اپنے بچے کی آواز سنے 50 دن گزر گئے، امریکی ظلم کا شکار ماں رو پڑی
مجھے اپنے 6 سالہ ننھے بچے کی آواز سنے ہوئے 50 دن سے اوپر ہوگئے وہ کیسا ہے تاحال کچھ نہیں پتا، ہنڈوراس سے غیر قانونی طور پر امریکا آنے کے بعد حراستی مرکز میں موجود ایک ماں رونے لگی۔
یاسیکا واحد ماں نہیں جس کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا۔ 50 دن قبل ہنڈوراس اور دیگر ملحقہ ممالک سے غیر قانونی طور پر امریکا آتے ہوئے یاسیکا کو بھی امریکی سیکیورٹی اداروں نے دیگر افراد کی طرح گرفتار کیا اور ٹرمپ کےنافذ کردہ قانون کے تحت اس کے بچے کو الگ جگہ اور اسے کسی دوسری جگہ حراستی کیمپ میں رکھ دیا گیا۔
چھ ہفتے گزرنے کے بعد بھی ماں کا اپنے 6 سالہ بچے سے کوئی رابطہ نہیں اور اسے بالکل نہیں پتا کہ اس کا بچہ کس حال میں ہے اور ماں اپنے بیٹے کی جدائی میں تڑپ رہی ہے۔
حراستی مرکز میں قید خاتون یاسیکا نے بی بی سی کو ایک بیان دیا جس میں بات کرتے ہوئے یاسیکا کی آواز بھرا گئی اور وہ رونے لگی۔ یاسیکا نے کہا کہ مجھے اپنے بچے کو دیکھے ہوئے 50 دن گزر گئے، میں نے بچوں کے حراستی مرکز میں کئی بار فون کیے مگر مجھے بچے سے متعلق کوئی معلومات نہیں دی گئیں۔
یاسیکا نے بتایا کہ وہ ہمیں کہتے ہیں کہ تم کرمنلز ہو، تمہیں جیل میں قید کردیا جائے گا اور تمہارے بچے پالنے کے لیے کسی اور کو دے دیے جائیں گے وہ ہم پر بری طرح چلائے جس سے ہمارے بچے خوف زدہ ہوگئے انہوں نے رات گئے ہمیں حکم دیا کہ وہ اپنے بچوں کو فرش پر چھوڑ دیں پھر وہ زبردستی ہمارے بچوں کو اٹھا کر لے گئے۔
چھ ہفتے گزارنے کے بعد یاسیکا اسی ہفتے جیل سے رہا ہوئی ہے اور اس کے پیر میں ٹریکر لگادیا گیا ہے اور اس پر غیر قانونی داخلے کا مقدمہ چل رہا ہے لیکن اس کا بچہ اسے نہیں دیا گیا، یاسیکا نے بتایا کہ مجھے اپنے بچے سے متعلق کچھ نہیں معلوم، فون کرتی ہوں تو انتظامیہ کے افراد کچھ نہیں بتاتے کہتے ہیں میرا بچہ نیویارک میں کہیں ہوگا۔
یاسیکا نے ایک اور درد ناک واقعہ بتایا کہ اس کی گرفتاری کے وہاں ایک عورت ایسی بھی موجود تھی جس کے ساتھ چند ماہ کا دودھ پیتا بچہ تھا ایک آفیسر نے اس سے کہا کہ تم کوئی جانور ہو جو بچے کو دودھ پلارہی ہے یہ کہہ کر وہ اس ماں سے بچہ چھین کر لے گئے اور سب کو ہتھکڑیاں پہنا دیں۔
متاثرہ ماں یاسیکا نے مزید بتایا کہ میں زیادہ دیر سو نہیں سکتی دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے اور آنکھ کھل جاتی ہے اور میں ٹھیک طرح سے سانس نہیں لے پاتی، میں اکیلی نہیں میری طرح اور بھی مائیں ہیں جنہیں نہیں پتا کہ ان کے بچے کہاں ہیں؟ یقیناً وہ ابھی تک ٹیکساس کے حراستی مرکز میں ہیں۔