ارب پتی شخص کی بیٹی جس کا ماہانہ خرچ 4 لاکھ روپے سے زائد، اسے تجرباتی طور پر انتہائی غریب گھرانے کے ساتھ رہنے پر مجبور کردیا گیا تو پھر کیا ہوا؟ آپ بھی جانئے

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس دنیا میں ایک جانب ایسے لوگ ہیں جنہیں معلوم نہیں کہ ان کی تجوریوں میں کتنی دولت بھری ہے تو دوسری جانب ایسے بھی ہیں جو صبح کھاتے ہیں تو معلوم نہیں ہوتا کہ شام کو پیٹ بھر سکیں گے یا نہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر تلخ حقیقت یہ ہے کہ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والوں کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ مفلس کی زندگی کس حال میں گزر رہی ہے۔ شاید اسی المیے کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانوی ٹی وی چینل فائیو نے ایک اچھوتی سیریز کا آغاز کیا جس میں انتہائی مالدار خاندانوں کے چشم و چراغ کو کچھ عرصہ کسی غریب اور مفلس خاندان کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے تا کہ وہ دیکھ سکیں کہ حقیقت میں یہ دنیا کیسی ہے۔

ایک ارب پتی برطانوی بزنس مین کی نوجوان بیٹی یاسمین اس ٹی وی سیریز کا حصہ بننے کے بعد ایک ایسے خاندان کے ساتھ رہ رہی ہیں جو کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے۔ یہ میاں بیوی اور اُن کے تین بچے حکومتی امداد پر گزارہ کر رہے ہیں یا کبھی کوئی تھوڑا بہت کام مل جائے تو اس سے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔

امیر کبیر ماں باپ کی بیٹی ہونے کے ناطے 19 سالہ یاسمین نے غیر معمولی عیش و عشرت کی زندگی گزاری ہے۔ ٹی وی سیریز ”رچ کڈز گوسکنٹ“ کا حصہ بننے کے بعد یاسمین نے پہلی بار عام انسانوں کی زندگی کو قریب سے دیکھا ہے۔ اس کے شب و روز دنیا کے مہنگے ترین ہوٹلوں اور تفریحی مقامات پر گزرتے رہے ہیں۔ وہ سمندر کی سیر کو جاتی ہے تو اس کے والد کی ذاتی لگژری کشتی اسے دستیاب ہوتی ہے۔ فضائی سفر کے لئے اس کے پاس ذاتی ہوائی جہاز ہے۔

اب یاسمین ایک عام خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہے تو حقیقی زندگی کو پہلی بار دیکھ رہی ہے۔ اس نے اپنی زندگی میں پہلی بار واشنگ مشین استعمال کی ہے اور یہ بھی پہلی بار ہی معلوم ہوا کہ اپنے کپڑے کیسے استری کرتے ہیں اور جوتے کیسے پالش کئے جاتے ہیں۔ کھانا پکانے کا تجربہ بھی اُس نے اپنی زندگی میں پہلی بار کیا ہے۔

یاسمین کا قیام 24 سالہ شیلا،ان کے خاوند مگیل، او ران کے دو بچوں کے ساتھ ویل وائن گارڈن سٹی کے ایک فلیٹ میں ہے۔ یہ لوگ میکسیکو سے آنے والے پناہ گزین ہیں جن کے پاس ابھی نہ رہنے کو اپنا گھر ہے اور نہ کوئی روزگار۔ ٹی وی شو کی تازہ ترین قسط میں یاسمین اس بات پر حیران و پریشان نظر آئیں کہ انتہائی قلیل رقم میں وہ اس گھر کے باورچی خانے کا خرچ کیسے چلاسکتی ہیں، کیونکہ اس خاندان کے پورے مہینے کے خرچ سے زیادہ اُن کے ایک دن کا خرچ رہا ہے۔

یاسمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے چینل فائیو کی ڈاکومنٹری کا حصہ بننے کا فیصلہ اس لئے کیا تاکہ سمجھ سکیں کہ حقیقی دنیا میں لوگ زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار انہوں نے زندگی کے ان دردناک پہلوﺅں کو دیکھا ہے اور اس بات کو محسوس کیا ہے کہ اس دنیا میں ایک عام آدمی کی حقیقی زندگی کس قدر تکلیف دہ ہے۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.