی سپر پاور کو کیا رستہ دکھا دیا ؟ جانیے
پچھلے دنوں رُوس میں افغانستاں کو امریکہ کے چُنگل سے آزاد کروانے کے لئے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں طالبان نے نہایت جوش و خروش سے حصہ لیا۔ اِس کانفرنس میں دُنیا کے تمام ممالک کو مدعو کیا گیا تھا۔ جس میں امریکہ کے مندوب نے آبزرور کے طور پر شرکت کی۔
قارئین کو یا د ہو گا کہ ۱۹۷۹ء میں روس نے افغا نستان پر فوجی یلغار کرکے اُس پر قبضہ کر لیا تھا۔ رُوس کی افواج لگ بھگ نو برس تک افغانستان پر قابض رہیں۔ سو ویت یو نین اور اس کی فوجوں کے خلاف جی بھر کر بھڑاس نکالی گئی۔ امریکہ اور اُس کے حواری ممالک کا الزام تھا کہ روس افغانستان پر قبضہ کرکے پاکستان کے خلاف جار حیت کا مظاہرہ کرکے گوادر کے ذریعے گرم پا نیوں پر قبضہ کر یگا۔ اس سے امریکہ اور نیٹو ممالک کی ایک دوسرے کے خلف جنگ شروع
ہو جائیگی اور عین ممکن ہے کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہو جائے۔ خدشہ یہ تھا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان جنگ شروع ہو جاتی ہے تو امکان اغلب تھا کہ جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال ہو گا۔ جس سے جنوبی ایشیا کے ممالک بُری طرح متاثر ہو نگے۔ لہذا امریکہ نے ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت افغانستان کو روسی تسلط سے چھڑانے کے لئے ایک پلان بنایا۔ اُن دنوں میں اتفاق سے جنرل ضیاء کی حکومت تھی اور مُلک میں مارشل لاء لگا ہوا تھا۔ امریکہ سے
پاکستان کے تعلقات بھی اِسی بنا پر کشیدہ تھے۔ کیونکہ امریکہ کے آئین کے مُطابق امریکہ کسی بھی ایسے مُلک کی آئینی اور اخلاقی طور پر مدد نہیں کر سکتا جہاں عوام کی مرضی کے خلاف سول حکومت کو بر خاست کرکے کسی جرنیل نے قبضہ کر لیا ہو۔ لیکن مصیبت اور مجبوری یہ تھی کہ پاکستان کے علاوہ ،علاقے میں ایسا کوئی دوسرا مُلک موجود نہ تھا جو کہ ان حالات میں ایک بفر سٹیٹ کے طور پر کام کر سکے۔ امریکہ کو روس کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے افغانیوں کے علاوہ پاکستان کے فوجی جر نیلوں کی بھی اشد ضرورت تھی ۔لہذا سعودی عرب کے ذریعے پاکستانی کی فوجی حکومت سے را بطہ قایم کیا گیا۔